Episode 3 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 3 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ تم جتنا اچھا جہاز اڑاتے ہو۔ اتنے ہی برے کھلاڑی ہو۔“ وہ ہمیشہ فون بند کرنے سے پہلے ایسی ضرب لگا دیتی تھی کہ عبد کئی گھنٹے تک سلگتا رہتا تھا۔ اس وقت بھی وہ غصے کے عالم میں بیڈ پر رکھی ہاکی کو ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ہاکی کے پچھلے چپٹے سرے کو پکڑ کر اس نے پوری قوت سے ہوا میں اچھالا تھا اور یہ اس کی بدقسمتی تھی یا پھر فلائنگ آفیسر ثوب کی‘بے چارے نے اسی پل دروازہ کھول کر کمرے کے اندر پاؤں رکھا تھا‘جب لہراتی ہوئی ہاکی اس کے عین کندھے پر لگی۔
یہ تو اللہ کا شکر تھا کہ سر یا ماتھا محفوظ رہا تھا ورنہ تو جس قوت کے ساتھ اس نے ہاکی کو پھینکا تھا‘ثوب کا سر تو ضرور ہی پھٹ جاتا۔
”سر! میں ادھار مانگنے تو نہیں آیا‘پھر ایسا استقبال؟“ اس نے اپنے کندھے کو پکڑ کر دہائی دی۔

(جاری ہے)

عبد کو بے تحاشا خفت نے آن گھیرا۔

”سوری یار! مجھے بس پتا نہیں چل سکا۔“
”اگر ہڈی وڈی ٹوٹ گئی تو پھر؟“ ثوب بھی خاصا نازک مزاج تھا۔
نجانے ایئر فورس اس نے کیسے جوائن کر لی تھی۔
”مجھے تو لگتا ہے۔ ضرور اندرونی طرف سے جلد پھٹ گئی ہو گی۔ اگر جلد کے اندر انفیکشن پھیل گیا تو۔“ سدا کا وہمی ثوب اسے بھی دہلا رہا تھا۔
وہ دراز میں سے آیوڈیکس نکال لایا اور اس کے کاندھے پر لگا دیا۔
پھر ہاتھ دھونے کیلئے واش روم میں چلا گیا۔ واپس آیا تو ثوب کو جوس پیتے اور فروٹ کی ٹوکری سامنے رکھے دیکھ کر چیخ اٹھا۔
”تم میں ذرا بھی مینرز نہیں ہیں۔ بغیر اجازت چیزوں میں گھستے ہو۔“
”اجازت کا کیا ہے۔ وہ تو میں ابھی بھی لے سکتا ہوں۔“ ثوب نے فوراً چہرے پر معصومیت طاری کر لی۔
”ویسے آج اتنے پر تشدد کیوں لگ رہے ہیں۔ خیر تو ہے؟“ اس کی تمام تر توجہ فروٹ باسکٹ کی طرف تھی۔
”تم سے مطلب؟“ وہ ناگواری سے بولا۔
”ہم سے مطلب رکھ کر بھلا آپ کو کیا ملے گا۔
“ ثوب نے معنی خیزی سے آنکھیں گھمائیں۔ ”ویسے آج کل بڑی کالز آ رہی ہیں آپ کے نمبر پر۔“
”تمہیں کیسے پتا؟“ وہ کچھ چونک کر بولا۔
”خبر تو رکھنی پڑتی ہے۔ ویسے آج میں سارا دن آپ کے کمرے میں سوتا رہا ہوں اور پورا دن آپ کا سیل بجتا رہا ہے۔“ ثوب نے اطمینان سے بتایا۔
”کوئی رانگ کالر ہو گا۔“ اس نے خود کو لاپروا ظاہر کرنا چاہا۔
اب وہ لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ چکا تھا تاکہ ثوب کی معنی خیز نظروں سے بچ سکے۔
”رانگ کالر بھی خاصا مستقل مزاج لگتا ہے۔“
”تم یہ دو کیلے اور لو اور بھاگو یہاں سے۔“ عبد بھنا کر بولا۔ ثوب اطمینان سے چھلکے اکٹھے کرکے ڈسٹ بن میں ڈال آیا تھا۔
”ایکچوئیلی! مجھے بھی یہاں بیٹھنے کا کوئی شوق نہیں۔ میں تو بس اظہار افسوس کرنے آیا تھا۔
“ جاتے جاتے اسے بھی تو کمینگی دکھائی تھی۔
”کیا مطلب؟“ عبد کا ماتھ ٹھنکا۔ لگتا ہے پورے بیس میں خبر نشر ہو گئی ہے۔
”یہ بات چھپا کر رکھنے والی بھی نہیں ہے۔“
”دفع ہو یہاں سے۔“ عبد کا پارہ چڑھ گیا تھا۔
وہ ہاکی اٹھا کر ثوب کے پیچھے لپکا تھا مگر وہ اسے ڈاج دے کر بھاگ گیا۔
ثوب کے جانے کے بعد وہ صوفے پر ڈھے گیا تھا۔
آج کی شکست نے سچ مچ اسے بے حد بددل کر دیا تھا۔ ہاکی کھیلنا اس کا شوق ہی نہیں‘جنون بھی تھا۔ ان کے ادارے کی دو ٹیمیں تھیں۔ جن کے آپس میں میچز ہوتے رہتے تھے۔ جازم اس کا کولیگ بھی تھا اور مخالف ٹیم کا کپتان بھی۔ رسال پور اکیڈمی میں بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تھے۔ ایف ایس سی کے زمانے سے ہی دونوں کے درمیان مقابلہ رہتا تھا۔ آج اسے جازم کی ٹیم نے شکست سے دوچار کیا تھا۔ اوپر سے رمشا کے ریمارکس نے اس کا دماغ بری طرح سے کھولا کر رکھ دیا تھا۔ اگلے چار پانچ دن اسے اسی کھولن کا شکار رہنا تھا۔ اس بات سے وہ اچھی طرح آگاہ تھا۔ فی الحال وہ جازم کی جیت کو بھلائے رمشا کے متعلق سوچنے لگا تھا۔
”آخر یہ ہے کون؟“ اس کے اردگرد بڑا سا سوالیہ نشان چکرا رہا تھا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi