Episode 11 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 11 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

رمشا اکرام اس کیلئے سچ مچ درد سر بن چکی تھی۔
ان دنوں پھر سے فلائنگ کی مصروفیت نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ پورے ڈیڑھ ماہ تک وہ گھر جا ہی نہیں سکا تھا اور نہ ہی گھر والوں سے تفصیلاً بات ہو سکی تھی۔ رمشا کا بھی کوئی فون نہیں آیا تھا۔
پھر لالہ کی شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے اور اس کے دماغ سے رمشا بالکل ہی نکل گئی۔ حوریہ بھابھی کی آمد اور مونا کی رخصتی‘دو شادیوں کی تقریبات تھیں‘سو عبد کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں تھی۔
ایک طرف عزیز ازجان دوست تھا اور دوسری طرف بھائی۔ لالہ کی شادی بے حد یادگار رہی تھی۔ مونا اور علی ولیمہ کے کچھ دن بعد سعودیہ چلے گئے تھے اور حوریہ بھابھی مستقل ان کے گھر میں رونق بن کر اتر آئی تھیں۔
شادی کے تین ماہ بعد عناس لالہ اس سے ملنے کیلئے چلے آئے۔

(جاری ہے)

عبد خوش بھی ہوا اور حیران بھی۔

”بھابھی نے کیسے آنے دیا؟“ وہ انہیں چھیڑ رہا تھا مگر لالہ کافی سنجیدہ تھے۔
چنانچہ عبد کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔
”مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنا ہے عبی!“ وہ بے حد الجھے الجھے دکھائی دے رہے تھے۔
”جی لالہ!“
”تم رمشا اکرام کو جانتے ہو؟“
”وہ آپ تک بھی پہنچ گئی ہے؟“ عبد کا لہجہ چبھتا ہوا تھا۔
”وہ نہیں پہنچی۔ اس کا باپ آیا تھا‘میرے پاس۔“ عناس لالہ کا انداز کچھ سوچتا ہوا اور کھویا کھویا سا تھا۔
”کیا مطلب؟“ عبد چونک گیا۔
”جانتے ہو‘اس کا باپ کون ہے؟“ لالہ نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔“ وہ اس سے ناواقف تھا۔
”اس کا باپ اس شہر کا نامور بزنس مین ہے۔ فیکٹریاں چلتی ہیں اس کی۔ رمشا اس کے تین بیٹوں کے بعد پیدا ہونے والی بیٹی ہے اور جیسی محبت ہم تم سے کرتے ہیں‘ٹھیک ویسی ہی محبت وہ اپنی بیٹی سے کرتا ہے اور جانتے ہو‘باپ کب اور کیوں بے بس ہوتا ہے؟“
ان کی آواز اور لہجہ دونوں ہی دھیمے تھے۔
”ظاہر ہے… میں کیسے جان سکتا ہوں۔“ عبد چڑ کر بولا۔ وہ ان کی تمہید کا متن کچھ کچھ جان رہا تھا۔
”عبی! تم اور رمشا اگر ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو پھر تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟ ہم ایک طریقے کے ساتھ تمہارا رشتہ لے کر جاتے۔“ وہ سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔
”کیا مطلب؟ میں رمشا کو نہیں جانتا۔ وہ میرے لئے صرف ایک رانگ کالر ہے… اور ایک سال سے…“
وہ لالہ سے یہ سب کہنا چاہتا تھا‘مگر نجانے کیوں نہیں کہہ پایا۔
شاید ایک لڑکی کیلئے ایسے کلمات ادا کرنا اس جیسے مہذب بندے کے اختیار میں نہیں تھا۔
”عبی! میں نے اور ماما نے باہمی صلاح مشورے کے بعد واجد اکرام کو فی الحال ٹالا ہے۔“ انہوں نے گویا اس کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔
”مگر لالہ!“ وہ سخت مضطرب ہو گیا۔
”کوئی اگر مگر نہیں… ایک باپ کی بے بسی کو صرف وہ ہی محسوس کر سکتا ہے‘جو ایک ہمدردانہ دل رکھتا ہے۔
وہ اپنی بیٹی کی وجہ سے مجبور تھے۔ تب ہی ہمارے گھر ہاتھ باندھے چلے آئے۔ انہیں یقینا رمشا نے مجبور کیا ہوگا اور تم بھی تو یہی چاہتے ہو۔ واجد صاحب بتا رہے تھے کہ ایک ڈیڑھ سال سے تمہارا اور رمشا کا رابطہ ہے۔ بہرحال اچھی طرح سے سوچ لو‘میں اور ماما تمہارا رشتہ طے کرنا چاہتے ہیں اور واجد صاحب کہہ گئے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے علاوہ کسی اور سے نہیں کر سکتے‘اگر ایسا کرنے کی انہوں نے کوشش بھی کی تو رمشا خود کو ختم کر لے گی۔
انہیں اپنی بیٹی کی زندگی عزیز ہے اور ہمیں تمہاری خوشی۔“
لالہ تو اپنا نقطہ نظر واضح کر کے چلے گئے تھے تاہم وہ سوچوں کے بھنور میں ڈوبتا ابھرتا جارہا تھا۔ اس کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک رانگ کالر اس کی محبت میں مبتلا ہو کر اتنا بڑا قدم اٹھا لے گی۔ نجانے کیوں پہلی مرتبہ اس کے دل میں رمشا کیلئے خود بخود نرم جذبات ابھر آئے تھے۔
اور وہ اس وقت حیران رہ گیا تھا جب رمشا کی فون کالز کا اسے انتظار رہنے لگا۔ لاشعوری طور پر دھیرے دھیرے وہ اس کے دل و دماغ پر قابض ہونے لگی تھی۔ ابھی تک اس نے رمشا کو دیکھا نہیں تھا۔ مگر وہ اسے سوچنے لگا تھا۔ وہ اس کے خوابوں اور خیالوں میں بسنے لگی تھی۔ دھیرے دھیرے ہی سہی عبد کو اس کی مدھر آواز سننے کی عادت سی ہو گئی تھی۔
اور ایک دن ماما اور حوریہ بھابھی‘رمشا کو انگوٹھی پہنا کر سادگی سے رسم بھی کر آئیں۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi