Episode 14 - Basement - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر14۔ بیسمنٹ - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

بیسمنٹ
سردیوں کی ایک شام وہ شہر کے مشہور پارک کی طرف چل پڑا۔دور تک فٹ پاتھ خالی تھا ۔ ہوا خنک تھی۔اس کی چال میں آج بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔ وہ زندگی کے ساٹھ سال جی چکا تھااور اس خاموشی کے ساتھ کہ اس کے سائے کو بھی اس کی زندگی کی چاپ سنائی نہ دی تھی۔ماں تو پیدا ہونے کے ساتھ ہی چل بسی اور باپ کو بھی مرے ہوئے زمانہ ہو گیاتھا۔

وہ ایک تاریک بیسمنٹ میں گزشتہ چالیس سال سے رہ رہا تھا۔
وہ صبح آفس جاتااور پورا دن کام میں لگا رہتا۔ شام کو بیسمنٹ میں آ جاتاجہاں نمی کی سرانڈ بارہ مہینے ہی ڈیرہ جمائے رہتی تھی ۔ وہ ایک عرصے سے یہاں رہتے رہتے عادی ہو گیا تھا۔اس نے یہاں اپنی ضرورت کی چیزوں کو ایسے ترتیب دیا تھا کہ اندھیرے میں بھی ان کو باآسانی استعمال کر سکتا تھا۔

(جاری ہے)

اس کا نوار کا پلنگ ایک کونے میں رکھا ہوا تھا۔اس کے ساتھ ہی ایک کشادہ میز جس پر ضرورت کی اشیاہ ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔یہاں ہمیشہ وقت ایک سا رہتا تھا۔ایک لمبے عرصے سے وہ یہی کرتا چلا آرہا تھا۔
 وہ چلتے چلتے پارک سے آگے مارکیٹ تک آ گیا۔
ہر طرف اندھیرا تھا ۔ درختوں پر با معنی سناٹا چھایاہوا تھا۔جسے وہ پڑھ سکتا تھا۔وہ سوچ رہا تھا یہ سناٹا باہر نہیں اس کے دل کے اندرکہیں کنڈلی مارے بیٹھا ہے اور اسے ڈستہ رہتا ہے۔
وہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا تو چند ہی باتیں اسے اپنی پوری زندگی کا خلاصہ نظر آتیں۔
اسی دوران وہ ایک دکان میں داخل ہوا۔ وہ پہلے یہاں کبھی نہیں آیا تھا اور نہ ہی اسے یہاں آنے میں کوئی دلچسبی تھی۔ناجانے اسے آج کیا سوجھی کہ ادھر آ نکلا۔روشنیوں نے یہاں کی ہر چیز کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔بچوں کے پہننے کے لیے عمدہ کپڑے ساتھ ہی کھیلونوں اور دوسری ضروریات کا سامان بڑی نفاست سے دکان میں رکھا گیا تھا۔
اسے ان چیزوں کی ضرورت کبھی پیش نہیں تھی ۔اسے چار سال کے بچے کے کپڑے دیکھتے ہوئے خیال آیا۔
دوکان دار اس کی طرف متوجہ ہو رہا تھا اور اس سے پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا اسے کس ڈیزائن میں کتنے سال کے بچوں کا ڈریس چاہیے؟
آج اس کے اندرایک کسک تھی۔ایک خالی پن تھا۔جس نے اس کی زندگی کو بے معنی بنا دیا تھا۔
 آج پہلی مرتبہ اسے شدت سے بیوی بچوں اور ایک خوبصورت گھر کا احساس ہونے لگا۔
اس نے ایک عمر میں ان سب خیالات
 سے کنارہ کشی کر لی تھی۔کیا ہر انسان کے لیے ضروری ہے ایسی ہی زندگی گزارے جو معاشرے میں سبھی گزار رہے ہیں یعنی شادی کرے اور بچے پیدا کر تا ہے۔
 اس نے وہاں کھڑی ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید رہی تھی ۔وہ دو بچوں کے ساتھ کپڑوں کی خریداری کر رہی تھی ۔بچے اسے خوب تنگ کر رہے تھے۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ شاید یہ میری بیوی ہے ۔
یہ دونوں میرے بچے۔
میری تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی تو پھر یہ میرے بچے کیسے ہو سکتے ہیں ؟
وہ خود ہی سوال کرتا جاتا اور پھر ان کے جوابات بھی دیتا چلا جاتا۔
 وہ چلتے چلتے دوکان سے باہر آ گیا۔
آج وہ اپنے معمول کے اوقات کا خیال کیے بغیر بے سود گھوم رہا تھا۔
اس نے اپنی زندگی کے ان پہلوپر کبھی نہیں سوچا تھا۔ وہ اپنی کم آمدنی میں کھانے پینے کے علاوہ با مشکل اس بیسمنٹ کا کرایہ ادا کر سکتا تھا۔
وہ اس عورت کے بارے میں سوچنے لگا ۔جسے اُس نے دوکان میں دیکھاتھا۔
 ایک لذت اور سرو رکا احساس اس کی رگ پے میں سرایت کرنے لگا۔
وہ واپس مڑا ۔۔۔۔
 دوکانیں،شاپنگ پلازے ، فوڈ پوائنٹ اس نے ہر جگہ دیکھالیکن وہ دوبارہ کہیں نظر نہ آئی۔کئی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ دکانوں میں شاپنگ کر رہی تھیں۔اسے بہت سی عورتوں پراسی عورت کا گماں ہوا،آج اس کے احساسات کی لگام اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
اچانک اسے وہی عورت سامنے سے آتی ہوئی دیکھائی دی۔وہ قریب آئی تو معلوم ہوا یہ کوئی اور ہے۔اس کے ساتھ دو بچے تھے جبکہ اس کے ساتھ ایک۔وہ چکرا کر رہ گیا ۔
اچانک اسے محسوس ہوا شاید اسے ایسی کوئی عورت ملی ہی نہ ہو اور یہ صرف اس کا وہم ہو۔؟
اس نے اپنے دماغ پر زور دیا اور سوچنے لگا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟وہ بلکل اسی کے جیسی تھی ۔میں خود اسے دوکان میں دیکھ چکا ہوں۔
آج اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے زندگی کا ڈھنگ بدل سا گیا ہے۔
اچانک اسے واپسی کا خیال آیا۔
”وہ آج ہرگز واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔“
 اسے لگا
وہ بیسمنٹ نہیں
 قبر ہے ۔
 جس میں جیتے جی ا س نے ساٹھ سال گزار دیے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے وہ بیسمنٹ کی تنہائی اور گہرے سناٹے سے ڈرنے لگا ۔
 اس کا دم گھٹنے لگا اورکھانسی کا شدید دورہ پڑا۔
اس کے ناک اور آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو گیا۔وہ لڑ کھڑا رہا تھا ۔
سردی مزید بڑھ رہی تھی ۔
اسے لگا جیسے یہاں سب کچھ ان دیکھا سا ہے۔اسے اپنی آنکھوں پر حیرت ہونے لگی ۔اس کے اردگرد جو کچھ ہے سب وہمہ ہے ، حقیقت نہیں۔
شاید حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔
ایسا کیسے ممکن ہے؟
کئی دیر تک وہ خود سے مکالمہ کرتا رہا اور سوچتا رہا ۔
زندگی اک وہمہ ہے۔

رات مزید گہری ہو رہی تھی ۔
وہ چلتا چلتا شہر کے مشہور پُل تک آ گیا۔نیچے ہائی وے پر تیز رفتار ٹریفک رواں تھی۔ہوا تیز ہو رہی تھی اور خنکی مزید بڑھنے لگی تھی۔اس کے ذہن میں ایک خلفشار تھا۔وہ سوچ رہا تھا۔
مسلسل سوچ رہا تھا۔۔۔!!!
آج ایک عمر کے بعد اس نے خود کو تیار کر لیا تھا۔
 وہ پُل کی دیوار پر چڑھ گیا اور بازو پھیلا دیے۔
۔
۔۔۔۔
ٹریفک رکی ہوئی تھی۔لوگ اکٹھے ہو رہے تھے
تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس آ گئی ۔
 گاڑیوں کے نیچے کچلی ہوئی لاش کا چہرہ بگڑ چکا تھا اوراہلکاراسے سٹریچر پر ڈال چکے تھے۔
دوبارہ ہائی وے پر ٹریفک رواں ہو گئی تھی ۔
وہ بیسمنٹ میں دوبارہ جانے کے لیے تیار تھا۔
روشن اندھیرے
 آج مجھے لائبریری میں کافی دیر رکنا پڑا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سی نئی کتابیں آج ہی بھیجی گئی تھیں جن کو اس کا حصہ بنانا تھا۔ڈائریکڑ صاحب نے اس بارے میں بڑی سختی کے ساتھ نوٹس جاری کیا تھا۔یونیورسٹی میں شام کی کلاسز ختم ہو چکی تھیں۔ تمام سٹوڈنٹ جا چکے تھے۔
ہم لائبریری میں چار لوگ تھے۔ ایک میں یعنی لائبریرین اور تین میرے ماتحت لوگ تھے۔ہم نے کام کو ایک ترتیب سے کرنا شروع کیا۔
سب سے پہلے تمام شعبہ جات کی کتابوں کوالگ الگ کیا ۔اس کے بعد ان میں لائبریری کارڈ نسب کیے اور پھر ان پر یونیورسٹی کی مہر لگا کر کتاب نمبر درج کر دیے۔یہ تین سو سے زائد کتابیں تھیں جن کو اب مختلف شعبہ جات کی الماریوں میں رکھنا تھا۔اس کام کو مکمل کرتے کرتے کافی ٹائم لگا۔گیارہ بج چکے تھے میں نے ان کو باقی کام سمجھایا اوران سے اجازت لی اور لائبریری سے باہر آگیا۔

ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔ہرے بھرے درخت بھی اندھیرے میں ڈوب چکے تھے۔ہلکی ہوا چل رہی تھی اور رات کی رانی کی بھینی بھینی خوشبومجھے مدہوش کر رہی تھی۔میں لائبریری کے باہر کچھ دیر یوں ہی دم بخود کھڑا رہا اورپھر مین گیٹ کی طرف چلنا شروع کر دیا۔سارا دن کام کی وجہ سے جسم تھک چکا تھا۔ایک عرصے کے بعد میرے زہن میں پھر وہی خیالات آنا شروع ہوئے ۔
کاش میں بھی یونیورسٹی میں پروفیسر ہوتا ۔ان سب جھنجھٹوں سے زندگی کتنی ہی آزاد ہوتی۔
انہی خیالوں میں ہی مین گیٹ تک آگیا ۔سارا دن لائبریری میں بند رہنے کی وجہ سے اس وقت میں کافی اچھا محسوس کر رہا تھا۔اس وقت یہاں سے کوئی ٹیکسی وغیرہ ملنے کی امید نہیں تھی۔ اس لیے میں مین روڑ کی طرف چل پڑا۔رات گہری ہو چکی تھی اور خاموشی خاموشی سے اپنا جال بن رہی تھی۔
میں یہاں مین روڑ پر کافی دیر کھڑا رہا لیکن کوئی ٹیکسی وغیرہ نہیں ملی۔اب یہاں سے مجھے لاری اڑے جانا تھا۔ اس لیے کہ میر ے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
میں نے پیدل چلنا شروع کر دیا۔ سڑک پر وقفے وقفے سے اکا دکا گاڑیاں گزرتی۔میں نے بہت سے گاڑی والوں کو لفٹ کے لیے ہاتھ دیا لیکن کوئی گاڑی نہ رکی۔اتنے میں سڑک کی دوسری طرف سے گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔
میں رک گیا اور گاڑی کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔گاڑی تھوڑی دور جا کر رک گئی۔میں گاڑی کے قریب گیا۔ فرنٹ گیٹ کا شیشہ کھلا تو سامنے ایک نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔میری جیسے ہی لڑکی پر نظر پڑی میرے دل نے کہا کیا غضب کی لڑکی ہے۔گول دودھیاچہرہ،ابھرے ہوئے گال اور شانوں پر بکھری زلفیں اس کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں۔
میں اس سے مخاطب ہوا”میڈم مجھے لاری اڑے جانا ہے۔
رات کافی ہو چکی ہے اور کوئی ٹیکسی وغیرہ بھی نہیں مل رہی۔
اس نے گاڑی کا دروزہ کھول دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
گاڑی سے پرفیوم کی دلکش خوشبو آرہی تھی۔گاڑی آہستہ آہستہ آگے چلنے لگی۔
کیا نام ہے آپ کا؟
کہاں سے آ رہے ہیں اس وقت؟
میرا نام رؤف ہے اور میں پروفیسر ہوں ۔آج یونیورسٹی میں میٹنگ کافی دیر تک رہی اور پھر واپسی میں میری گاڑی بھی خراب ہو گئی ۔
خیر چھوڑیے آپ کا کیا نام ہے ؟اور کہاں جا رہی ہیں
اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جو آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر پھیل رہی تھی۔
میرا نام ماریہ ہے اور اس وقت ایک ضروری کام سے جا رہی ہوں۔اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
آپ کیا کرتی ہیں؟جاب وغیرہ کرتی ہیں یا پڑھ رہی ہیں؟
تھوڑے تعاقف کے بعد اس نے کہا پروفیسر صاحب سچ کہوں یا جھوٹ بول دوں جو ہمارے معاشرے میں بولا جاتا ہے۔

مجھے اس کی بات پر حیرت ہوئی جیسے آپ کی مرضی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
”میں مردوں کو تسکین فراہم کرتی ہوں“
اس جملے نے مجھ پر عجیب قسم کی حیرت مسلط کر دی۔مجھے محسوس ہوا جیسے تیز چلتے چلتے گاڑی اچانک رک گئی ہو۔تھوڑی دیر خاموشی رہی اور پھر وہ گویا ہوئی ۔کیا سوچ رہے ہیں آپ؟
آپ کو دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ آپ اس طرح کا کام کرتی ہونگی۔

وہ مسکرائی۔جو کام میں کر رہی ہوں میں اس کو بتاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتی۔آج کل کے مہذب لوگ جب رات کو تھکے ماندے گھرآتے ہیں تو ہمیں اپنی تسکین کے لیے بلاتے ہیں۔اس نے ڈیش بورڑ سے وزٹنگ کارڈ اٹھا کر مجھے دیا اور کہا یہ میرا کارڈ ہے۔ اگر میری ضرورت ہو تو خدمت کا موقع ضرور دیجئے گااور ہاں اگر آپ موبائیل سیکس کرنا چاہیں تو کارڈ پر نمبر درج ہے۔
ٹائم لے لیجیے گاآج کل اس کا کافی رواج ہے ۔
میں شریف آدمی ہوں اور میری شادی ہو چکی ہے۔
میں نے کب کہا کہ آپ شریف آدمی نہیں ہیں۔حوصلہ رکھیے میں آپ سے زبردستی نہیں کروں گی۔ جولوگ شرافت کے جس لبادے میں خود کو لپیٹے ہوئے ہیں، میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔یہ رات بھی کتنی عجیب چیز ہے جس میں کتنے ہی شریف بے نقاب ہوتے ہیں ۔خیرآپ کو میری باتیں بری لگ رہی ہیں۔
اس کامجھے اندازہ ہے۔
آپ ٹھیک کہ رہی ہیں لیکن سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
ہاں جی آپ بھی ٹھیک کہ رہے ہیں لیکن آج کے دور میں ایک شادی شدہ مرد کنواری اور شادی شدہ عورت کو جس نظر سے دیکھتا ہے آپ ان کے حساسات و جذبات کا اندازہ باخوبی کرسکتے ہیں۔ویسے آپ نے مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تو آپ کے دل میں کیا خیال آیا۔آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا۔
اتنے میں ایک چیختی چنگھاڑتی گاڑی سامنے سے گزر گئی۔
اُہ میرے خیال میں لاری اڈہ آچکا ہے۔
لفٹ دینے کے لیے بہت شکریہ۔
شکریہ کی کوئی بات نہیں میں آپ کو گھر بھی چھوڑ آتی لیکن ایک جگہ مجھے ضروری پہنچنا ہے۔کام جو ایسا ہے۔اتنے میں اس کی گاڑی آگے چلی گئی اور میں لاری اڈے سے ٹیکسی پکڑ کر گھر کی طرف آیا۔ گلی کے سامنے ٹیکسی سے اتر کر ابھی مڑا ہی تھا کہ روڑ کی دوسری طرف جج صاحب کی کوٹھی کے سامنے ماریہ کہ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے ایک نظر دیکھا اور پھر گھر کی طرف چل پڑا۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik