Episode 8 - Teen Safar By Wazir Agha

قسط نمبر8 - تین سفر - وزیر آغا

ُیوں لگتا ہے جیسے ۱۹۸۹ء کے َ وسط تک َمیں rapids کے علاقے سے ایک بڑی َحد تک باہر آگیا تھا اَور اَب میرے د ِل میں یہ خواہش جنم لے رہی تھی کہ میں ُکھلی فضا میں لمبے لمبے سانس ُلوں۔ پچھلے تیس ۳۰ برسوں سے َمیں دو ۲ خوابوں کو پالتا پوستا رہا تھا۔ ایک خواب کالکا سے شملے تک ریل میں سفر کرنے کا تھا۔ اِس سفر کی فلمیں‘ میں نے دیکھ رکھی تھیں مگر فلم کی بات اَور ہے‘ تجربے کی بات اَور! اِس کا ایک موقع بھی َپیدا ُہوا جب مجھے شملے سے آل اِنڈیا سیمینار کا دعوت نامہ ِملا مگر میں بہ ُو ُجوہ فائدہ نہ اُٹھا سکا۔
وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا اَور میں بہتر ۷۲ برس کے سنگ ِ میل سے محض چند گام کی دُوری پر تھا۔ میں نے اِرادہ کیا کہ ُعمر ِ طبیعی کی آ ِخری َحد کو پار کرنے سے پہلے پہلے کم اَز کم اَپنے دُوسرے خواب کی تعبیر تو ضرور دیکھ ُلوں! میرا یہ خواب اَورنگ آباد کو نظر بھر کر دیکھنے کا تھا۔

(جاری ہے)

میں نے انور سدید سے رابطہ قائم ِکیا اَور اُنھیں اَورنگ آباد کے حیرت زا آثار کے بارے میں بتایا جن میں ایلورا اَور اَجنتا بھی شامل تھے۔

اُنھیں اَجنتا اَور ایلورا سے کم اَور اُن کے ِگرد پھیلے ہوئے مظا ِہر اَور اُن مظا ِہر سے ُجڑے ہوئے اَورنگ آباد کے اَدیبوں میں د ِ لچسپی زیادہ تھی۔ سو ُوہ راضی ہوگئے۔ اگلا مر ِحلہ یہ تھا کہ میں دہلی میں جوگندر پا ل اَور ظفر پیامی سے رابطہ قائم کروں کیونکہ اُن کے بغیر اَورنگ آباد کا سفر بے معنی تھا۔ سو میں نے جوگندر پال کو خط لکھ کر بتایا کہ میں دہلی سے اَورنگ آباد َہوائی جہاز کے ذریعے جانے کا اِرادہ نہیں رکھتا‘ اِس کے بجائے ریل گاڑی میں سفر کرنا پسند کروں گا تاکہ بھارت کی طویل و عریض دھرتی اَور اِس دھرتی پر اُگے ہوئے جنگلوں اَور پھرتے ُہوئے جنگلی جانوروں کو قریب سے دیکھ سکوں۔
جوگندر پال نے میری بات مان لی۔ چنانچہ جب ہم دہلی پہنچے تو اگلے ہی روز صبح سویرے اَورنگ آباد کی طرف جانے والی ٹرین میں جا بیٹھے جس میں ہم چاروں کی نشستیں محفوظ تھیں۔ یہ ایک طویل سفر تھا۔ ہم صبح نو ۹ بجے گاڑی میں سوار ُہوئے‘ سارا د ِن اَور اُس کے بعد ساری رات گاڑی میں سفر ِکیا اَور اَگلے روز شام کے قریب اَورنگ آباد جا پہنچے۔ جب ہم گاڑی میں سوار ُہوئے تو میں نے انور سدید کو جوگندر پال اَور ظفر پیامی کے حوالے کردیا تاکہ تینوں خوب گپ شپ لگائیں‘ اَور خود ِکھڑکی سے لگ کر بیٹھ گیا تاکہ بھارت کے جنگلوں اَور کھیتوں کو دیکھ سکوں۔
اِس ریلوے لائن پر یہ میرا پہلا سفر نہیں تھا۔ اِس سے کم و بیش پینتالیس ۴۵ سال پہلے جب میں گجرات کاٹھیاواڑ کے راستے ، بمبئی گیا تھا‘ میں نے واپسی کے لیے بھوپال‘ آگرہ اَور علیگڑھ سے گزر کر دہلی پہنچنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اُس زمانے میں یہ ایک ُپر اَسرار سفر تھا۔ کھڑکی میں سے مجھے جنگلات کے پورے سلسلے نظر آئے تھے۔ ہرنوں‘ موروں اَور بندروں کی بھی فراوانی تھی۔
بالخصوص آگرے میں‘ جہاں َمیں دو ۲ روز کے لیے رُکا تھا‘ اِنسانوں سے زیادہ بندر آباد تھے۔ پھر علیگڑھ کے علاقے سے گزرتے ُہوئے‘ میں نے پچاس ساٹھ ہرنوں کی ایک ڈار دیکھی تھی جو گاڑی کی آواز ُسن کر‘ آموں کے ایک گھنے ُجھنڈ سے نکلی تھی اَور زقندیں بھرتے ہوئے میل بھر کے فاصلے پر ایک َویسے ہی ُجھنڈ میں غائب ہو گئی تھی‘ مگر اَب ُصورت ِ حال بالکل تبدیل ہو چکی تھی۔
جنگل تو جیسے غائب ہی ہو گئے تھے اَور کھیتوں کی مینڈھوں پر اُگے ُہوئے درختوں کی تعداد بھی بہت کم ہو گئی تھی۔ اِس سفر کے دوران میں مجھے کوئی مور‘ ہرن یا بندر د ِکھائی نہ دیا۔ اِستفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اَب یہ ِجنس نایاب‘ بھارت کے بعض شہروں‘ قدیم متروک مند ِروں یا خاص خاص علاقوں تک محدود ہو کر َرہ گئی ہے۔ ریل گاڑی کی کھڑکی میں سے مجھے کبھی تو چٹیل زمین نظر آتی اَور کبھی کھیتوں کے سلسلے… لیکن پینتالیس ۴۵ سال پہلے والی دھرتی کہیں د ِکھائی نہ دی۔
اگلے روز‘ شام کے قریب‘ ہم اَورنگ آباد ریلوے سٹیشن پر اُتر گئے۔ دیکھا کہ اَورنگ آباد میں رہنے والے اُ َد با کی خاصی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ اُن میں سے بیشتر سے میری یہ پہلی ملاقات تھی گو بعض سے خط کتابت ہوتی رہی تھی۔ اَور چند ایک تو ”اوراق“ کے لکھنے والوں کی فہرست میں بھی شامل تھے … مثلاً قاضی سلیم (جو اَب اِس دُنیا میں نہیں ہیں)‘ بشر نواز‘ فرحت نواز اَور محمد اسداللہ۔
ہم اُن سب سے ُ گھٹ ُگھٹ کر ملے۔ بعد میں بھی اُن سے بار بار ملاقات ہوتی رہی۔ اَورنگ آباد کو تاریخی حیثیت حاصل ہے‘ اَور یہ شہر ثقافتی اِعتبار سے بھی شمالی ہندوستان‘ بالخصوص دہلی اَور پنجاب کے کلچر سے بالکل مختلف نظر آیا۔ ہم جتنے روز اَورنگ آباد میں رہے‘ اِس کے ثقافتی مظا ِہر کو بغور دیکھتے رہے۔ عام اِنسانی روابط میں جو ُتند و تیز رو ّیہ شمالی ہندوستان میں د ِکھائی دیتا ہے‘ اُس کا عشر ِ عشیر بھی اَورنگ آباد میں نہیں تھا۔
اِس کے بر عکس ایک ٹھہرا ہوا معاشرہ‘ زمین سے ُجڑا ہوا محسوس ہوا۔ یہ میں آج سے کم و بیش اٹھارہ ۱۸ برس پہلے کے اَورنگ آباد کا ذ ِکر کر رہا ہوں‘ معلوم نہیں کہ اَب کیا صورت ِ حال ہے؛ اُس وقت تو شانتی ہی شانتی تھی۔ مثلاً ہم نے دیکھا کہ کالج کی لڑکیاں‘ سائیکلوں پر سوار‘ سڑکوں پر آ جا رہی تھیں‘ کیا مجال کہ اُن پر کسی نے آوازہ َکسا ہو! اَخبارات میں سنسنی خیز واقعات‘ ڈاکوں اَور قفل ِشکنی کی وارداتوں کا ذ ِکر بہت کم نظر آیا اَور نظر آیا بھی تو اَخبار کے کسی کونے کھدرے میں۔
لوگ ملنسار تھے اَور بخوشی راستہ دے دیتے تھے۔ کسی شہر یا ملک کے کلچر کے اعلیٰ یا اَدنیٰ معیار کا اَندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ بخوشی آپ کو راستہ دے دیتے ہیں یا د ّھکا دے کر خود اَپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اَورنگ آباد میں راستہ دینے کا رو ّیہ عام َطور سے د ِکھائی دیا۔ وہاں کے کلچر میں اُستاد کی تعظیم کی جو شاندار َجہت موجود تھی‘ اُس نے تو مجھے حیران ہی کر دیا۔
ہمارے ساتھ جوگندر پال تھے جو بیک وقت ہمارے ہم سفر‘ َرہبر اَور سفر کے منتظم تھے لیکن اِن اَوصاف کے علاوہ اَورنگ آباد سے اُن کی قدیم وابستگی بھی تھی۔ وہ ہمیں اِس شہر کے کلچر کے اَیسے اَیسے پہلو د ِکھا رہے تھے جو بصورت ِ دیگر شاید ہماری نظروں سے اوجھل ہی رہتے۔ مثلاً ُوہ ہمیں ایک اَیسے کالج میں لے گئے جہاں ُوہ کئی سال پہلے پرنسپل تھے۔
کالج میں داخل ُہوئے تو وہاں کی ُپر سکوں فضا میں ہلچل سی َپیدا ہو گئی اَور پھر ہر طرف سے لوگ ہماری طرف لپکے۔ یہ منظر دیدنی تھا۔ وہ آتے ہی دُور سے ہاتھ جوڑ لیتے‘ پھر آگے بڑھ کر جوگندر پال جی کے قدموں میں جھک جاتے۔ اکثر کی آنکھوں میں آ ُنسو اَور ہونٹوں پر ایک انوکھی مسکراہٹ تھی۔ اُن میں کالج کے اَساتذہ کے علاوہ کلرک حتیٰ کہ چوکیدار‘ مالی اَور خاکروب بھی تھے جو اِنتہائی احترام سے جوگندر پال سے آشیر باد لے رہے تھے۔
اُس وقت مجھے ُیوں لگا جیسے جوگندر پال کوئی اَوتار یا ِنیتا یا دیوتا ہیں جن کے درشن کے لیے کالج کی مخلوق پاگل ہوئے جا رہی ہے۔ اَیسا منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یقیناً یہ بھی اَورنگ آباد کے کلچر کا ایک زاویہ تھا۔ لیکن جوگندر پال کا فقط یہی ایک ُروپ نہیں تھا۔ اَورنگ آباد کے لوگ اُن کی ُپوجا کر رہے تھے اَور ُوہ ُپورے اَورنگ آباد کو ُپوج رہے تھے۔
عجیب بات یہ تھی کہ جب وہ کسی بات پر خوش ہوتے تو بے اِختیار ہو کر ”نئیں ر ِیساں شہر لہور د ِیاں“ کا بھرپور نعرہ لگاتے اَور مسرت اُن کے ہر ُ ِ بن ُ مو سے چھلکنے لگتی۔ تقسیم سے پہلے ُوہ سیالکوٹ کے باسی تھے مگر لاہور شہر پر د ِل و جاں سے فریفتہ تھے۔ تقسیم کے بعد جب ُوہ اِس شہر سے جدا ہوئے تو اُنھوں نے لاہور کو اَپنے د ِل کے ّمعطر اَیوان میں بسا لیا اَور اَندر ہی اَندر اِس کی ُپوجا کرتے رہے۔
پھر جب کسی زمانے میں اُنھیں اَورنگ آباد میں طویل قیام کرنا پڑا تو اُنھوں نے اِس شہر میں وہی کچھ دیکھنا شروع کر دیا جو اُنھیں لاہور میں نظر آیا کرتا تھا۔ ُیوں لگتا ہے جیسے اَورنگ آباد یاترا کے اِس موقع پر ُوہ اپنے اَندر آباد شہر لاہور کو مزید نہ چھپا سکے اَور اُنھیں اَورنگ آباد کی ہر اَدا میں لاہور نظر آنے لگا اَور ُوہ اِس شہر کے حوالے سے لاہور کو یاد کرنے پر مجبور ہو گئے! جوگندر پال کے علاوہ‘اَورنگ آباد سے دو ۲ اَور نام بھی وابستہ ہیں۔
ایک‘ خود اَورنگزیب عالمگیر کا نام جو اِس شہر کی پیشانی پر ثبت ہے ۔ اَورنگزیب کو یہ شہر د ِل و جاں سے پسند تھا اَور شاید اِسی لیے اُس نے یہیں دفن ہونا پسندکیا… ممکن ہے‘ اُس نے اِس سلسلے میں و ّصیت بھی کی ہو! دُوسرا نام مولوی عبدالحق کا َہے۔ اُنھوں نے نہ صرف اَورنگ آباد کو اُردو اَدب کے نقشے پر اُبھار کر اِسے ایک دائمی حیثیت َعطا کی بلکہ اِس شہر کی شعریات میں شرا ُبور زمین سے تخلیقی سطح پر متحرک ہونے کا اِنعام بھی پایا۔
اَدب کے َمیدان میں لین دین کی ایسی اَور بھی مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اَورنگ آباد کے قیام کے دوران میں ہم ایک ہی اَدبی تقریب میں شریک ُہوئے جو کئی د ِنوں پر محیط تھی: بعض اَوقات یہ کسی ایک َمقام پر مرتکز ہو جاتی جیسے ُوہ َمقام جہاں اُردو کے علاوہ مرہٹی اَور ہندی کے اُ َدبا بھی شریک ُہوئے یا یوسف عثمانی کے گھر پر جس میں اَورنگ آباد کے تقریباً سبھی اُ َدبا نے شرکت کی ‘مگر زیادہ تر چھوٹی چھوٹی محفلوں میں بکھری ہوئی نظر آتی۔
اِس سلسلے میں مجھے بہت سی محفلیں یاد آ رہی ہیں جو قاضی سلیم‘ رفعت نواز اَور دُوسرے اَحباب کے گھروں میں ُپر ّ تکلف دعوتوں کے گرد منعقد ہوئیں اَور جن میں دُنیا بھر کے اَدبی موضوعات زیر ِ بحث آئے۔ ساتھ میں قاضی سلیم‘ بشر نواز اَور دیگر شعرا کا خوب صورت کلام سننے کا موقع بھی ِملا۔ البتہ اَورنگ آباد پہنچنے کے دُوسرے ہی د ِن ایک بڑی تقریب کا اِنعقاد ُہوا جس کا ذ ِکر ضروری ہے۔
اِس تقریب کی صدارت ظفر پیامی نے کی اَور نظامت بشر نواز نے۔ محمود ہاشمی بھی اِس میں شریک ہوئے۔پچھلی ملاقات اُن سے لندن میں ُہوئی تھی۔ وہ اُسی طرح ّہشاش ّبشاش تھے۔ اَدبی چھیڑ چھاڑ اُنھیں بدستور مرغوب تھی۔ تقریب میں بحث و تمحیص کے لیے ایک موضوع دے دیا گیا تھا۔ سب نے باری باری مائیکروفون کے پاس جا کر اَپنا اَپنا نقطہٴ نظر پیش کیا ۔
جب محمود ہاشمی کی باری آئی تو اُنھوں نے بشر نواز کی کسی بات پر بڑے کٹیلے اَنداز میں‘ اِس َطور نکتہ چینی کی کہ ساری محفل زعفران زار میں تبدیل ہو گئی۔ جواباً بشر نواز نے بھی گل اَفشا ِنی ُگفتار کا مظاہرہ ِکیا۔ اِس معرکے کا کوئی نتیجہ تو برآمد نہ ُہوا لیکن یہ معرکہ آرائی اُس ساری یبوست کو بہا لے گئی جو سنجیدہ مقر ّرین کی تقریروں کے با ِعث َپیدا ہو گئی تھی۔
آ ِخر میں ظفر پیامی نے بڑے خوب صورت اَنداز میں ساری بحث کو سمیٹا۔ میں نے دیکھا کہ ُوہ ایک منجھے ہوئے مقر ّر تھے اَورمحفل کو اِعتدال پر لانے کے ماہر‘ لیکن اُن کے ّ ِفن تقریرکی اصل صورت تو چند روز بعد نظر آئی جب اُنھوں نے مالیگاوٴں کے کئی جلسوں سے خطاب کیا۔ ُوہ طویل تقریر کرتے تھے اَور تقریر کرتے ہوئے بڑی بڑی سیاسی ّشخصیتوں کو بے نقاب کرتے چلے جاتے تھے۔
اُن کی تقاریر کا سب سے اَہم موضوع اُردو زبان اَور اَدب تھا۔ اُس وقت مجھے ُمحسوس ہوا تھا کہ ُوہ بھارت میں اُردو زبان کے سب سے بڑے ُ ُستون ہیں۔ ُوہ سیاسی َمیدان میں بہت ّفعال تھے مگر اَفسوس کہ ُعمر نے اُن سے َوفا نہ کی اَور اَورنگ آباد/ مالیگاوٴں سفر کے دو تین سال کے اَندر ہی وہ اِس دُنیا میں نہ رہے۔ میں وثوق سے َکہ ‘سکتا ہوں‘ اگر ُوہ ز ِندہ رہتے تو بھارت میں اُردو زبان اَور اَدب کا مستقبل یقیناً بہت شاندار ہوتا ! َورنگ آباد جانے کا ایک مقصد ایلورا اَور اَجنتا میں موجود ثقافتی آثار کو ایک نظر دیکھنا بھی تھا۔
اِن میں سے ایلورا‘ اَورنگ آباد سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چنانچہ ہم چشم َزدن میں وہاں جا پہنچے اَور پھر سنگ تراشی کے شاہکار نمونے دیکھتے چلے گئے۔ ایلورا میں سب سے حیرت انگیز چیز ُوہ چٹان تھی جسے قدیم زمانے کے سنگ تراشوں نے مند ِر کی صورت دے دی تھی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ بہت قدیم زمانے میں یہ کام سنگ تراشی کے ماہر فن کاروں کی کئی نسلوں نے انجام دیا تھا۔
اُنھوں نے چٹان کو اُوپر سے تراشنا شروع کیا اَور پھر وہ بتدریج زمین پر اُترتے چلے آئے لیکن اِس َطور کہ چٹان میں محرابیں‘ کلس‘ چھوٹے چھوٹے کمرے اَور گیلریاں بنتے چلے گئیں۔ دیواروں کو تراش کر ُبت بنائے گئے جو کئی زمانوں پر پھیلی ُ ہوئی سنگ تراشی کی مختلف تحریکوں کے ّعکاس تھے۔ آرٹ کے اِس عظیم ُ ا ّلشاں مظہر کے ساتھ کسی ایک سنگ تراش کا نام وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔
لوک گیتوں کی طرح سنگ تراشی کے یہ جملہ نمونے بھی اِجتماعی ثقافتی اَور تخلیقی عمل کی َپیداوار ہیں جو نسل در نسل ُوجود میں آتے چلے گئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اِن پر گندھارا‘ سانچی‘ امراوتی اَور ُگپتا آرٹ کے اَثرات بھی کم یا زیادہ ثبت ہوئے۔ تاہم ایلورا میں ہند ُو َمت کے دیوتاوٴں‘ بالخصوص ویشنو اَور ِ شیو کے مجسموں کو پیش کرنے کا رُجحان غالب نظر آیا جو اَمراوتی آرٹ کی نزاکت‘ ملائمت بلکہ نسوانیت سے ایک بڑی َحد تک مختلف ہے ۔
ایلورا میں سنگ تراشوں نے جسم کو بے پناہ قو ّت اَور رفعت کا نمونہ بنا کر پیش کیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس آرٹ میں ِشیو کو َنٹ راج کے رُوپ میں پیش کیا گیا ہے اَور ِشیو کا تخریبی پہلو بھی ظاہر ہوا ہے مگر ساتھ ہی ِشیو کے گیان دھیان کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے ایک کتاب بعنوان The Civilization of the East پڑھی تھی جس کے مصنف کا کہنا تھا کہ آرٹ کے اِن نمونوں میں اِجتماعی َمسر ّت کا اِظہار ُہوا ہے… ایلورا کے غاروں میں آرٹ کے نمونے دیکھتے ہوئے‘ یہ تاثر مجھے بالکل صحیح نظر آیا۔
ایلوراکے غاروں کا سلسلہ بہت دُور تک پھیلا ہوا ہے مگر ہمارے لیے اَہم تریں غاروں کو دیکھ لینا ہی کافی تھا… پھر بھی اِس کام میں کئی گھنٹے َ صرف ہو گئے۔ اَب ہم خود کو ُمو بہ ُمو ُچور اَور عضو عضو نڈھال محسوس کر رہے تھے۔ سو باہر آ کر ایک گھنے درخت کی چھاوٴں میں آرام کرنے لگے۔ اگلے روز ہم اَجنتا کے لیے روانہ ُہوئے تو ہمیں بتایا گیا کہ اَجنتا کے غار‘ اَورنگ آباد سے کافی فاصلے پر ہیں۔
میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ یہ غار‘ پہاڑوں کے ایک ُپر فضا سلسلے میں واقع ہیں؛ مگر کار میں سفر کرتے ہوئے ہمیں دُور دُور تک کوئی پہاڑ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر ایک جگہ معاً سڑک نشیب میں اُترنا شروع ہوئی اَور لگا تار نیچے اُترتے چلے گئی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو چاروں طرف درختوں اَور جھاڑیوں سے لدے‘ بڑے بڑے پہاڑ نمودار ہو گئے تھے۔ تب مجھے یاد آیا کہ میں نے اَجنتا کی دریافت کے حوالے سے جو کتاب پڑھی تھی‘ اُس میں ایک انگریز کا واقعہ درج تھا کہ کس طرح آج سے َسو ڈیڑھ َسو برس پہلے وہ اَجنتا کے غاروں والے پہاڑ کے متوازی ایک اَور پہاڑ پر شکار کر رہا تھا جب اُسے سامنے والے پہاڑ کے درختوں اَور جھاڑیوں میں آبادی کے آثار نظر آئے… ُوہ حیران ہوا کہ اِس و ِیرانے میں آبادی کے نشانات کہاں سے آ گئے! چنانچہ اَز راہ ِ ّ تجسس‘ وہ متوازی پہاڑ سے اُترا اَور اَجنتا کے پہاڑ پر چڑھ کر اُس َمقام تک پہنچا جس پر اُسے آبادی کا ُشبہ ُہوا تھا۔
جی ہاں‘ اُس کا شبہ بالکل درست تھا کیونکہ وہاں پہاڑ کے پہلو میں دُور دُور تک غار موجود تھے جن میں صدیوں پہلے کچھ لوگوں نے رہائش اِختیار کر لی تھی۔ ُوہ آگے بڑھا اَور اُس نے ایک غار کے ُمنہ ‘پر سے شاخوں‘ بیلوں اَور مکڑی کے جالوں کو اَپنی بند ُوق کی نوک سے َہٹا کر اُس کے اَندر قدم رکھا جہاں ُگھپ اَندھیرا تھا۔ اُس نے اَپنے تھیلے سے سفری لیمپ نکالا اَور اُس کی روشنی کو سارے غار میں ُگھما کر دیکھا تو وہ ّہکا ّبکا َرہ گیا کیونکہ ُوہ کسی جنگلی غار کے بجائے‘ ایک نگار خانے میں کھڑا تھا جس کی دیواروں پر مصو ّری اَو ر ّنقاشی کے حیرت انگیز نمونے اُس کی طرف ِبٹ ِبٹ دیکھ رہے تھے۔
تصویریں‘ اِس قدر روشن اَور اَن ُچھوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا جیسے ابھی ابھی کسی مصو ّر نے اِس کام کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا ہے … یہ سارا واقعہ‘ سفر کے دوران میں میرے دماغ کی سکرین پر اُبھر آیا تھا مگر اَب ہم پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹے سے بازار میں پہنچ گئے تھے ۔ کار رُکی تو بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ بعد اَزاں معلوم ہوا کہ جوگندر پال جی نے وہاں کے کسی واقف کار کو پیشگی اِطلاع دے دی تھی۔
جو لوگ ہمیں آ کر ملے‘ اُن میں سے ایک صاحب نے (جن کا نام اَب یاد نہیں)‘ آگے بڑھ کر ہم سب سے مصافحہ کیا۔ جب جوگندر پال نے اُسے ہمارے نام بتائے تو ُوہ لپک کر مجھ سے بغل گیر ہو گیا۔ کہنے لگا: وہ ”اوراق“ کا ُپرانا قاری ہے‘ نیز اُس کے پاس ”اوراق“ کے بہت سے شمارے موجودہیں۔ ”اوراق“ کو جاری ہوئے پچیس ۲۵ برس ہو چکے تھے اَور اِس کا نام دُور دُور تک پہنچ ُچکا تھا مگر مجھے اِس بات کا سان گمان بھی نہیں تھا کہ آبادی سے اِتنی دُور ‘ایک اَیسا شخص بھی موجود ہے جو ”اوراق“ کا ُپرانا قاری ہے۔
انور سدید‘ ایک اجنبی کے ُمنہ ‘سے ”اوراق“ کا نام ُسن کر اِتنے خوش ہوئے کہ واپس لاہور آ کر‘ اُنھوں نے لا تعداد ملنے والوں کو یہ واقعہ بار بار ُسنایا۔ اَجنتا کے تصویری خزائن میں میری د ِلچسپی بہت ُپرانی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد جب َمیں نے اُردو شا ِعری کے ثقافتی اَور تہذیبی تناظر کے مطالعے کا آغاز کیا تھا‘ میں نے اَجنتا کے غاروں کی تصاویر بھی مختلف کتابوں میں دیکھی تھیں۔
ُیوں میں اِس قابل ہو گیا تھا کہ بر ّ ِ صغیر میں مختلف مکاتب ِ فن کے زیر ِ اَثر ُوجود میں آنے والے آرٹ کے قدیم نمونوں کے فرق کو جان سکوں۔ چنانچہ ”اردو شا ِعری کا مزاج“ میں‘ َ میں نے لکھا تھا: گپتا آرٹ کے بہترین نمونے اَجنتا کے غاروں میں ملتے ہیں۔ لیکن یہاں آرٹ زیادہ تر تصویروں میں ڈھل کر نمودار ُہوا ہے۔ مصو ّری کے یہ نمونے دُوسری َصدی سے ساتویں َصدی عیسوی کے درمیانی عرصے کی َپیداوار ہیں۔
لہٰذا اِن پر سانچی‘ گندھارا اَور اَمراوتی مکاتب ِ فن کے اَثرات ُمرتسم ہوئے ہیں۔ تاہم اِن میں بیشتر نمونے ُگپتا آرٹ ہی کے مظہر ہیں۔ غار نمبر ۹ کی تصاویر اَمراوتی آرٹ سے متعلق ہیں اَور غار نمبر ۱۰ کی تصاویر پر گندھارا اَور ُگپتا آرٹ کے واضح اَثرات موجود ہیں۔ لیکن اِن غاروں میں ا تا ۵ اَور ۲۱ تا ۲۶‘ جن کا زمانہ ۶۰۰ اَور ۶۵۰ عیسوی کے لگ بھگ ہے‘ اَجنتا کی بہترین تصاویر کا گہوارہ ہیں۔
اِن میں خوب صورت ُبدھ کی ُوہ تصویر بھی ہے جس میں نیلا کنول د ِکھایا گیا ہے اَور ُوہ د ِ لکش تصویر بھی جس میں دو ۲ پریمی‘ ّمحبت کے اَبدی کیف میں کھوئے بیٹھے ہیں۔ یہ تصاویر ُگپتا آرٹ کی لطافت اَور ملائمت کی مظہر ہیں اَور اِن میں اُس ہندوستانی فضا کا عکس پیش ہوا ہے جس کا طر ّہٴ اِمتیاز فطرت کی رنگا رنگی اَور ُبو قلمونی ہے۔ جنگل کے درختوں اَور ز ِندہ توانا جانوروں کے درمیان حسین اِنسانی وجود اِس طور د ِکھائے گئے ہیں جیسے ُوہ کسی نیم تاریک‘ ِسحر انگیز فضا میں مصروف ِ خرام ہوں۔
یہ حقیقت ہے کہ اِن تصاویر میں ایک انوکھا رُوحانی پر َتو بھی ہے: ُیوں کہ جسم اَور جذبے کی بو جھل فضا ،کسی غیر َ مرئی نغمے کے زیر ِ اَثر ُسبک‘ لطیف اَور ُ ملائم کیفیات میں ڈھل گئی ہے۔ گویا اِس آرٹ میں جسم اَور اُس کے مظا ِہر تو اَپنی ساری ُسندرتا اَور ُبو قلمونی کے ساتھ موجود ہیں اَور اِن کی صورت گری میں فن کاروں نے ُموئے قلم کا سارا زور بھی َصرف کر دیا ہے ؛لیکن ساتھ ہی با ِطن کی ایک تازہ اَور انوکھی شعاع نے اِن اَجسام کو رُوح بھی َعطا کر دی ہے… فن کی معراج بھی یہی ہے کہ ُوہ جسم سے گہرا تعلق تو قائم رکھے لیکن ساتھ ہی جسم کی وساطت سے رُوح کی لطیف تریں لرز ِش کو بھی خود میں سمو لے۔
اَجنتا کی تصاویر میں فن کی یہی ُصورت اُبھری ہے۔ بازار سے نکل کر ہم کوہ پیماوٴں کی طرح اَجنتا پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوئے۔ جلد ہی ہم غاروں کے قریب آ گئے۔ پھر یکے بعد دیگرے غاروں میں داخل ہونے لگے۔ میں فطرتاً احساس کی مدھم آنچ کا گرویدہ ہوں اَور ز ِندگی بھر ‘ َمیں نے جذباتی خروش کا کم ہی مظاہرہ کیا ہے۔ مگر اِن غاروں میں داخل ہوتے ہی جب میں نے اَجنتا کی تصاویر کو دیکھنا شروع کیا تو ایک اَنوکھی excitement کی زد پر آ گیا… میں بہ آواز ِ بلند اَپنے ساتھیوں کو مختلف تصاویر کی ّفنی باریکیاں د ِکھانے لگا۔
ساتھ ہی ساتھ مختلف مکاتب ِ فن کے حوالے سے تصاویر کو نشان زد بھی کرنے لگا: یہ ُگپتا آرٹ ہے‘ یہ گندھارا ہے‘ یہ اَمراوتی ہے‘ یہ سانچی ہے‘ یہ تصویر ِملے ُجلے اَثرات کی حا ِمل ہے۔ ہمارے ساتھ ایک منجھا ہوا گائیڈ بھی تھا جو نان سٹاپ تقریر الگ سے کر رہا تھا لیکن جب میں نے فرط ِ َمسر ّت سے آرٹ کے مختلف مکاتب ِ فن کا ذ ِکر کیا تو و ُہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔
بعد اَزاں اَجنتا کی تصاویر کے بارے میں میری جانکاری اَور پرکھ کی خبر باہر بھی پہنچ گئی اَور اَخبارات میں بھی اِس کا ذ ِکر ُہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اَجنتا کی تصاویر کے بارے میں میری معلومات سطحی تھیں اَور محض چند کتابوں کے مطالعے سے حاصل ُہوئی تھیں۔ پھر بھی لوگ حیران تھے کہ پاکستان سے آنے والا ایک اَدیب نہ صرف اَجنتا کی تصاویر کی تعریف کر رہا تھا بلکہ اُس کی تعریف عام سیاحوں کی داد سے قطعاً مختلف تھی کہ اُس میں ”پہچان“ کا عنصر بھی شامل تھا۔
َبہر حال اِس کارکردگی کا مجھے یہ ِصلہ ِملا کہ جب ہم جانے لگے تو اَجنتا کے ریسپشن آفس والوں نے میرے سامنے و ِزیٹرز ُبک رکھ کر مجھے اَپنے تاثرات لکھنے کی دعوت دی۔ میں نے انگریزی میں اَپنے تاثرات لکھے۔ اَب بالکل یاد نہیں کہ میں نے کیا لکھا تھا۔ اَجنتا کے غاروں میں جگہ جگہ ّپتھر کے بنے ہوئے بستر ُنما بنچ بھی تھے جن پر اَجنتا کے نقاش اَور مصو ّ ِر نسل در نسل آرام کرتے رہے ہوں گے۔
میں نے اُن تخلیق کاروں کے ُمحسوسات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے یہ کیا کہ ّپتھر کے ایک بنچ پر لیٹ کر اَپنی آنکھیں میچ لیں۔ معاً وقت نے ایک اُلٹی زقند بھری اَور میں اُس زمانے میں جا پہنچا جب یہ لوگ دُنیا جہاں سے بے خبر… رنگوں‘ لکیروں اَور قوسوں میں خود کو منقلب کر رہے تھے۔ مگر یہ محض ایک لمحہ تھا۔ میں اُٹھ بیٹھا اَور اَپنے ساتھیوں کے ساتھ َہولے َہولے چلتا‘ ریسپشن آفس والوں سے اَلوداعی ملاقات کرتا‘ اَجنتا کے پہاڑ سے نیچے اُترنے لگا۔
ہم سب خاموش تھے۔ گویا کسی طاقت َور جادُو کے ِحصار میں آ گئے تھے۔ مگر جب ہم پہاڑ سے نیچے آ گئے تو ہماری طویل ُچپ کو ایک نعرہٴ مستانہ نے توڑ دیا: نئیں ر ِیساں شہر لہور د ِیاں یہ نعرہ‘ جوگندر پال جی نے اَپنے مخصوص اَنداز میں بلند کیا تھاجس کا مطلب یہ تھا کہ اَجنتا کا جادُو اَپنی جگہ مگر جو بات شہر لاہور کے طلسم میں ہے‘ اُس کا مقابلہ ُوہ َبہر حال نہیں کر سکتا۔
اگلے روز ہم مالیگاوٴں کے لیے روانہ ہوئے جو اَورنگ آباد سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں۔ مالیگاوٴں میں زیادہ تر مسلمان بستے ہیں جو کافی عرصہ پہلے لکھنوٴ کے علاقے سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہو گئے تھے…دھاگے کو کپڑے میں منقلب کرنا‘ اِن کا پیشہ ہے۔ صبح جاگے تو لاوٴڈ سپیکروں سے نشر ہونے والی اَذان کی آواز نے پاکستان کی یاد تازہ کر دی۔ لوگ بڑے مہمان نواز تھے۔
بالخصوص اَدیب برادری تو اَورنگ آباد والوں کی طرح ہمارے لیے د ِیدہ و د ِل فر ِش راہ کیے ہوئے تھی اَور ہم اُن کی ّمحبت اَور خلوص کی خوشبومیں بھیگ رہے تھے۔ مالیگاوٴں میں بہت سے اَدبی جلسے منعقد ُہوئے جن میں ظفر پیامی نے بھرپور تقریریں کیں اَور خوب داد سمیٹی۔ شعری محفلوں میں ہمارا کلام بڑی محبت سے ُسنا گیا۔ دو ایک روز وہاں قیام کرنے کے بعد ہم نے دوبارہ ریل پکڑی اَور ایک طویل سفر کے بعد دہلی پہنچ گئے۔
دہلی میں ہم نے تین چار روز قیام کیا ۔ اِس دوران میں کئی اَدبی محفلوں کا اِنعقاد ہوا جن میں دو ۲ زیادہ اَہم تھیں۔ اِن محفلوں میں دہلی کے متعد ّد اُ َدبا سے ملاقات ُہوئی۔ پہلی محفل کے صدرظفر پیامی اَور مہمانِ خصوصی انور سدید تھے۔ ظفر پیامی نے اپنی تقریر میں اَجنتا اَور ایلورا کے سفر کا حال بیان کیا اَور اَپنے پاکستانی ہمسفر دوستوں کی خوب تعریف کی۔
بالخصوص اُنھوں نے واپسی کے سفر میں اُس مکالمے کا ذ ِکر کیا جو ریل گاڑی میں میرے اَور اُن کے درمیان ہوا تھا اَور جس کا موضوع کائنات کے عقدے کو حل کرنے کے ُوہ سائنسی اَور فکری اِنکشافات تھے جو بیسویں َصدی میں ایک نقطے پر منتج ہوتے د ِکھائی دے رہے تھے۔ میں نے اِس سلسلے میں خاصا مطالعہ کر رکھا تھا اَور اَپنے طور پر بھی سوچ بچار کر رکھی تھی۔
دراصل‘ میں ریل کے سفر کی اِس طویل ملاقات میں اَپنے اَندر ُ ُنمو پانے والی ایک ایسی فکری َرو کو ہم کلامی کے اَنداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو بعد اَزاں ”دستک اُس دروازے پر“ کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ ۱۹۹۳ء کی بات ہے۔ اُس وقت تک ظفر پیامی اِس دُنیا سے جا چکے تھے۔ مگر ذ ِکر ظفر پیامی کی تقریر کا تھا۔ اُن کے بعد بلراج کومل اَور دیگر اَحباب نے تقاریر کیں۔
آ ِخر میں انور سدید نے اَپنا خوب صورت مقالہ پیش کیا۔ درمیان میں مجھ سے تخلیقی عمل کے موضوع پر تقریر کرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ میرا محبوب موضوع ہے اَور اِس پر َمیں ایک ُپوری کتاب اِسی عنوان سے لکھ ُچکا ہوں۔ سو میں نے اپنی تقریر میں نہ صرف اپنی کتاب کے مرکزی نکات پیش کیے بلکہ اِس کے بعد کے بیس۲۰ سالوں میں اِس موضوع پر میں نے جو سوچ بچار کی تھی‘ اُس کا خلاصہ بھی پیش کر دیا۔
اِس محفل میں دہلی کے بہت سے اَہم اُ َدبا نے شرکت کی۔ دو سو ۲۰۰ سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے تھے۔ دُوسری تقریب کے صدر بھی ظفر پیامی تھے… جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ اِس محفل میں قرة العین حیدر نے اُردو تنقید کی کارکردگی کے حوالے سے ایک سوال اُٹھایا تھا جس پر بحث مقصود تھی۔ بحث میں انور سدید‘ شمیم حنفی اَور دُوسرے اُ َدبا نے بھرپور ِ ّحصہ لیا۔
آ خر میں ظفر پیامی نے بحث کو سمیٹا۔ جب مجھے کچھ کہنے کے لیے کہا گیا تو میں نے ساختیات کے حوالے سے قاری کی اَہمیت کو اُجاگر کیا اَور کہا: قاری ( ّنقاد)‘ متن کو کھول کر اُسے اَز َسر ِ َنو تخلیق کرتا ہے؛ وہ مڈل َمین نہیں جو مال کی تعریف کرکے خریدار کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ متن میں چھوڑے گئے ِشگافوں یا gaps کو ُپر کرکے اُسے مکمل کرتا ہے‘ لہٰذا یہ عمل تخلیقی کارکردگی کے ُزمرے میں آتا ہے۔

Chapters / Baab of Teen Safar By Wazir Agha