Episode 17 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 17 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

عبد اور رمشا کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ایک معمولی سی بات پر ہونے والی یہ لڑائی سنجیدگی اختیار کئے جا رہی تھی۔ عبد کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ رمشا اتنی معمولی سی بات پر جھگڑا کرنے کے بعد قطع تعلق بھی کر لے گی۔
وہ نہ تو اس کا فون سن رہی تھی اور نہ ملنے پر رضا مند ہو رہی تھی۔وہ فون کر کرکے تقریباً تھک چکا تھا اور اکرام ہاؤس کے چکر لگا لگا کر عاجز آ گیا تھا۔
مگر وہ تھی کہ کچھ سننے پر تیار ہی نہیں تھی۔اس کی ناراضی نے عبد کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ پورے چار دن ہو گئے تھے رمشا کا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔عبد کو لگتا تھا گویا اس کی زندگی کا مقصد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ عجیب سی بے قراری نے اس کے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اسی وجہ سے اس کی آفیشل کارکردگی بھی متاثر ہو رہی تھی۔

(جاری ہے)

وہ پورا پورا دن دیوانوں کی طرح اسے فون کرتا رہتا تھا‘مگر رمشا نے کبھی فون سننے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔
کبھی کبھی تو عبد کو لگتا تھا کہ اسے مضطرب کرکے وہ جان بوجھ کر کال اٹینڈ نہیں کرتی۔ محض عبد سے بدلہ لینے کیلئے‘کیونکہ وہ بھی تو اس کی بے چینیوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ مگر اس وقت بات بھی تو کچھ اور تھی۔
ان دنوں عبد کو یوں لگتا تھا کہ گویا رمشا کو منانے کے علاوہ دنیا میں کوئی اور مقصد اس کیلئے نہیں بچا۔ اس نے ہر طرح کی کوشش کرکے دیکھ لی وہ جانتا تھا۔
کہ اس کا محبوب بلا کا انا پرست ہے۔ رمشا کی انا کوتوڑنے کے بجائے وہ خود کو اور بھی اس کیلئے نرم کر چکا تھا اور یہ رمشا کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
وہ گویا ان دنوں ہواؤں میں اُڑتی پھر رہی تھی۔ وہ عبد کو آزمانا اور پرکھنا چاہتی تھی اور اس نے عبد کو جیسا سمجھا تھا‘بالکل ویسا ہی پایا۔ وہ جانتی تو تھی کہ عبد اس کی محبت میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔
مگر اس کی رت جگوں کی سرخیوں سے مزین آنکھیں دیکھ کر رمشا کو خود پر ناز ہونے لگا تھا اور جب رمشا کو یقین ہو گیا کہ عبد جرار کبھی واپس پلٹ نہیں سکتا تب اس نے بڑے ہی اطمینان کے ساتھ اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔
”یہ کیا ہے؟“وہ چونک گیا تھا۔ وہ اسے چونکاتی ہی تو رہتی تھی۔
”تمہاری ماما کی پہنائی گئی انگوٹھی۔
“ اس نے اطمینان سے کہا۔
”مگر مجھے واپس کیوں کر رہی ہو؟“ وہ الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
”ظاہر ہے‘جس کی چیز ہو گی اسی کو لوٹائی بھی جائے گی۔“
”جسے چیز دے دی جائے‘ہم اس سے واپس نہیں لیتے۔“ عبد نے ناگواری دبا کر کہا۔
”میں یہ تعلق ختم کرنا چاہتی ہوں۔“اس کی بے نیازیاں عروج پر تھیں۔ عبد کچھ دیر اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھتا رہا۔
”یہ تعلق تمہاری خواہش پر جوڑا گیا تھا‘مگر تمہاری مرضی پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ میں یہ رشتہ کبھی ختم نہیں کروں گا… جو رشتہ ہمارے بزرگوں نے باہمی رضا مندی سے جوڑا ہے اسے میں تمہاری نادانی کی وجہ سے ختم نہیں کر سکتا۔“
”یہ نکاح میری ضد کی وجہ سے ہوا تھا اور میری خواہش پر ہی ختم ہوگا۔انڈر اسٹینڈ!“ وہ ایک دم بھڑک اٹھی۔
”خوش فہمی ہے تمہاری۔“اس نے سر جھٹکا۔
”مجھے غصہ مت دلاؤ۔“وہ تنک اٹھی۔ ”یہ نہ ہو کہ میں اپنے باپ کو نکاح ختم کرنے پر مجبور کر دوں۔“ اس کا انداز دھمکانے والا تھا۔
”تم کچھ بھی کرکے دیکھ لو‘میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔یہ کوئی کھیل یا تماشا نہیں محبت کی‘نکاح کیا اور پھر ختم کر دیا۔“
”اور تم کیا کرو گے؟“
”وہ ہی جو تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔
تمہاری سوچ وہاں تک جا بھی نہیں سکتی۔“وہ اسٹیئرنگ وہیل کو انگلیوں سے بجا رہا تھا۔
”کیا کر لو گے؟“
”رمشا عبد جرار کو اغواء۔“وہ اس کی غضب ناک ہوتی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔
”کیا مطلب؟“وہ چیخی۔ ”تم ایسا نہیں کر سکتے۔“
”میں ایسا ضرور کروں گا۔“
”میں ابھی پاپا کو کال کرتی ہوں۔“ وہ غصے کے عالم میں ڈیش بورڈ سے اپنا سیل اٹھانے لگی۔
”آپ کے موبائل میں کریڈٹ نہیں ہے میری جان! یہ میرا سیل لے لو۔“ اس نے جان بوجھ کر اسے چڑایا۔
”مجھے گھر چھوڑ دو۔“
”ہرگز نہیں۔“ اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی تھی۔
”عبد! میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔“ وہ چلائی۔
’؟’تو مار دو نا۔“ وہ شوخ ہو رہا تھا جبکہ اس کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔ مٹھیاں بھینچے وہ عبد کو گھور رہی تھی۔
”گاڑی روکو۔“
”یہ چلتی گاڑی ہے‘رک نہیں سکتی۔“ وہ انجان راستوں کی طرف گاڑی دوڑائے لے جا رہا تھا۔ رمشا بازی الٹی دیکھ کر سخت متوحش ہو رہی تھی۔
”عبد! تم میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤ گے۔“
”میں تمہارے ہاتھوں ضائع ہونے کا دل سے خواہش مند ہوں۔ رشتہ توڑ کر بھی تو مارنا چاہتی ہو‘سو ایسے ہی مار دو“ عبد کی مخمور سی آواز نے یک دم رمشا کے اندر خاموشیاں اتار دیں۔
وہ کچھ پل کیلئے بالکل چپ ہو کر رہ گئی تھی اور پھر جب بولی تو لہجہ ٹوٹا پھوٹا سا تھا۔
”اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے؟“ وہ گویا خواب کی کیفیت میں تھی۔
”اتنی سے کہیں زیادہ‘جہاں تمہاری سوچ کی انتہا ہو جاتی ہے‘وہیں سے میری محبت کی شروعات ہوتی ہے… کیوں ستاتی ہو رمشا! دل کو اتنا آزمائش میں مت ڈالا کرو۔“
”مجھے گھر چھوڑ دو۔
“ رمشا ایک دم پوری جان سے کانپ گئی تھی۔
”اپنے گھر لے چلوں؟“ وہ شوخی سے بولا۔
”نہیں‘میرے گھر۔“
”تمہارا گھر تو وہ ہے جو میرا ہے۔“ اس نے جتایا۔
”فی الحال تو یہ ہی میرا گھر ہے اور شاید ہمیشہ کیلئے۔“ رمشا کا دل ایک دم پوری دنیا سے اچاٹ ہو گیا تھا۔
”ہمیشہ کیلئے نہیں‘صرف چند دنوں کیلئے۔“ عبد نے ایک مرتبہ پھر جتایا۔
”مجھے ابھی شادی نہیں کرنا۔“ وہ متوحش سی بولتی رہی۔“ ابھی میں ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں۔“
”تواپنا مائنڈ میک اپ کر لو نا‘رمضان کے بعد تمہیں لینے کیلئے آ جاؤں گا۔“
”ابھی نہیں۔ مجھے کچھ اور وقت چاہئے۔“
”سوری جان! یہ وقت آپ کے ہاتھ سے اب نکل چکا ہے۔“ عبد نے گویا ہاتھ جھاڑ کر کہا۔ ”پہلے سوچا تھا کہ رمضان کے بعد تمہں لینے کیلئے آئیں گے مگر اب تمہارے اتھرے پن کی وجہ سے فوری فیصلہ کرنا پڑے گا۔
”ہرگز نہیں… تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گے۔“
”مجھے تمہارے اس انکار کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔“ اب کے عبد کافی ناگواری سے بولا تھا۔
”میں کب انکار کر رہی ہوں‘میں تو بس…“ وہ ایک دم گھبرا گئی تھی۔
”تو پھر تیار رہنا مائی ڈیر وائف‘میں جلد تمہیں لینے کیلئے آؤں گا‘کیونکہ اس رانگ کالر کے رنگ بدلنے کا بالکل پتا نہیں چلتا‘نہ جانے کس جگہ‘کس موڑ پر ڈاج دے دے۔
“ وہ شرارتی انداز میں کہتا چلا گیا تھا۔
گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ اکرام ہاؤس کے گیٹ کے سامنے رک گئی تھی۔ رمشا بہت بوجھل قدموں سے باہر نکلی۔ ڈرائیووے پر چلتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ اس کے قدم بہت شکستہ تھے‘حالانکہ وہ جو چاہتی تھی‘ویسا ہی تو ہوا تھا۔ وہ عبد جرار کو اپنے پیار میں دیوانہ بنانا چاہتی تھی اور وہ دیوانہ بن گیا۔ پھر رمشا اکرام کے دل میں اتنے سناٹے کیوں اتر آئے تھے… شاید ضمیر کی چبھن کی بدولت۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi