Episode 10 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 10 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

رمشا نے بہت دنوں سے کال نہیں کی تھی اور وہ جو اس کا سراغ لگانے کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ایک دم پرسکون ہو گیا۔
ویسے بھی ان دنوں فضائی مشقیں وقفے وقفے سے جاری تھیں۔ دن بے حد مصروفیت میں گزر جاتا تھا۔
عناس لالہ نے صبح ہی اسے خوشخبری سنائی تھی کہ خالہ نے مونا کیلئے علی کا رشتہ قبول کر لیا ہے۔ علی اور مونا کی پسندیدگی کی بھنک خالہ کے کانوں میں پڑ چکی تھی‘مگر مسئلہ یہ تھا کہ خالہ دوسری بیٹی کو بیرون ملک نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔
پہلے مونسہ چلی گئی تھی اور اب مونا کی باری تھی۔ خالہ شاید اسی محبت میں علی کے رشتے کو انکار بھی کر دیتیں مگر مونا کی آنکھوں میں اترے رنگوں نے انہیں یہ رشتہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔
ہفتہ کو وہ گھر آیا تو ہمیشہ کی طرح شاندار استقبال کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

مونا کی شادی اس بار علی کی آمد کے بعد ہونا قرار پائی تھی۔ ان دنوں عبد کو علی کے خط کا انتظار تھا۔

وہ جانتا تھا‘علی جب تک اپنی محبت کی داستان بیان نہ کر لے‘اسے چین نہیں آنا تھا۔
مونا اس کیلئے شربت بنا کر لائی تو عبد نے ٹھنڈی آہیں بھرنا شروع کر دیں۔
”خالہ! آنگن کی ساری چڑیاں اڑ رہی ہیں… کون اتنے پیار سے شربت بنا بنا کر پلائے گا۔“
”غم کیوں کھاتے ہیں بھائی! ہم آپ کی خدمت کرنے کیلئے ”مستقل خادمائیں“ لے آئیں گے۔
“ مینا نے اپنی عقل کے مطابق چہک کر جواب دیا۔
”کیا مطلب؟ خادمائیں؟ یعنی لالہ اور عبی کی دو دو بیویاں؟“ مونا چیخی۔
”جی نہیں‘اب اتنی ”خادمائیں“ بھی دستیاب نہیں ہیں۔“ مینا نے س نفی میں ہلایا۔ صرف ایک ایک ملے گی۔“
”یعنی ایک اور ایک دو…“ عبی نے فوراً بات اچک لی۔ ”ایک ماما کی پسند کی اور ایک ایک ہم دونوں بھائیوں کی پسند کی… پتا ہے کیا کریں گے؟“ وہ پورا جگ خالی کرکے میدان میں اتر آیا۔
”بھلا کیا؟“ مونا اور مینا نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہم دونوں اپنی ایک بیوی‘ماما اور خالہ کے پاس ان کی خدمت کیلئے چھوڑ دیں گے‘کیونکہ تم لوگوں کو تو چلے ہی جانا ہے‘پھر ہماری اماؤں کا کون خیال رکھے گا۔ میں نے سوچا ہے کہ…“
”تم اپنی ایک بیوی کو ادھر چھوڑ جاؤ گے اماؤں کی خدمت کیلئے اور دوسری کو اپنی خدمت کیلئے ساتھ لے جاؤ گے۔
بہت چالاک ہو تم عبی! یعنی ایک تیر سے اتنے شکار خالہ خوش‘ماما خوش‘خاتون اوّل بھی خوش… مگر خاتون دوم جو نا خوش ہوگی۔ اس کا کیا کرو گے؟“ مونا نے اس کے کندھے پر دھپ لگائی تھی۔
”بہت زبان چل رہی ہے تمہاری۔“ عبی اپنے رنگ میں واپس آ رہا تھا۔“ یہ جو میری اونچی ناک کے نیچے لو اسٹوری چلتی رہی ہے نا… اس لو اسٹوری چلانے والے کا انجام میرے ہاتھوں اچھا نہیں ہوگا۔
اتنے طویل ترین ”محبت نامے“ لکھتا رہا ہے مگر مجال جو اس موٹے نے اس راز کو اگلا ہو۔“
”علی اتنا بھی موٹا نہیں ہے۔ بس تھوڑا صحت مند ہے۔“ مونا نے مری مری آواز میں کہا۔
”تھوڑا صحت مند کہاں…“ عبد چیخا… ”پورا ڈرم ہے۔“
”تو تمہیں کیا تکلیف ہے۔“ مونا روہانسی ہو گئی۔ ”میں امی اور خالہ کو بتاتی ہوں۔“
”کیا بتاؤ گی؟“ عبد مزے سے بولا۔
”علی سے کہیں ڈائٹنگ کر لے۔“ وہ مسلسل اسے چھیڑ رہا تھا۔
”اللہ کرے… تمہاری بیوی اتنی موٹی ہو‘جتنا ڈھول ہوتا ہے۔ اتنی چالاک ہو کہ تمہیں تگنی کا ناچ نچا دے۔“ مونا زچ ہو کر بددعاؤں پر اتر آئی۔
”اے لڑکی! میرے سونے جیسے بیٹے کو بددعائیں تو نہ دو… اگر ایسی صفات کی کوئی لڑکی آ گئی نا‘تو سب سے پہلے ہم دو بڈھیوں کو کان سے پکڑ کر چلتا کرے گی‘پھر ہم کہاں جائیں گے۔
“ خالہ کفگیر سمیت کچن میں سے برآمد ہوئی تھیں۔
”یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔“ مونا بھی دہل گئی۔
”موٹی عقل جو ہے‘علی کے جیسی۔“ اس نے پھر چھیڑا۔
”عبی کے بچے!“ مونا ناراضی سے چیخی تھی اور پھر دھپ دھپ کرتی کچن میں چلی گئی۔
کچھ دیر بعد ازالے کے طور پر وہ ان دونوں کو شاپنگ کروانے لے کر جا رہا تھا۔ مارٹ میں گھومتے ہوئے اس کا سیل مینا نے لے لیا تھا۔
وہ اپنی کسی فرینڈ سے مسیجز پر بات کرنے لگی جبکہ عبد اور مونا گھوم پھر کر شاپنگ کر رہے تھے۔ عبد کی چوائس بہت اعلیٰ تھی۔ مینا اور مونا کے علاوہ اس نے حوریہ کیلئے بھی ایک بہت نفیس سوٹ لیا تھا۔
مینا کی شاپنگ مکمل ہو گئی تو ہاتھ میں کون پکڑے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
اس نے کون ختم کر لی تو سیل فون پر مخصوص بیل بجنے لگی۔ انجان نمبر تھا‘سو اس نے کال اٹینڈ نہیں کی‘مگر فون اس تسلسل سے بجنے لگا تھا کہ مینا نے سوچا شاید کوئی ضروری کال ہو۔
جوں ہی اس نے یس کا بٹن دبایا۔ دوسری طرف سے بے حد رسیلی‘آواز سنائی دی۔
”عبی! اتنے دن لگا دیئے کیا واپس نہیں آنا؟“
”جی آپ کون؟“ عبد کے سیل پر صنف نازک کی کال اور پھر بے تکلفانہ انداز مینا کے کان فوراً کھڑے ہوئے تھے۔
”تم کون ہو؟“ دوسری طرف کی آواز قدرے محتاط ہو گئی تھی۔
”میں مینا ہوں… عبد بھائی کی بہن… آپ کون ہیں؟“ مینا نے جلدی سے تعارف کی رسم نبھائی۔
”مجھے رمشا کہتے ہیں۔ عبد کہاں ہے؟“
”وہ تو شاپنگ کر رہے ہیں… میں گاڑی میں بیٹھی ہوں۔ کوئی مسیج ہے تو دے دیں۔“ مینا نے گھبرا کر کہا تھا۔ ایک تو یہ خوف بھی تھا کہ عبد کال اٹینڈ کرنے پر ناراض نہ ہو۔
”مسیج…!“ وہ کچھ دیر سوچ میں پڑ گئی۔
”ایکچوئیلی! بات یہ ہے کہ تم اپنے عناس لالہ سے میری بات کروا دو۔“
”ابھی تو ممکن نہیں… ان سے رات دس بجے کے بعد بات ہو سکتی ہے۔
“ مینا نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔ ”آپ عبد بھائی کی فرینڈ ہیں؟“ مینا زیادہ دیر اپنے تجسس پر قابو نہیں پا سکی تھی۔
”تمہارے عبد بھائی مجھ سے پیار کرتے ہیں… یہ بات تم سے کہنے والی نہیں‘مگر اس لئے بتایا ہے تاکہ تم اپنی امی اور خالہ کو بتا دو۔“ وہ بہت تول تول کر بول رہی تھی۔
”اچھا‘تو کیا آپ ہماری ہونے والی بھابھی ہیں…!“
مینا کی چہکتی آواز کو بریک تب لگے تھے‘جب عبد فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر مینا کے کان سے لگا سیل جھپٹ لیا۔
”بھائی…!“ مینا کچھ سہم سی گئی تھی۔ عبد کے تاثرات ہی ایسے تھے فون کان سے لگائے وہ پھنکارا۔
”آئندہ اس نمبر پر کال کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔“ وہ جتنی نرمی اس کے ساتھ برت سکتا تھا برت چکا تھا‘مگر یہ ڈھیٹ تو اسے گھر والوں کے سامنے بھی ذلیل کرنے پر تل گئی تھی۔ عبد مارے اشتعال کے کچھ دیر بول ہی نہ پایا۔ کافی دیر بعد وہ مینا سے مخاطب ہوا۔
”اس لڑکی نے جو بکواس کی ہے۔ اس پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں۔“
”جی بھائی…!“ مینا نے زور سے سر ہلا دیا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi