Episode 6 - Teen Safar By Wazir Agha

قسط نمبر 6 - تین سفر - وزیر آغا

۲۵/ اگست صبح اُٹھے تو ُبوندا باندی ہو رہی تھی۔ آج ہم لوگوں نے آکسفورڈ جانے کا پروگرام بنایا تھا مگر بارہ۱۲ بجے تک اِس کا کوئی اِمکان نظر نہ آیا۔ ہمارے کمرے میں جتندر ّبلو‘ راج کھیتی‘ محمود ہاشمی اَور محسن شمسی جمع ہو گئے تھے اَور دو۲ عدد گاڑیوں کا بھی اِنتظام تھا مگر بارش میں آکسفورڈ جانے کی کوئی تک نہیں تھی۔ معاً ہم میں سے کسی ایک کو یہ بات ُسوجھی کہ کیوں نہ آکسفورڈ میں اکبر حیدرآبادی کو فون کرکے پوچھ لیا جائے کہ وہاں موسم کا کیا حال ہے… اگر ”بیمار کا حال“ اچھا ہے تو چلا جائے! اکبر حیدرآبادی نے خوشخبری دی کہ: آکسفورڈ میں بارش نہیں ہو رہی‘ آپ آ جائیے! چنانچہ ہم آکسفورڈ کے لیے روانہ ہو گئے۔
مگر یہ ایک بھیگا ہوا سفر تھا اَور دو تین َسو گز سے زیادہ تک کچھ د ِکھائی نہیں دیتا تھا جبکہ میں لندن اَور آکسفورڈ کا درمیانی علاقہ دیکھنے کا خواہاں تھا۔

(جاری ہے)

بہر حال آکسفورڈ تک پہنچتے پہنچتے بارش تھم گئی اَور جب ہم آکسفورڈ کے مختلف کالجوں اَور یونیورسٹی کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے تو موسم کھل گیا‘ سورج نے درشن دیا اَور وہ مغرب کے آسمان میں ایک جگہ رُک کر ہمیں گھورنے لگا۔

ہمارے ہاں تو سورج جب مغرب کی طرف جھکتا ہے تو ایک وزنی گیند کی طرح چند ہی لمحوں میں زمیں بوس ہو جاتا ہے؛ مگر اِنگلستان میں گرمیوں کی شام بہت طویل ہوتی ہے: سورج ڈوبنے کا نام ہی نہیں لیتا‘ بس ہائیڈروجن بھرے غبارے کی طرح فضا میں معلق رہتا ہے… جون جولائی میں تو دس۱۰ بجے رات تک شام باقی رہتی ہے؛ آجکل آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اندھیرا ہونے لگتا ہے۔
سو ہمارے پاس خاصا وقت تھا‘ ہم نے اِس کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔ آکسفورڈ کی تاریخ دسویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے جب اِس کی وجہ ‘ شہرت محض یہ تھی کہ جس مقام پر یہ قصبہ تھا‘ وہاں دریا کا پاٹ تنگ تھا اَور َبیلوں اَور اِنسانوں کے لیے دریا عبور کرنا نسبتاً آسان تھا… چنانچہ اِس کا نام آکس فورڈ (Ox Ford) پڑ گیا جو بعد اَزاں کثرت ِاِستعمال سے آکسفورڈ بن گیا۔
آکسفورڈ میں ہمیں کوئی مخصوص یونیورسٹی کیمپس نظر نہ آیا… بس یہ سمجھئے کہ سارا شہر ہی ایک یونیورسٹی ہے جس میں کالج‘ گرجے‘ لائبریریاں‘ میوزک ہال‘ تھیٹر اَور بازار‘ مل جل کر ”اِکائی“ بن گئے ہیں۔ اصل چیز یہاں کی فضا ہے جس میں اِنسان ما ّدی دُنیا سے اُوپر اُٹھ کر ایک رُوحانی کیفیت میں شرابور ہو جاتا ہے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ یہاں کی صبخیں اَور شامیں بہت د ِلآویز ہوتی ہیں۔
صبحوں کا تو علم نہیں لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں آکسفورڈ کی شام سے متعارف ہونے کی سعادت حاصل ہو گئی۔ یوں لگا جیسے آکسفورڈ کی زمین‘ اِس پر جھکے ہوئے آسمان ہی کی توسیع ہے یا شاید اِس کا آسمان‘ زمین کی توسیع ہے…دونوں میں کوئی ّحد ِ فاصل قائم کرنا مشکل نظرآیا۔ مگر آکسفورڈ صرف اُفقی سطح کی اِکائی کو پیش نہیں کرتا‘ اِس کا ایک نمایاں وصف اِس کی عمودی یا زمانی اِکائی بھی ہے۔
اِس کی عمارتوں اَور روایتوں میں گویا صدیاں سمٹی ہوئی ہیں۔ ہم جس بھی عمارت کے اَندر گئے‘ وہاں دروازے تک کئی َسو سال پرانے تھے اَور ّپتھروں کے فرش بھی قدیم زمانوں کی داستاں پیش کر رہے تھے۔ عمارتوں کے کلس اَور مینار بھی ایک مذہبی پس منظر کے ساتھ نظر آئے۔ آکسفورڈ کو محض ایک بار دیکھ لینا کافی نہیں کہ یہ ”ظرف ِ قدح خوار“ دیکھ کر ہی خود کو منکشف کرتا ہے… وہ بھی آہستہ آہستہ! تاہم جب یہ خود کو پوری طرح منکشف کر دیتا ہے تو اِنسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔
مثلاً ورڈز َورتھ کو دیکھئے جس نے آکسفورڈ کا عرفان حاصل کیا تو برملا کہا: Oh ye spires of Oxford! Domes and towers gardens and groves! Your presence overpowers the soberness of reason. اَور میتھیو آرنلڈ نے کہا: And that sweet city with her dream-like spires. آکسفورڈ کی دو۲ عمارتیں خاص طور پر قا ِبل ذ ِکر ہیں۔ ایک تو Sheldon Theatre ہے جس کی چھت پر سے شہر اَور اِس کے مضافات کا پورا منظر دیکھنے کو ِملتا ہے اَور دُوسری Bodleian Library جو دُنیا کی بہترین لائبریریوں میں سے ایک ہے۔
اِس لائبریری میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں؛ مگر کتاب باہر لے جانے کی اِجازت نہیں… آپ لائبریری کے اَندر ہی مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا؛ اِس لیے ہم آکسفورڈ پر ایک طائرانہ نظر ہی ڈال سکے۔ کچھ عمارتوں کے اَندر پیدل چل کر گئے اَور اُن بے نشاں قدموں کے نشانات پر قدم رکھنے کی سعادت حاصل کی جو آج سے صدیوں پہلے یہاں ثبت ہوئے تھے۔
باقی شہر ہم نے کاروں میں گھوم پھر کر دیکھا۔ آخر میں ہم اکبر حیدرآبادی کے گھر پہنچے‘ چائے پی اَور واپسی کی اِجازت لے لی۔ لندن سے آکسفورڈ تک کا سفر دُھند میں ملفوف ایک دُھندلا خواب تھا مگر اَب مطلع صاف ہو گیا تھا۔ شام کی سلاسل دراز ہو گئی تھیں اَور پورا علاقہ ایک نگینے کی طرح َلو دینے لگا تھا۔ ہماری گاڑیاں اَب سڑک کے اُس لین (Lane) میں َدوڑ رہی تھیں جس پر ستر۷۰ میل فی گھنٹہ یا اِس سے زیادہ رفتار کی اِجازت ہے؛ مگر میں نے سڑک اَور کار‘ دونوں سے خود کو منقطع کر لیا تھا اَور میں پورے علاقے میں بچھے جنگلوں‘ ٹیلوں اَور مکانوں میں قاش قاش ہو کر بکھر گیا تھا۔
اِس علاقے کی زمینیں (Lands) تو یہاں کے لوگوں کی ملکیت تھیں‘ مگر بقو ِل ایمرسن اِس کا سارا لینڈ سکیپ (Landscape) میرا‘ صرف میرا تھا۔ ۲۶/ اگست آج ہم نے ّمتعد ِد جگہیں دیکھیں۔ سب سے پہلے تو ”دیوار ِ لندن“ کا وہ مختصر سا حصہ دیکھا جو اُس رومن دیوار کی باقیات میں سے ہے جس نے کسی زمانے میں لندن کو اَپنے کلاوے میں جکڑ رکھا تھا؛ مگر اَب لندن ہر قسم کی دیواروں کو پار کر ُچکا ہے… اِس کا کچھ حصہ تو زیر ِ زمیں ہے اَور کچھ حصہ بالائے فلک‘ جہاں ہر پا۵نچ منٹ کے بعد ایک جہاز نمودار ہوتا ہے اَور ایئر پورٹ پر اُتر جاتا ہے۔
باقی شہر ِسطح زمیں پر چاروں طرف پھیلتے چلا گیا ہے اَور اَب تقریباً ایک َسو مربع میل پر قابض ہے۔ پھر ہم نے دُوسری جنگ ِ عظیم میں تباہ ہونے والی عمارتوں میں سے ایک عمارت کا وہ حصہ دیکھا جسے یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے… یہ عمارت مشرقی لندن میں واقع ہے۔ جرمن فوجوں کے ہوائی جہازوں نے زیادہ تر مشرقی لندن ہی کو بموں کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ یہ صنعتی علاقہ تھا۔
مگر آج اُس طویل بمباری کے نشانات مٹ چکے ہیں اَور تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے پر جدید طرز کی بلند و بالا عمارتیں وجود میں آ گئی ہیں۔ سنا ہے‘ ہیرو شیما اَور برلن کا بھی یہی حال ہے۔ کوئی َکہ ‘نہیں سکتا کہ کبھی یہ بمباری سے ملیا میٹ ہو گئے تھے۔ دُوسری طرف ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ سیلاب یا آندھی سے کوئی شے ڈھے گئی تو پھر وہ صدیوں اپنی بربادی پر نوحہ کناں رہی۔
سو جہاں مغرب میں تاریخ اَور روایت ہمہ وقت اِنسان کی ہم ر ِکاب ہیں‘ وہاں ہمارے ہاں ”ملبا“ شریک ِ حیات ہے… بعض شہر تو ملبے کا ڈھیر نظر آتے ہیں؛ یقین نہ آئے تو ُپرانے لاہور کو ایک نظر دیکھ لیں! دیوار ِ لندن کے قریب ہی بار بیکن سنٹر ہے جو نہ صرف طرز ِ تعمیر کے اعتبار سے لاجواب ہے بلکہ جو کانسرٹ ہال اَور تھیٹرز اَور اَدیبوں اَور فنکاروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
گزرے زمانوں میں ملٹن‘ تھامس مور‘ بن جانسن اَور ولیم بلیک اِسی علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ پھر دُوسری جنگ ِ عظیم کے دوران میں یہ سارا علاقہ تباہ ہو گیا۔ بار بیکن سنٹر کا سنگ ِ بنیاد ملکہ ٴ اِنگلستان (الزبتھ)نے ۱۹۷۲ء میں رکھا اَور پھر اِسی ملکہ نے ۱۹۸۲ء میں اِس کا اِفتتاح بھی کیا۔ لندن میں یوں تو اَور بھی ثقافتی مراکز ہیں لیکن بار بیکن سنٹر کی بات ہی اَور ہے۔
ہم یہاں پہنچے تو ُبوندا باندی ہو رہی تھی اَور ٹھنڈی یخ ہوا چل رہی تھی۔ بار بیکن کی عمارتوں کے عین درمیان میں طویل حوض ہیں جن میں فو ّارے چلتے ہیں اَور بطخیں نہاتی ہیں۔ کپڑوں میں ملبوس بطخیں‘ اِن حوضوں کے کنارے رنگین چھتریوں کے نیچے کرسیوں پر بیٹھے‘ مشروبات پیتی ہیں۔ پوری فضا میں ایک عجیب سی سرسراہٹ ہے جو د ِلوں میں اُتر کر محسوسات کا رُوپ دھار لیتی ہے۔
بار بیکن سنٹر دیکھنے کے بعد ہم سینٹ پال گرجا گھر میں داخل ہو گئے۔ ایک عجیب ہی منظر تھا۔ بہت سے زائرین تو گرجے میں بچھی کرسیوں پر بیٹھے لگاتار چھت اَور دیواروں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے جہاں تصویروں اَور مجسموں نے ایک غیر اَرضی فضا قائم کر رکھی تھی۔ ہم بھی اُن لوگوں کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے اَور پھر دیر تک بیٹھے رہے۔ اِس عمارت میں ایک انوکھی عظمت ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
تھک ہار کر واپس اپنے کمرے میں پہنچے۔ کھانا کھایا۔ اِس کے بعد‘ میں نے تو ٹیلی و ِژن کھول لیا مگر سلیم حسب ِ معمول برتن دھونے لگا… یہاں آ کر اُس کا اسلوب ِ حیات ہی بدل گیا ہے۔ کمرے کی صفائی کرتا ہے‘ کپڑے بھی دھو لیتا ہے‘ نہانے کے بعد غسل خانہ صاف کرتا ہے… مجھے کچھ بھی کرنے نہیں دیتا۔ میں نے اَپنا بستر فرش پر بچھا رکھا ہے… بس مجھے ہر صبح اِس بستر کو َتہ کرنے اَور شام کو دوبارہ بچھانے کی اِجازت ہے۔
۲۷/ اگست ہمیں ۳۰/ اگست کی رات لندن سے بذریعہ پی آئی اے روانہ ہونا ہے۔ لہٰذا ہم آج صبح سب سے پہلے پی آئی اے والوں کے ہاں گئے تاکہ اپنی پرواز کی تاریخ ری کنفرم کرا سکیں۔ یہ کام ہو گیا تو ہم کتابوں کی ایک دُکان میں داخل ہو گئے: اِس کتاب گھر کا نام Royles ہے: اِن کا دعویٰ ہے کہ یہ دُنیا کی سب سے بڑی دُکان ہے۔ اِس میں تقریباً چالیس۴۰ لاکھ کتابیں ہیں۔
کئی کتابیں‘ جن کی مجھے ایک مدت سے تلاش تھی اَور جو مجھے کسی اَور جگہ سے مل نہ سکی تھیں‘ یہاں دستیاب تھیں… بہت خوشی ہوئی۔ یہاں سے ہم ساڑھے بارہ بجے اُردو مرکز پہنچ گئے: ہمیں معظم علی نے دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا… اِس دعوت ِ طعام میں ہم دونوں کے علاوہ افتخار عارف‘ محمود ہاشمی اَور ہفت روزہ” تکبیر“ کے مدیر‘ صلاح الدین کو بھی شریک ہونا تھا۔
معظم علی اِسلامک آرٹ فاوٴنڈیشن لندن کے زیر ِ اہتمام شائع ہونے والے ایک نہایت خوبصورت انگریزی میگزین Arts and the Islamic World کے بورڈ آف ایڈیٹرز کے چیئر مین ہیں۔ اُردو مرکز میں پاکستان کے انگریزی اخبار ”مسلم“ کے پروپرائٹر‘ پویا بھی موجود تھے۔ کھانے کی میز پر میرا یہ سوال زیر ِ بحث تھا کہ کیا پاکستان میں اَدب کے معاملے میں ون وے ٹریفک ہی رہے گا‘یعنی کیا ہم محض دُوسری زبانوں کی کتب کو اُردو میں منتقل کرنے ہی پر اِکتفا کریں گے اَور اَپنے اَدب کو دُنیائے اَدب سے متعارف کرانے کا اہتمام نہیں کریں گے… تب بات اچھے تراجم پر ہونے لگی۔
افتخار عارف اَور دُوسرے اَحباب نے چند ایسی اُردو کتب کا نام لیا جن کے ُبرے تراجم نے اُن کتب کو نقصان پہنچایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات تو درست ہے مگر بعض اَوقات مترجم مفت میں بدنام ہو جاتا ہے… اِس پر زور دار قہقہہ پڑا۔ کھانے کے اِختتام پر صلاح الدین نے مجھے اپنے میگزین کے دو۲ نسخے عطا کیے: واقعی اِس جریدے کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔
۲۸/ اگست لندن آئے ہوئے اٹھارہ۱۸ روز ہو چکے ہیں اَور اَب مجھے لندن کے داغ د ّھبے نظر آنے لگے ہیں۔ مثلاً ٹیوب میں سفر کرنے کے لیے جب ہم ٹکٹ فراہم کرنے والی مشین کے پاس پہنچتے ہیں اَور ٹکٹ کے لیے دست ِ سوال دراز کرتے ہیں تو اکثر مشینیں ہمارے پنس واپس کر دیتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُن کی طبیعت ناساز ہے۔ بعض ٹیلیفون بھی خراب ملتے ہیں۔
تقریباً ہر ٹیلیفون بوتھ کی اَندرونی دیوار پر چھوٹے چھوٹے کارڈ چسپاں ہیں جن میں Safe Sex کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں‘ ساتھ ہی ٹیلیفون نمبر درج ہیں۔ بعض کارڈ بیدردی سے نوچ کر نیچے گرائے گئے ہیں۔ پہلے میں نے سوچا کہ یہ پولیس کی کارروائی ہوگی مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ ”طوائفانہ چشمک“ ہے‘ یعنی کوئی طوائف جب دیکھتی ہے کہ بوتھ میں کسی اَور کا کارڈ چسپاں ہے تو وہ اُسے پھاڑ کر نیچے پھینک دیتی ہے اَور اُس کی جگہ اپنا کارڈ چپکا دیتی ہے۔
لندن کے بعض علاقوں میں یہ ”مخلوق“ سر ِ شام سڑکوں پر نکل آتی ہے اَور اَپنے ”شکار“ کا اِنتظار کرتی ہے۔ اِن کے بچھائے ہوئے جال میں زیادہ تر غیر ملکی نوجوان ہی پھنستے ہیں؛ مگر جب سے Aids کا خطرہ لاحق ہوا ہے‘ لوگ Safe Sex کو بھی اِنتہائی unsafe تصو ّر کرنے لگے ہیں۔ خود حکومت نے Aids کے بارے میں پمفلٹ چھاپ کر گھر گھر تقسیم کیے ہیں تاکہ لوگ خبردار رہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ جنسی تعلقات میں بے رہروی کے مغربی رُجحان کو خود فطرت نے ناپسند کیا ہے اَور سزا کے طور پر یہ َوبا نازل ہوئی ہے تاکہ مجرم کو قرار ِ واقعی سزا مل سکے۔ گویا وہ کام جو قرن ہا قرن پند و نصائح سے نہ ہو سکا‘ اب ایک انجانے خوف کے تحت ہونے لگا ہے… قدرت کے اَنداز بھی نرالے ہیں۔ لندن میں مجھے کہیں بھی کوئی بھکاری نظر نہیں آیا تھا مگر اَب آہستہ آہستہ بھکاری بھی دِکھائی دینے لگے ہیں۔
اِنگلستان میں بھیک مانگنا جرم ہے‘ اِس لیے بھکاریوں نے بھیک کو موسیقی اَور رقص کے ساتھ منسک کرکے‘ قانون سے بچاوٴ کی صورت نکال لی ہے۔ تاہم سب بھکاریوں نے اَیسا نہیں کیا۔ مثلاً ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پر ایک شخص کھڑا تھا جس نے زیر ِ تعمیر عمارت سے لٹکے ہوئے ایک ر ّسے کو پھانسی کا پھندا بنا کر گلے میں ڈال رکھا تھا اَور وہ بھیک مانگ رہا تھا… گویا علامتی اَنداز میں وہ یہ َکہ ‘رہا تھا کہ: تم نے مجھے کچھ نہ دیا تو پھانسی پر لٹک جاوٴں گا۔
بعض بھکاری جرأت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ مثلاً ہم ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ ایک خوش پوشاک نوجواں لڑکی نے ہمارے آگے ہاتھ پھیلا کر بھیک طلب کی۔ سلیم کے ہاتھ میں دو۲ پنس تھے‘ اُس نے ُوہی پیش کر دیے؛ مگر بھکارن نے اِتنی حقیر رقم قبول کرنے سے اِنکار کر دیا۔ دو ایک اَور فقیر بھی ملے جنھوں نے ہمیں روک کر سرگوشی میں کچھ پنس طلب کیے۔ اِس سب کے باوجود‘ بھیک کا جو تصو ّر ہمارے ذہن میں تھا اَور بھکاریوں کی جس تعداد اَور تنظیم سے ہم پاکستان میں آشنا ہو چکے تھے‘ اُس کا عشر ِ عشیر بھی اِنگلستان میں نظر نہ آیا۔
لندن میں گھومتے ہوئے ایک یہ احساس بھی آہستہ آہستہ مضبوط ہوا کہ بیشتر انگریز ( بالخصوص نوجوان) نسبتاً غریب ہیں۔ دراصل سوشل سیکورٹی کے تحت اُنھیں ”بیکاری الاوٴنس“ مل جاتا ہے اَور وہ Pubs میں بیئر یا شراب پیتے ہیں یا پارکوں میں گھومتے ہیں مگر کوئی کام نہیں کرتے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی قوم ہے جس نے آدھی دُنیا پر قبضہ کر لیا تھا اَور جس نے دو۲ عظیم جنگیں لڑی تھیں۔
ویسے میرا خیال ہے کہ و ِکٹورین عہد میں جو دولت اِنگلستان میں آئی‘ اُس نے آہستہ آہستہ انگریز وں کو طاوٴس و رباب کا عادی بنا دیا اَور پھر بیسویں صدی کے آخری ایام میں غربت اِن کے گریبانوں سے جھانکنے لگی۔ تاہم شخصی سطح پر غریب سہی‘ قومی املاک کے اعتبار سے ‘نیز ثقافتی سطح پریہ قوم آج بھی بہت امیر ہے۔ اِس نے اپنے ثقافتی سرمایے کا تحفظ بطر ِیق احسن کیا ہے۔
انگریز کی فطرت میں ایک طرح کا بنیا پن ہے جو اَشیا کو سینے سے چمٹانے پر منتج ہوا ہے۔ اپنی اشیا سے اِنھیں بے پناہ محبت ہے اَور یہ لوگ اپنی قومی املاک کو شکست و ریخت سے بچانے کے لیے سدا مستعد رہتے ہیں۔ اِنگلستان کی مالی حالت اب اچھی نہیں رہی۔ لے دے کر پٹرول ہے جو سکاٹ لینڈ کے قریب دریافت ہوا ہے۔ تاہم انگریز‘ دُنیا کی Money Market پر چھائے ہوئے ہیں… بنیے جو ہوئے: اکثر خاموش رہتے ہیں… ٹیوب میں یا بس میں سفر کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ُبت بنے بیٹھے رہتے ہیں یا پھر کتاب یا اَخبار پڑھتے رہتے ہیں؛ دُوسرے مسافروں سے سلسلہ ٴ گفتگو شروع نہیں کرتے۔
یہ جزیرے کے باسی ہیں: جس طرح جزیرہ بر ّ ِ اعظم سے کٹا ہوتا ہے‘ اُسی طرح ہر انگریز دُوسروں سے کٹا ہوا ہے۔ اِس اِنقطاع نے اِن کے ہاں تنہائی کا شدید احساس پیدا کیا ہے۔ مشترکہ خاندان کا تصو ّر عنقا ہے؛ اَور چھوٹا خاندان بھی چند سال سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہتا کیونکہ بچے بڑے ہوتے ہی ُپھر سے اُڑ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگوں نے ُ ّکتے‘ پرندے‘ ّبلیاں اَور بعض نے کچھوے اَور چوہے تک پال رکھے ہیں جو اِن کی تنہائی کے رفیق ہیں۔
میں نے اِن اٹھارہ۱۸ د ِنوں میں کم اَز کم ایک درجن انگریز اَیسے بھی دیکھے جو پارکوں میں یا سڑکوں پر بہ آواز ِ بلند خود سے گفتگو کر رہے تھے اَور اپنی چھڑی کو َہوا میں لہرا کر کسی نادیدہ ُبھوت کو خود سے َپرے رکھنے کی کوشش میں تھے حالانکہ دُوسروں کی نظروں میں وہ خود لندن کے ُبھوتوں (ghosts) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ شدید احسا ِس تنہائی کا شاخسانہ نظر آیا۔
آج میرے ہاں نسیم شمائل پوری کی چھوٹی صاحبزادی اَور اُن کے شوہر (جو لندن کے ایک کامیاب تاجر ہیں) آ گئے۔ غالباً اُنھوں نے اخبار میں میری آمد کی خبر پڑھ لی تھی‘ اِس لیے مجھے ملنے چلے آئے۔ ہم تادیر بیٹھے نسیم شمائل پوری مرحوم کی باتیں کرتے رہے۔ نسیم میرے نہایت قریبی دوست تھے اَور میرے ہی کہنے پر اِنگلستان آ گئے تھے۔ یہاں چند سال میں اُن کی مالی حیثیت خاصی مستحکم ہوگئی تھی۔
اچھے شاعر تھے۔ آج سے کم و بیش بارہ۱۲ برس پہلے جب اُن کا مجموعہ ٴ کلام چھپا اَور وہ اپنی کتاب کی تقریب ِ رُونمائی کے سلسلے میں وطن آنے کے لیے تیار ہوئے تو پاکستان آنے سے محض ایک روز قبل ٹیوب کے ایک حادثے میں وہ اَور اُن کی بیگم ہلاک ہو گئے۔ آج میں نے اُن کی صاحبزادی کو اپنی وہ غزل د ِکھائی جو میں نے نسیم کی وفات پر کہی تھی۔ وہ غزل پڑھ کر آبدیدہ ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے مل کر اُسے اپنے والد یاد آ گئے تھے۔ وہ جتنا عرصہ میرے پاس بیٹھی رہی‘ اُس نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسووٴں کو روکے رکھا۔ اِسی دوران میں محسنہ جیلانی آ گئیں۔ محسنہ جیلانی افسانہ نگار ہیں‘ نظمیں بھی لکھتی ہیں؛ اَور اُردو مرکز میں اُنھوں نے جو مضمون پڑھا تھا‘ اُس سے اَندازہ ہوا کہ وہ ایک نقاد بھی ہیں۔ شام کو ہمیں ساوٴتھ ہال جانا تھا اَور پھر رات کو راج کھیتی کے ہاں دعوت ِ طعام تھی۔
چنانچہ ہم لوگ ساوٴتھ ہال کی طرف روانہ ہوئے۔ اِرادہ تھا کہ ساوٴتھ ہال میں گھوم پھر کر دیکھیں گے کہ بر ّ ِ صغیر کے لوگوں نے کس حد تک انگریزیت اَپنا لی ہے؛ مگر وہاں پہنچے تو محسوس ہوا کہ دہلی پہنچ گئے ہیں… ہر طرف ہندووٴں اَور سکھوں کی دُکانیں تھیں: اگرچہ قومی روایات کے احترام میں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھیلا ہوا تھا‘ پھر بھی بھارت اَور پاکستان کے بازاروں کے مقابلے میں یہاں صفائی زیادہ تھی۔
دراصل یہ پورا علاقہ ہی اَب بر ّ ِ صغیر کے باسیوں کی تحویل میں ہے۔ انگریز یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کی اَمارت اَور خوش حالی دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض انگریز اِن سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔ اصل بات شاید یہ ہے کہ تاریخ نے ایک اُلٹی زقند بھری ہے۔ کسی زمانے میں انگریز‘ ہندوستان میں بطور ِ فاتح موجود تھے‘ اُن کا اپنا ایک سو ِل لائن کلچر تھا اَور وہ ا ِہل ہند کے مقابلے میں بہت زیادہ امیر بھی تھے؛ لہٰذا لوگوں کو اُن سے نفرت تھی۔
آج اِنگلستان میں ا ِہل ہند اَمیر کبیر ہیں۔ اِسی لیے انگریزوں کا غریب طبقہ اُن کی طرف حسرت اَور نفرت سے دیکھتا ہے۔ جب فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والا انگریز نوجوان دیکھتا ہے کہ اُس کے قریب سے کوئی سکھ‘ رولز رائس میں سوار گزر گیا ہے تو اُس کے ماتھے کی شکنیں مزید گہری ہو جاتی ہیں۔ مگر اِس سب کے باوجود میرا یہ خیال ہے کہ بر ّ ِ صغیر کے لوگ زود یا بدیر‘ انگریز تہذیب میں ضم ہو جائیں گے۔
وہ یوں کہ حکومت نے تار ِکین وطن کی آمد پر پابندی لگا دی ہے۔ گویا اب پیچھے سے پانی کا ریلا نہیں آ سکے گا اَور جو ریلا آ ُچکا ہے‘ وہ آہستہ آہستہ خشک ہوتا جائے گا۔ پاکستان اَور بھارت کے جو لوگ اِنگلستان کے شہری بن چکے ہیں‘ اُن کی اَولاد اَب انگریزی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے‘ انگریزی ٹیلی و ِژن دیکھتی ہے‘ انگریز بچوں کے ساتھ کھیلتی ہے اَور اُن کے اَنداز و اَطوار کو پوری طرح اَپنا رہی ہے بلکہ اَپنا چکی ہے۔
تار ِکین وطن کے بچے اَب نہ صرف اپنی تہذیب سے نا آشنا ہو رہے ہیں بلکہ اپنی مادری زبانیں بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ کچھ سالوں کی بات ہے جب پچاس ساٹھ سال کے پیٹے میں آئے ہوئے لوگ‘ اِس دار ِ فانی سے کوچ کر جائیں گے اَور پیچھے سے آنے والوں کا سلسلہ اِسی طرح ٹوٹا رہے گا تو تار ِکین وطن کے بچے انگریزی معاشرے میں پوری طرح جذب ہو جائیں گے۔ میں لندن میں جتنے بھی لوگوں سے ملا‘ اُنھوں نے اِس بات کے اِمکان سے اِنکار بالکل نہیں کیا۔
راج کھیتی کے ہاں پہنچے تو وہاں بہت سے احباب جمع تھے۔ آغاز ِ کار میں تو مجھ پر سوالات کیے گئے اَور میں اپنی سمجھ کے مطابق اُن کے جواب دیتا رہا؛ مگر جب رات بھیگ گئی تو سوالات صرف مجھ تک محدود نہ رہے‘ ایک پبلک ڈ ِیبیٹ (Public Debate) کی صورت اِختیار کر گئے۔ محمود ہاشمی َموج میں تھے۔ اُنھوں نے گل افشا ِنی گفتار کا اَیسا مظاہرہ کیا اَور ایسے ایسے نکات برآمد کیے کہ محفل زعفران زار میں تبدیل ہوتے چلے گئی۔
کھانا بہت عمدہ تھا۔ آخر میں ہم سب نے مسز راج کھیتی کا شکریہ اَدا کیا۔ پھر رُخصت کی اِجازت مانگی اَور بکھر گئے۔ ۲۹/ اگست آج اِفتخار عارف نے ہم دونوں کو اَپنے گھر بلایا تھا۔ لفٹ میں بیٹھ کر اُن کے فلیٹ تک پہنچے تو وہ بڑی محبت سے ملے اَور ہمیں اپنے خوبصورت ڈرائنگ رُوم میں لے جا کر بٹھایا۔ اُن کا گھر خاصا کشادہ ہے اَور نوک پلک سے درست بھی! میں پچھلے اُنیس ۱۹ روز سے کرایے کی ایک کھولی میں رہ رہا ہوں جہاں کسمپرسی کے سوا اَور کچھ نہیں… بالکل پرولتاری ماحول ہے۔
افتخار عارف کے ہاں مجھے ایک مختلف ماحول نظر آیا تو بڑی راحت کا احساس ہوا۔ اُنھوں نے ہمیں چائے پلائی اَور اُس ویڈیو کا ایک حصہ بھی د ِکھایا جو اُردو مرکز کے زیر ِ اہتمام منعقد ہونے والے جلسے کا احوال تھا۔ اِسی دوران میں سوہن راہی بھی آ گئے۔ دراصل ہم سب کو گلشن نندہ کے ہاں دوپہر کے کھانے پر جانا تھا اَور افتخار عارف کا گھر تو اِس مہم میں محض ”ماندگی“ کا ایک وقفہ تھا۔
گلشن نندہ کے ہاں پہنچتے ہی میں نے درخواست کی کہ وہ تین بجے سے پہلے ہمیں فارغ کر دیں کیونکہ ہمیں چند دوستوں کی معیت میں لندن سے باہر جانا تھا۔ مگر اُن کا کھانا چینیوں کی دعوت ِ عام کی طرح طویل اَور َتہ ‘در َتہ ‘تھا۔ مثلاً ڈرائنگ رُوم ہی میں ہمیں ُمرغ اَور ِ ّتکے اَور نہ جانے کیا کچھ ِکھلا دیا گیا۔ یہ سب چیزیں مسز نندہ نے تیار کی تھیں۔
جب ہم نے پیٹ بھر کر کھا لیا اَور واپسی کی اِجازت طلب کی تو گلشن نندہ اَور اُن کی بیگم نے کہا: میز پر کھانا لگا دیا گیا ہے‘ کھا کر چلے جائیے گا! ہم سب نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا اَور پوچھا: کھانا اَب میز پر لگا ہے تو یہ سب کچھ کیا تھا؟ مسز نندہ کہنے لگیں: یہ تو محض اِشتہا کو تیز کرنے کے لیے تھا… مگر ہمیں پتا ہوتا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے تو پہلے ہم ایک روز فاقہ کرتے‘ پھر ایک پورا د ِن اِن کے لیے مختص کر دیتے‘ ساتھ ہی کسی ہسپتال سے رابطہ قائم کرتے کہ وہ ایمبولنس گلشن نندہ کے ہاں بھیج دیں تاکہ overeating کرنے والوں کو ہسپتال پہنچایا جا سکے… تفنن برطرف‘ گلشن نندہ کے خلوص اَور محبت کی کوئی نہایت نہیں تھی۔
وہاں سے اُٹھے تو سوہن راہی نے مجھے اَور سلیم کو اَرل کورٹ پہنچا دیا۔ کوئی گھنٹے بھر کے بعد محمود ہاشمی‘ ثریا اَور محسن شمسی آ گئے اَور ہم کلیئر منٹ لینڈ سکیپ گارڈن دیکھنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ تاریخی باغ، لندن شہر سے باہر ہے۔ اٹھارھویں صدی کے آغاز میں اِسے بنایا گیا تھا۔ اِس میں ایک گول تالاب ہے اَور تالاب کے ایک جانب ایک Amphitheatre ہے… بالکل َویسا ہی جیسا کہ قدیم رُوم اَور یونان میں بنایا جاتا تھا۔
اِبتداً یہ Homas Pelham Holles کی ملکیت تھا جو سولہ۱۶ برس تک اِنگلستان کا وزیر ِ اعظم رہا ؛مگر ۱۷۶۸ء میں جب لارڈ کلائیو بر ّ ِ صغیر کی دولت سمیٹ کر اِنگلستان آیا تو اُس نے یہ جگہ خرید لی۔ یوں تو اِنگلستان کی بیشتر تاریخی عمارتوں اَور قیمتی اثاثوں میں سابقہ ہندوستان کا ُلہو شامل ہے لیکن کلیئر مونٹ لینڈ سکیپ گارڈن تو براہ ِ راست ہماری دولت سے خریدا گیا تھا… لہٰذا ہم ٹکٹ خرید کر اِس کے اَندر دوڑتے کودتے‘ اِس کی گھاس کو َروندتے اَور تالاب میں کنکر پھینکتے پھرے کہ یہ ہماری ملکیت ہے! باغ بے حد خوبصورت ہے۔
اِس کے درخت نہایت قدیم ہیں۔ بعض درخت تو اِتنے بوڑھے ہیں کہ اُن کے تنوں پر ُ ّجھریاں پڑ گئی ہیں۔ باغ میں داخل ہوتے ہی ہمیں ایک اِتنا بڑا درخت نظر آیا کہ اچھابل کے چنار اُس کے سامنے محض پودے د ِکھائی دیں۔ رو ِشوں کے ساتھ ساتھ جنگل اِتنا گھنا ہے کہ اِس میں داخل ہونا بھی مشکل ہے۔ مگر محسن شمسی سٹرابری کے عاشق ہیں‘ سو کسی نہ کسی طرح اُنھوں نے جنگل میں گھس کر ثمر ِ ممنوعہ حاصل کر ہی لیا۔
محمود ہاشمی اَور ثریا نے ایک دُوسرے کو پکڑنے کی کوشش میں خوب َدوڑیں لگائیں‘ ثریا نے ہر بار محمود ہاشمی کو شکست دی۔ سلیم کو گھومنے اَور باغ کے بعید تریں گوشوں میں جانے کی تمنا تھی‘ لہٰذا وہ ہمیں تالاب کے کنارے بٹھا کر‘ خود باغ کی پیمائش کے لیے چلا گیا: وہیں کہیں اُس نے اپنا چھاتا بھی گم کر دیا‘ جب واپس آیا تو باغ والوں نے کوچ کا نقارہ بجا دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ پندرہ۱۵ منٹ کے اَندر اَندر باغ کو خالی کر دیا جائے۔
ہم ابھی جانا نہیں چاہتے تھے مگر مجبوری تھی۔ اِس باغ کا اپنا ایک مزاج ہے اَور سچی بات تو یہ ہے کہ لندن کے ہر باغ کا رنگ رُوپ الگ ہے۔ بعض باغ تو سیر و تفریح کے لیے ہیں‘ بعض بوٹینیکل گارڈن ہیں اَور بعض کی حیثیت تاریخی ہے جبکہ بعض میں اِن تینوں صفات کا اِمتزاج نظر آتا ہے… کلیئر مونٹ لینڈ سکیپ گارڈن میں یہ اِمتزاج بہت نمایاں ہے۔ شام ہونے کو تھی۔
گاڑی ہمیں اَرل کورٹ اُتار کر چلی گئی مگر ہمارے فلیٹ کے سامنے ایک اَور کار ہماری منتظر تھی۔ یہ ساقی فاروقی تھے… دراصل آج رات کے کھانے کے لیے ہم ساقی کے قبضہ ٴ قدرت میں تھے۔ ہم اُن کے ساتھ بیٹھ گئے اَور وہ ہوا سے باتیں کرنے لگے… وہ یوں کہ ساقی جب ڈرائیو کرتے ہوئے زور ِ خطابت کا مظاہرہ کرتے تو دونوں ہاتھ‘ کار کے سٹیئرنگ و ِھیل سے اُوپر اُٹھا لیتے اَور کار‘ ہوا کی تحویل میں چلی جاتی۔
بہر حال ہم ساقی کے گھر پہنچ ہی گئے۔ اُنھوں نے ہمیں باہر کھڑے رہنے کے لیے کہا اَور خود اَندر جا کر‘ اپنے خوں خوار ُ ّکتے سے بغل گیر ہوئے‘ اُس کا ُمنہ ‘ َسر چوما‘ بلائیں لیں‘ اُسے سمجھایا کہ گھر کے باہر دو۲ بد بخت مہمان کھڑے ہیں‘ وہ ابھی اَندر آئیں گے‘ اُنھیں ابھی کچھ کہنا نہیں ہے۔ ُ ّکتے کو سمجھانے کے بعد اُنھوں نے ہمیں اَندر طلب کیا اَور جب تک ہم اُن کے ڈرائنگ رُوم میں چلے نہ گئے‘ وہ ُ ّکتے سے لپٹے رہے۔
پھر اُسے وہیں چھوڑ کر ڈرائنگ رُوم میں چلے آئے اَور دروازہ بند کر دیا۔ کہنے لگے: آپ یوں ہی گھبرا گئے‘ یہ صرف ُبرے شاعروں پر بھونکتا ہے… احمد فراز آئے تھے تو یہ اُن پر بھونکا تھا۔ اچھے شاعر کی عزت کرتا ہے۔ میں نے د ِل میں کہا: اگر یہ ُ ّکتا واقعی سخن شناس ہوتا تو د ِن رات ساقی کے گھر میں رہتے ہوئے کیوں نہ بھونکتا! ساقی نے دو۲ اَور مہمانوں کو بھی بلا رکھا تھا۔
دونوں انگریز تھے۔ اُن میں سے ایک خاتون (جس کا نام َمیں بھول گیا ہوں) ‘بقو ِل ساقی ‘ نہایت عمدہ کتھک ڈانسر ہے۔ دُوسرے صاحب‘ راوٴ بیٹ (Roy Batt) تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ انگریزی زبان کے اچھے شاعر ہیں۔ میں نے کچھ باتیں خاتون سے کیں مگر زیادہ باتیں مسٹر بیٹ سے ہوئیں۔ کچھ دیر کے لیے موضوع حیاتیات‘ پھر علم ُ الانسان رہا۔ پھر ہم شاعری کی طرف آ گئے۔
راوٴ بیٹ مجھ سے نظمیں سننا چاہتے تھے۔ میں نے کہا: اُردو نظمیں آپ کی سمجھ میں کیا آئیں گی! بولے: میں نظم کا میوزک سنوں گا؛ میوزک اچھا ہے تو نظم بھی اچھی ہوگی؛ میوزک ُبرا ہے تو نظم متنو ّع معانی کی حامل ہونے کے باوجود بیکار ہے۔ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی مگر ساقی نے کہا کہ اُن کے پاس میری نظموں کے انگریزی تراجم کا مجموعہ Selected Poems موجود ہے‘ اِس لیے میں نظم اُردو میں پڑھوں اَور مسٹر بیٹ اُس کا انگریزی ترجمہ بہ آواز ِ بلند پڑھیں گے۔
بہر حال میں نے دو تین نظمیں سنائیں اَور مسٹر بیٹ نے اُن کے تراجم کی قرأت کی‘ اَور سچی بات تو یہ ہے کہ مسٹر بیٹ کی زبان سے جب ہم نے یہ نظمیں سنیں تو ہمیں اُن کے تراجم خاصے اچھے لگے۔ پھر مسٹر بیٹ نے اپنی ایک نظم سنائی۔ گنڈی (بیگم ساقی) کھانا تیار کرنے میں مصروف تھیں۔ وہ صرف چند لمحوں کے لیے ڈرائنگ رُوم میں آئیں جب شعری محفل برپا تھی۔
وہ خود تو آسٹریا کی رہنے والی ہیں مگر اُنھوں نے ہمارے لیے بطور ِ خاص پاکستانی کھانے تیار کیے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ اُن کھانوں کی نوک پلک بالکل درست تھی۔ کھانے کے بعد ساقی اَور گنڈی نے ہمیں اپنے دورہ ٴ بر ّ ِ صغیر کی البم د ِکھائی جس میں زیادہ تر تصویریں خستہ حال عمارتوں اَور اَدیبوں کی تھیں۔ ۳۰/ اگست آج دوپہر تک ہم اپنے کمرے میں بند رہے۔
وجہ یہ کہ آج شام کی فلائیٹ سے ہمیں پاکستان جانا تھا جس کے لیے تیاری ضروری تھی۔ ہمارے پاس معمولی سا سامان تھا جسے سلیم نے چند لمحوں میں َپیک کر لیا۔ پھر کمرے کو صاف کیا اَور برتن دھوئے تاکہ جب شام چھے۶ بجے کمرہ مالک ِ مکان کو واپس کیا جائے تو پاکستانیوں کی بدنامی نہ ہو۔ دوپہر کا کھانا یونس تنویر کے ہاں تھا۔ اُنھوں نے بہت سے اُدبا کو (جن میں محمود ہاشمی‘ محسن شمسی‘ بخش لائلپوری‘ حکیم جاوید‘ عاشور کاظمی اَور چند دیگر اَحباب شامل تھے) اپنے گھر بلا لیا تھا۔
جس محفل میں محمود ہاشمی ہوں‘ وہاں بحث خاصی مزے دار ہو جاتی ہے۔ اُنھوں نے حسب ِ معمول کاٹ دار جملوں سے محفل کو خوب گرمایا۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ اپنی نظمیں اَور غزلیں سناوٴں۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ عاشق حسین بٹالوی آ گئے۔اُنھیں ایک مدت کے بعد دیکھا: اَب اُن کی عمر اسی۸۰ برس کے لگ بھگ ہوگی ؛مگر آج سے تقریباً پینتیس۳۵ برس پہلے ( جب اُن سے ”اَدبی دُنیا“ کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی) ‘وہ جوا ِن رعنا تھے۔
اُن د ِنوں اُن کی خوش گفتاری ‘ہر محفل کو ُ لوٹ لیا کرتی تھی۔ اُس ایک ملاقات کے بعد اُن سے ہر روز ملاقات ہونے لگی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مولانا صلاح الدین احمد دفتر میں نہ ہوتے اَور ہم دونوں وہاں بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے رہتے‘ یعنی عاشق حسین باتیں کرتے اَور میں سنتا۔ ایک روز َمیں نے اُن کے کسی مطبوعہ افسانے کا حوالہ دیا جس کا پلاٹ مجھے یاد نہیں رہا تھا اَور کہا‘ اُنھیں پلاٹ یاد ہو تو اُس کی موٹی موٹی باتیں بتا دیں۔
اُنھیں خدا اَیسا موقع دے: اُنھوں نے مجھے ایک گھنٹے میں اُس افسانے کا پلاٹ سنایا جبکہ افسانہ محض دس۱۰ منٹ کا تھا۔ مولانا صلاح الدین احمد سے اُن کی گہری‘ بہت گہری دوستی تھی… د ِن رات کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ پھر وہ مولانا کی ز ِندگی ہی میں اِنگلستان چلے آئے اَور اَب برسوں بعد اُن سے ملاقات ہوئی ہے؛ مگر محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ”اَدبی دُنیا“ کے پورے َدور حتیٰ کہ مولانا صلاح الدین احمد کو بھی قطعاً بھلا دیا ہوا ہے۔
اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ مجھ سے ملتے ہی ایک آدھ اِشارہ اُس َد ور کی طرف ضرور کرتے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم اَرل کورٹ پہنچ گئے جہاں ثریا ہماری منتظر تھیں۔ پروگرام یہ تھا کہ ہیتھرو کے لیے روانہ ہونے سے پہلے Notting Hill Carnival کا ایک منظر دیکھ لیا جائے… یہ کارنیوال تین۳ روز کے لیے ہوتا ہے اَور یہ West Indiesاَور Caribansکا مشترکہ تیوہار ہے جسے وہ ہر سال اگست کے آخری ہفتے میں مناتے ہیں۔
گویا یہ ایک قسم کا موسمی تیوہار ہے۔ رام لیلا کے رتھوں کو اگر میلہ ٴ چراغاں سے جوڑ دیا جائے تو شاید اِس تیوہار کا مزاج اُبھر آئے؛ تاہم اِس کی زیادہ تر مماثلت اُن میلوں سے ہے جو کبھی یونان میں ڈاؤنس َمت کے تحت ہوا کرتے تھے اَور جن میں رقص اَور شراب کی فراوانی ہوتی تھی۔ ہمیں اُن بازاروں سے کافی فاصلہ پہلے گاڑی سے اُترنا پڑا جو کارنیوال کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
جب ہم چھے سات فرلانگ پیدل چل کر‘ کارنیوال تک پہنچے تو کالے رنگ کے لوگوں کا ایک ہجوم د ِکھائی دیا جس میں سفید چمڑی کے َمرد و َزن‘ برص کے سفید د ّھبوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ بیشتر لوگ پیے ہوئے تھے۔ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ایک بس گزرتی جس پر َویسٹ اِنڈین ساز بجا رہے ہوتے… ہردو۲ بسوں کے درمیانی حصے میں پوری سڑک ناچتے گاتے لوگوں سے ُپر تھی… وہ موسیقی کے تال پر رقص کر رہے تھے‘ گورے بھی اَور کالے بھی… اُن میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اَور بوڑھے کھوسٹ بھی؛ مگر رقص کی دھمک اَور نشے کے زیر و بم میں اُن کی عمروں کا تفاوت تقریباً ختم ہو گیا تھا‘ نیز موسیقی نے سڑک کے کناروں پر کھڑے تماشائیوں کے ُلہو میں بھی جوالا بھر دیا تھا۔
میں نے دیکھا کہ محسن شمسی کا اُوپر والا دھڑ نہایت شریفانہ اَنداز میں بردباری اَور رکھاوٴ کا حامل تھا لیکن دھڑ کا نچلا حصہ ہولے ہولے رقص کرنے لگا تھا۔ میرا خیال ہے‘ ہم مزید کچھ عرصہ وہاں ٹھہرتے تو محسن شمسی رقاصوں میں شامل ہوکر نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے! چونکہ گاڑی اُنھیں ڈرائیو کرنا تھی‘ اِس لیے اُن کی گمشدگی کا مطلب یہ ہوتا کہ ہمارے لیے ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر بر وقت پہنچنا مشکل ہو جاتا۔
سو میں نے اُن کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا‘ وہ سمجھے کہ میں نے اَز راہ ِ محبت اُن کا ہاتھ تھاما ہے حالانکہ اِس میں خود غرضی کے پوتر جذبے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وقت کم تھا‘ اِس لیے ہم واپس ہوئے۔ اَرل کورٹ پہنچے تو افتخار عارف ہمیں رُخصت کرنے آئے ہوئے تھے۔ اُن سے جدا ہوتے ہوئے د ِل میں کسک تھی اَور دوبارہ ملنے کی آرزو اَور یہ اُمید کہ وہ مو ِسم سرما میں لاہور آئیں گے تو اُن سے دوبارہ ملاقات ہوگی۔
تقریباً پینتالیس۴۵ منٹ میں ہم ہیتھرو پہنچے اَور ہمارے پہنچنے کے چند ہی منٹ بعد جتندر ّبلو بھی آ گئے۔ اِبتدائی مراحل کے گزرنے تک سب دوست ہمارے ساتھ رہے۔ آخر ُجدائی کی گھڑی آ گئی۔ باد ِل نخواستہ اُن سب سے اِجازت لی۔ خطوط کے تبادلے کے وعدے ہوئے اَور پھر ہم دونوں لندن کی سہانی یادیں اپنے سینوں سے چمٹائے ایئر پورٹ کے اَندرونی حصے میں آ گئے۔ یہاں بے شمار پاکستانی ‘ جہاز میں سوار ہونے کے لیے یکجا ہو گئے تھے۔

Chapters / Baab of Teen Safar By Wazir Agha