Episode 2 - Teen Safar By Wazir Agha

قسط نمبر 2 - تین سفر - وزیر آغا

۰۹ نومبر کی رات کو سویڈن میں پاکستانی سفارت خانے نے ڈ ِنر کا اہتمام کیا تھا۔ آجکل سویڈن میں ہمارے سفیر‘ عزت مآب ارشد سمیع خان ہیں۔ پہلے کبھی اُن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی مگر لگتا ہے ‘ وہ میرے نام اَور کام سے واقف تھے۔ اُنھیں اِس بات کا علم تھا کہ سویڈش رائٹرز یونین نے مجھے براہ ِ راست بلایا تھا اَور اِس سلسلے میں کسی اَدبی یا ثقافتی اِدارے کی ”نظر ِ اِنتخاب“ پر بھروسا نہیں کیا تھا۔
اِس دعوت میں کئی ممالک کے سفیروں کے علاوہ سٹاک ہوم اَور اُپ سالا کی اَہم شخصیات بھی مدعو تھیں۔ اُپ سالا سے ڈاکٹر گنر اَور اُن کی بیگم شہناز کو بھی بلایا گیا تھا۔ اُنھوں نے ٹیلیفون پر بتایا تھا کہ وہ ہم دونوں کو اپنی گاڑی میں سٹاک ہوم لے چلیں گے۔ سفر طویل تھا‘ اِس لیے ہم پانچ سات منٹ کی تاخیر سے دعوت میں پہنچے۔

(جاری ہے)

اِس کا نتیجہ یہ تھاکہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی بہت سے مہمان آ چکے تھے۔

ارشد سمیع خان بڑے تپاک سے ملے اَور پھر مجھے ایک ایک مہمان سے ملوایا۔ یہ دعوت تقریباً تین۳ گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تھی جس کے دوران میں مجھے ہر مہمان سے گفتگو کرنے اَور پاکستان کی ثقافتی اَہمیت‘ اُردو زبان کی بین ُ الاقوامی حیثیت نیز اِس کی قو ّت اَور وسعت کے بارے میں باتیں کرنے کا موقع ملا: بالخصوص ایران کے سفیر‘ عزت مآب حسین پناہی آذر نے پاکستانی ثقافت میں بہت دلچسپی لی اَور ہم بہت سے متعلقہ مسائل پر تادیر گفتگو کرتے رہے۔
اِس دعوت میں اُپ سالا کے پروفیسر بو اتاس سے بھی باتیں کرنے کا موقع ملا۔ میرے لیے اُن کی گفتگو خاص طور پر اِس لیے اَہمیت کی حامل تھی کہ وہ اَیفرو ایشین ثقافت کے تناظر سے پوری طرح واقف تھے۔ اُن سے کچھ باتیں وحدت ُ الوجود اَور وحدت ُ ا ّلشہود کے صوفیانہ مسالک کے بارے میں بھی ہوئیں اَور پھر گفتگو‘ مسلمانوں کے نظریہ ٴ زماں کی طرف منتقل ہو گئی۔
میں نے نظام کا حوالہ دیا اَور کہا:  نظام نے زماں کے سلسلے میں طغرا یعنی َجست یا Leap کا جو تصو ّر پیش کیا تھا‘ اُس تک مغربی دُنیا اَب بیسویں صدی میں پہنچی ہے۔ کھانے سے ذرا پہلے ارشد سمیع خان نے مہمانوں کو مخاطب کرکے تقریباً سات۷ منٹ تک تقریر کی اَور میرے اَدبی کام کا تفصیل سے ذ ِکر کیا۔ میں اُن کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔ پاکستان میں میرے اپنے اَدبی معاصرین میں سے کئی ایک کو اِن کوائف کا علم تک نہ تھا مگر سویڈن میں پاکستان کے سفیر سب کچھ جانتے تھے۔
یہی ایک اچھے سفیر کا اِمتیازی وصف ہے کہ وہ اپنے وطن کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہو تاکہ دُوسرے ممالک کے باشندوں کو اَپنے وطن کی اَہمیت کا احساس د ِلا سکے۔ تقریر کے بعد دعوت ِ طعام کا مرحلہ تھا۔ بیگم ارشد سمیع خان نے نہایت عمدہ دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اِس دعوت کے سارے کھانے پاکستانی ہیں مگر ُسرخ مرچ کے بغیر! میرے لیے یہ بہت اچھی خبر تھی کیونکہ میں ُسرخ مرچ سے الرجک ہوں اَور سویڈش کھانوں سے میں ابھی مانوس نہیں ہوا تھا۔
دعوت ختم ہوئی اَور مہمان رُخصت ہونے لگے تو ارشد سمیع خان نے مجھ سے اَور پرویز پروازی سے معانقہ کیا… دیار ِ غیر میں محبت کا یہ خالص پاکستانی اَنداز مجھے بہت اچھا لگا۔ باہر نکلے تو ہلکی ہلکی برف گر رہی تھی۔ سویڈن کی سردی نے مجھ پر یہ دُوسرا حملہ کیا تھا اَور مسکرا رہی تھی کہ دیکھیں کیا گزرتی ہے اِس ”قطرے“ کے برف ہونے تک! مگر میں بھی اَب خاصا تجربہ کار ہو گیا تھا۔
میں نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ‘ نظام کے نظریہ ٴ زقند پر عمل َپیرا ہو کر ایک َجست لگائی اَور برف کی دیوار کو عبور کرکے‘ کار کی گرم و گداز آغوش میں جا ِگرا۔ کار روانہ ہوئی تو منظر ہی عجیب تھا۔ بجلی کے قمقموں نے سڑک کو منو ّر کر دیا تھا اَور اب اُس منو ّر سڑک کے عارض پر برف کے گالے نرم ملائم بوسوں کی طرح اُتر رہے تھے۔ مجھے اپنی ایک بہت پرانی نظم یاد آ گئی جس کے اِبتدائی دو۲ مصرعے یہ ہیں: چلو ہم بھی کچھ ہاتھ پاوٴں ہلائیں زمیں پر اُترتی ُہوئی برف کے سرد بوسوں سے خود کو بچائیں! بہر حال کار روانہ ہوئی اَور پھر ایک عجیب و غریب واقعہ رُونما ہوا۔
ہم ایک ویران علاقے سے گزر رہے تھے۔ دُور دُور تک کوئی گاڑی حتیٰ کہ کوئی ذی رُوح تک موجود نہیں تھا کہ اچانک اندھیرے میں سے ایک گاڑی نمودار ہوئی جس نے ہمیں رُکنے کا اِشارہ کیا۔ میں پاکستان سے تازہ تازہ آیا تھا‘ سوچا کہ ڈاکو صاحبان یہاں بھی پہنچ گئے ہیں اَوراَب وہ ہمیں ُلوٹ لیں گے (میری جیب میں اُس وقت دس پندرہ کرونوں کی خطیر رقم تھی) اَور ُلوٹنے کے بعد ُمنہ ‘کا مزہ بدلنے کے لیے شاید ہمیں گولی بھی مار دیں جیسا کہ و ِطن عزیز میں ہر روز ہوتا ہے؛مگر نہیں… یہ تو پولیس کی گاڑی تھی۔
معاً گاڑی میں سے ایک پولیس مین اُترا جس کے لباس سے مجھے گمان ہوا کہ وہ کسی خلائی جہاز کے عملے کا ایک فرد ہے،مگر وہ بہر حال ایک پولیس َمین تھا۔ ہماری گاڑی ڈاکٹر گنر چلا رہے تھے۔ وہ اُن کے پاس پہنچا اَور اُن سے کہا: آپ کی گاڑی نے دو۲ بار سڑک کی درمیانی سفید لکیر کو کاٹا ہے… کیوں؟ کیا آپ نے شراب پی رکھی ہے؟ سویڈن میں شراب پی کر گاڑی چلانا خلاف ِ قانون ہے۔
اگر کسی ڈرائیور سے ٹریفک کے کسی قاعدے کی خلاف ورزی ہو جائے تو پہلی بار اُسے جرمانہ کیا جاتا ہے‘ دُوسری بار جرمانے کی رقم خاصی بڑھا دی جاتی ہے‘ اَور تیسری بار اُس کا ڈرائیونگ لائسنس ہمیشہ کے لیے منسوخ کر دیا جاتا ہے؛ اَور سویڈن میں ڈرائیونگ لائسنس کا منسوخ ہوجانا کوئی معمولی سزا نہیں کیونکہ وہاں ڈرائیور بطور ِ ملازم کہیں دستیاب نہیں۔
 ڈاکٹر گنر نے پولیس َمین کے ہر سوال کا مناسب جواب دیا مگر اُس کی تسلی نہ ہوئی۔ اُس نے جیب میں سے ایک تھرمامیٹر ُنما آلہ نکال کر ڈاکٹر گنر کے ُمنہ ‘میں ٹھونس دیا اَور پھر چند سیکنڈ کے بعد اُسے نکال کر پڑھا، مسکرایا اَور کہا: ٹھیک ہے‘ آپ نشے میں نہیں ہیں اَور جا سکتے ہیں! پولیس کی اِس کارکردگی اَور احسا ِس ذ ِ ّمہ داری نے مجھے حیران کر دیا۔
ہمارے ہاں لکیر کو کاٹنا تو ایک طرف‘ ٹریفک کی ُسرخ ّبتی کو عبور کر جانا بھی معمولی بات ہے اَور کبھی کبھار ہی کوئی اِس پر معترض ہوتا ہے۔ اعتراض ہو بھی تو آ ِن واحد میں ” ُمک مکاوٴ“ ہو جاتا ہے؛ مگر سویڈن میں اِس کا کوئی رواج نہیں۔ اگلے روز یعنی ۱۰/ نومبر کو صبح سویرے میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا… منظر تبدیل ہو ُچکا تھا۔
تمام سڑکوں اَور لینز (Lanes) نے برف کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ درخت دو۲ حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ وہ درخت جن کے ّپتوں کو خزاں چاٹ چکی تھی‘ برف کے درخت بن گئے تھے جبکہ سدا بہار درخت بدستور سبز تھے۔ مکانوں کی چھتیں بھی بدستور ُسرخ تھیں کیونکہ ابھی اِتنی برف نہیں گری تھی کہ وہ برف سے ڈھک جاتیں؛ البتہ جا بجا کھڑی گاڑیوں پر برف کی َتہ ‘جم گئی تھی۔
میں نے ایک خاتون کو دیکھا کہ وہ سامنے والی عمارت سے نکلی‘ اپنی کار تک پہنچی؛ تب اُس نے کار کی ڈ ِگی میں سے ایک اَوزار نکالا اَور کار کی چھت پر سے برف اکھیڑنے لگی۔ جب یہ کام ہو گیا تو وہ کار چلا کر اُسے کہیں اَور لے گئی۔ مگر اَب برف مزید گرنے لگی تھی۔ اَور جب پروازی نے مجھے باورچی خانے کی کھڑکی کے قریب بٹھا کر میرے ہاتھ میں گرم گرم‘ لذیذ چائے کی پیالی تھما ئی اَور میں ُچسکیاں لینے لگا تو معاً برف باری نے طوفانی صورت اِختیار کر لی۔
اب برف کے موٹے موٹے گالے کروڑوں کی تعداد میں ِگر رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے آسمان کے شجر کو ُبری طرح جھنجھوڑ دیا ہے اَور اَب اُس کے پھول اَور ّپتیاں‘ ار ِض خاک پر مسلسل اُتر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد برف باری کا زور ٹوٹ گیا۔ ممکن ہے کہ سورج دیوتا بھی آسمان کے کسی کونے میں تشریف لے آئے ہوں مگر اُن کے درشن کا کوئی سوال نہیں تھا۔ البتہ برف کی سفید چادر کے بچھ جانے کے بعد روشنی دُگنا ہو گئی تھی۔
پروازی نے مجھے بتایا: آئندہ تین۳ ماہ میں جب مسلسل برف باری ہوگی اَور سویڈن برف کی ایک قاش بن جائے گا تو اِس کی روشنی مزید بڑھ جائے گی۔ میں نے اُن سے اِستفسار کیا: جب سڑکیں برف سے ڈھک جاتی ہیں تو کیا گاڑیاں بھی رُک جاتی ہیں؟ وہ بولے: ابھی یہ منظر بھی آپ دیکھ لیں گے۔ اَور عجیب بات یہ ہے کہ اِدھر اُن کے ُمنہ ‘سے یہ الفاظ نکلے‘ اُدھر برف کو ہٹانے اَور پگھلانے والی مشینیں نمودار ہو گئیں۔
بعض نے سڑک پر کسی کیمیکل کا چھڑکاوٴ کیا تاکہ برف پگھل جائے؛ بعض نے برف کو دھکیل کر کناروں پر جمع کر دیا؛ اَور بعض نے فٹ پاتھوں پر کیمیکل اَور باریک بجری بچھا دی تاکہ پیدل چلنے والوں کے پاوٴں نہ پھسلیں… یہ کام آناً فاناً انجام پا گیا۔ میں نے کہا: معلوم ہوتا ہے‘ اُپ سالا کی اِنتظامیہ خاص طور پر بہت فعال اَور ذ ِمے دار ہے کہ اُس نے یہ کام اِتنی جلدی کر دیا۔
پروازی کا کہنا تھا: سویڈن میں جہاں بھی آبادی ہے‘ وہاں یہ کام اِسی مستعدی اَور ذ ِمے داری کے ساتھ کم سے کم وقت میں انجام پاتا ہے اَور جب برف باری مسلسل ہو تو برف شکنی کا کام بھی مسلسل ہوتا رہتا ہے۔   یہ تو خیر برف کا معاملہ تھا‘ چند روز کے بعد مجھے اِس بات کا تجربہ ہوا کہ سویڈن کے ہر شعبے میں ز ِندگی کے وظائف کا یہی چلن پوری طرح رائج ہے۔
اَب برف باری رُک گئی تھی اَور بچے گھروں سے باہر نکل آئے تھے اَور برف کے گولے بنا بنا کر ایک دُوسرے پر پھینک رہے تھے۔ بعض نے بیلچوں کے ذریعے برف کا ایک گھر بھی تعمیر کر لیا تھا اَور اَب وہ اُس میں سکڑے سمٹے بیٹھے تھے۔ اگلے روز جب برف پگھل گئی اَور سورج بھی نمودار ہو گیا تو برف کا یہ گھر ٹوٹ کر نیچے آ ِگرا؛ تاہم جب تک َمیں سویڈن میں رہا‘ اُس کی ِگری ہوئی دیواریں زمین پر برابر موجود رہیں۔
سڑک کے کناروں پر بھی برف کے ڈھیر موجود رہے ؛مگر میرے قیام کے دوران میں دوبارہ برف باری نہ ہوئی۔ آج شام چار۴ بجے ہمیں اُپ سالا یونیورسٹی کے اَیفرو ایشین شعبے میں پہنچنا تھا جہاں پروفیسر بو اوتاس ہمارے منتظر تھے۔ برف باری کے بعد برف پگھلنے کے باعث سردی بہت زیادہ ہو گئی تھی اَور میں نے اپنے بھاری بھر کم ز ِرہ بکتر میں مظفر غفار سے عاریةً لیا ہوا نہر سویز جتنا لمبا مفلر بھی شامل کر لیا تھا۔
چونکہ ز ِرہ بکتر نے جسم کے سارے منطقے ڈھانپ لیے تھے اَور اُونی ٹوپی نے َسر کے بے بال و پر خطے کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا‘ اِس لیے فقط ”ر ِخ زیبا“ ننگا تھا جسے ٹھنڈی برف َہوا سے بچانا ضروری تھا۔ چنانچہ میں نے مفلر کی کئی تہوں میں چہرے کو چھپا لیا۔ اب صرف آنکھیں باہر تھیں جن پر دو۲ موٹے شیشوں کی عینک کی عمل داری تھی؛ مگر عینک کے شیشے سردی سے دُھندلا گئے تھے اَور اَب میں اپنے چاروں طرف غیر اَرضی اَشیا کو ایستادہ یا گھومتے پھرتے دیکھ رہا تھا۔
میں بار بار عینک کے شیشوں کو پونچھتا اَور دیکھتا کہ َسروں سے ننگے سویڈ َمرد ‘ عورتیں اَور بچے مجھے حیرت سے دیکھ کر مسکرا رہے تھے مگر اُن کی مسکراہٹ کی جراحت مجھ پر کوئی اَثر مرتب نہیں کر رہی تھی کیونکہ میں ز ِرہ بکتر کے اَندر بھی ُچر ُ مر ہو کر صفر ہو گیا تھا۔ بارے ہم یونیورسٹی کی عمارت میں داخل ہوئے تو میری جان میں جان آئی۔ پروفیسر بو اتاس کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے میں نے خود کو اَپنے ز ِرہ بکتر سے آزاد کر لیا کیونکہ عمارت میں وہی موسم تھا جو ہمارے ہاں نومبر میں ہوتا ہے۔
پروفیسر بو اتاس تپاک سے ملے اَور کہا: لیکچر رُوم میں سامعین جمع ہیں‘ لہٰذا چلیں! وہ اُسی وقت ہمیں لیکچر رُوم میں لے گئے جہاں دُوسرے خواتین و حضرات کے علاوہ سیگرو کاہلے اَور اُن کے شوہر‘ نیز سویڈش زبان کے مشہور شاعر لارس بیک سٹروم بھی موجود تھے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ اَور طلبا کے علاوہ باہر سے بھی کچھ لوگ مدعو تھے جن میں چند پاکستانی مہمان بھی تھے…کل تعداد چالیس۴۰ کے لگ بھگ ہوگی۔
سویڈن بلکہ سارے سکینڈے نیویا کی یونیورسٹیوں میں کسی لیکچر کو سننے کے لیے اِتنے لوگ جمع ہو جائیں تو اِسے ایک کامیاب تقریب سمجھا جاتا ہے۔ مگر سوال زیادہ یا کم لوگوں کا نہیں؛ سوال یہ ہے کہ جو لوگ آتے ہیں‘ وہ موضوع میں کتنی د ِلچسپی لیتے اَور کس نوعیت کے سوالات اُٹھاتے ہیں! اُس روز میرا مضمون New Trends in Urdu Literature  کے بارے میں تھا جو بیس۲۰ منٹ میں ختم ہو گیا۔
اِس کے بعد گرم گرم سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا؛ اَور اِس سارے عرصے میں‘ َمیں لگاتار سوالات کے جواب‘ بالتفصیل‘انگریزی میں دیتا رہا۔ میں انگریزی کتب کا مطالعہ تو پچھلے پچاس۵۰ برس سے کر رہا ہوں اَور پچھلے دس۱۰ برسوں میں ‘ َمیں نے ّمتعد ِد انگریزیمضامین بھی لکھے ہیں جن کے زبان و بیاں کو کافی سراہا گیا ہے‘ مگر انگریزی میں بات چیت کرنے کی مجھے قطعاً پریکٹس نہیں تھی؛ تاہم میں حاضرین کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہا۔
پھر یہ بات بھی تو ہے کہ َمیں زیادہ تر گاوٴں میں رہتا ہوں جہاں انگریزی تو کیا‘ مجھے اُردو اَور پنجابی میں بھی بات کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے… یوں سمجھئے کہ بے زبانی کی زبان میں ہمہ وقت خود سے مصروف ِ کلام رہتا ہوں؛ اَور اَب مجھے اچانک بین ُ الاقوامی تقاریب میں بہ زبا ِن انگریزی طویل باتیں کرنا پڑیں … پہلے تو میں ذرا ہچکچایا‘ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کچھ جملے مرتب کیے مگر پھر رواں ہو گیا۔
اُس روز پہلا اَہم سوال اُردو زبان کی قدامت کے بارے میں تھا۔ میں نے کہا: زبان کا ر ِشتہ‘ کلچر سے ہے۔ کلچر جتنا قدیم ہوگا‘ زبان کی جڑیں بھی اُتنی ہی گہری ہوں گی۔ مثلاً اُردو زبان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ لشکر میں پیدا ہوئی حالانکہ اِس کا نہایت گہرا ر ِشتہ واد ِی سندھ کی اُس قدیم تہذیب سے ہے جو ۳۰۰۰ سے ۱۵۰۰ قبل مسیح تک کے دوران میں ہمالیہ کے قدموں سے لے کر گجرات کاٹھیا واڑ اَور قلات تک پھیلی ہوئی تھی۔
اُسی زمانے میں تین۳ اَور تہذیبیں بھی اپنے عروج پر تھیں جن میں ایک سمیری تہذیب تھی جو دجلہ اَور فرات کے علاقوں میں فروغ پا رہی تھی؛ دُوسری مصری تہذیب تھی؛ اَور تیسری کریٹن یا منوان تہذیب جسے کریٹ کے جزائر میں فروغ ملا۔ د ِلچسپ بات یہ ہے کہ اِن ساری تہذیبوں کو ُو ُجود میں لانے والا ایک ہی شخص تھا جسے کریٹن تہذیب میں مائی نوس (Minos)‘ مصری تہذیب میں مینیز (Menes) ‘ سمیری تہذیب میں نوح کہتے ہیں؛ اَور جسے واد ِی سندھ کی تہذیب میں منو کا نام ملا تھا۔
قرائن کہتے ہیں کہ یہ وہ واحد شخص تھا جو اِن تہذیبوں سے بھی زیادہ قدیم ایک بڑی تہذیب کے ڈوب جانے کے بعد باقی بچا تھا اَور جس سے ایک نئی ِنسل انسانی کا آغاز ہوا تھا۔ اِس سے آپ اَندازہ لگالیں کہ اُردو زبان کتنی قدیم ہے اَور اِس کا Syntactic Structureکس قدیم تہذیب کی باقیات میں سے ہے! الفاظ تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن زبان کا سٹرکچر قائم رہتا ہے۔
  اِس توضیح کے بعد پاکستانی دوستوں نے اُردو اَور پنجابی کے ر ِشتے کے بارے میں سوالات کیے اَور گفتگو میں مزید گہرائی آ گئی۔ پروفیسر بو اتاس نے اِسلامی تصو ّف کا ذ ِکر کیا اَور میں نے وحدت ُ الوجودی اَور وحدت ُ ا ّ لشہودی مسالک کے فرق کے علاوہ ویدانت کے نظریے کی بھی وضاحت کی۔ اِن کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہوئے۔ اَور آخر میں مجھ سے ایک اُردو نظم اَور اُس کا انگریزی ترجمہ سنا گیا اَور تقریب اِختتام کو پہنچی۔
بعد اَزاں پروفیسر بو اتاس نے ہمیں کافی پلائی۔ مشتاق اَور احمد فقیہ ہمارے ساتھ تھے۔ اِس کے بعد میں نے دوبارہ اپنا ز ِرہ بکتر پہنا‘ چہرے پر مفلر لپیٹا اَور سویڈن کی سردی سے مصافحہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب پروفیسر بو اتاس نے اَپنا تاریخی جملہ لڑھکایا تھا کہ I hope you will survive جس کا میں پہلے بھی ذ ِ کر کر ُچکا ہوں۔

Chapters / Baab of Teen Safar By Wazir Agha