Episode 22 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 22 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

چند ماہ بعد وہ عبد کے ساتھ واپس اسلام آباد چلی آئی۔ تب اس نے تڑپ کا پہلا پتا جھاڑ‘پھونک کر ایک پرانے‘بوسیدہ لفافے میں سے نکالا۔
ان دنوں عبد اور وہ ہنی مون سے واپس آئے تھے۔ عبد کا موڈ بھی خوشگوار تھا اور اس کا خوشگوار ترین۔ عبد کا خیال تھا‘انہیں کچھ دنوں کیلئے گھر والوں سے ملنے کیلئے جانا چاہئے‘سو وہ عبد کی بات مان گئی تھی۔
وہ گھر آئے تو ہمیشہ کی طرح ان کا بھرپور استقبال کیا گیا تھا۔ یہاں آکر عبد کے پوچھنے پر رشی کو خیال آیا تھا کہ وہ ان سب کیلئے دبئی سے لائے گفٹ اسلام آباد ہی بھول آئی ہے۔
ابھی انہیں آئے ہوئے صرف دو گھنٹے ہی ہوئے تھے‘جب عبد کو بینک کا کوئی کام یاد آ گیا تھا۔ عبد کے چلے جانے کا یقین کرکے رمشا قدرے مطمئن ہو گئی تھی۔

(جاری ہے)

گھر کی دونوں بزرگ خواتین کے اِدھر اُدھر ہوتے ہی وہ حوریہ کے کمرے میں چلی آئی۔
وہ اسے دیکھ کر خوش ہو گئی۔
”آؤ رشی! بیٹھو۔“ اس نے بیڈ پر ہی اپنے قریب اس کیلئے جگہ بنائی۔
”سوری‘میں یہاں بیٹھنے کیلئے نہیں آئی ہوں۔“ اس نے ازلی روکھے انداز میں چبا چبا کر کہا۔
”تو پھر؟“ حوریہ نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اپنے مجازی خدا تک ہمارا ایک مسیج پہنچا دیجئے گا۔“
”کیسا میسج؟“ حوریہ قطعاً سمجھ نہ پائی۔
رشی کے انداز و بیان سب بدلے ہوئے تھے۔
”اوّل تو یہ کہ ہمارے حصے کی جو زمین ہڑپ کرکے انہوں نے اپنا کلینک سیٹ کر رکھا ہے‘اس میں سے ہمارا حصہ دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس گھر کو چاہیں بیچ دیں یا چاہیں تو عبد کا جو حق بنتا ہے‘وہ اسے لوٹا دیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس معاملے کی ہوا عبد کو نہیں لگنی چاہئے‘ورنہ میں آپ کے لوگوں کے ساتھ وہ کچھ کروں گی جو آپ کے گمان میں نہیں ہوگا۔
اس کی آواز میں عجیب سی پھنکار تھی۔حوریہ بالکل سفید پڑ گئی۔اسی پل دروازہ کھلا تھا اور مسز عدیلہ جرار اندر داخل ہوئیں۔
”پہلے تم مجھے بتاؤ تم کون ہو؟کیا چاہتی ہو؟ کیوں میرے بیٹے کے پیچھے پڑی تھی؟ آخر تمہارا مقصد کیا ہے؟“
ان کی آواز سے ان کے تاثرات سے رمشا کو اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اس کی تمام باتیں سن چکی ہیں‘مگر اسے کون سی پروا تھی۔
وہ ان کے سامنے بے خوفی سے کھڑی ہو گئی۔
عبد آپ کا ”دل“ ہے نا۔ میں نے آپ کا دل چرا لیا ہے۔“
”تم چاہتی کیا ہو؟“
بیگم عدیلہ گویا لرز کر رہ گئی۔
”میں آپ کے اور عناس کے دل کو بہت کاری ضرب لگانا چاہتی تھی۔ میرا مقصد بھی یہی تھا کہ عناس کے دل کو کوئی گہری چوٹ لگاؤں تاکہ عمر بھر وہ اس درد کو محسوس کرکے بلبلاتا رہے۔ پھر مجھے خبر ہوئی کہ عناس کا ”دل“ تو عبد ہے‘سو میں نے اسے ہی سیڑھی بنا لیا‘مگر میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے عبد سے محبت ہو جائے گی۔
یہاں میرا منصوبہ کچھ ناکام ہونے لگا تھا۔ مگر عناس سے انتقام اور نفرت نے مجھے ہر شے سے بے نیاز کر دیا۔ مجھے عناس کے غرور کو توڑنا تھا۔ اس کا سر جھکانا تھا اور جس مرتبے پر اسے ناز ہے۔ وہ مرتبہ اور مقام اپنے پیروں میں روند دینا تھا۔
پھر میں نے سوچا کہ میرا انتقام تو عبد کی صورت میں پورا ہو ہی جائے گا۔ جب میں اسے ہمیشہ کیلئے آپ لوگوں سے چھین کر لے جاؤں گی… اور میں ایسا کرکے رہوں گی۔
“ اس کے لفظ لفظ سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔
اس کی بات ختم ہوتے ہی بیگم عدیلہ کے وجود میں گویا حرکت ہوئی تھی۔وہ صدمے کی کیفیت میں چلتی ہوئی اس تک آئیں اور پھر انہوں نے اس کے منہ پر دو تین تھپڑ دے مارے تھے۔ عین اسی لمحے عبد نے کمرے میں قدم رکھا۔
”ماما! یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟“ عبد اس منظر کو دیکھ کر گویا جم کر رہ گیا۔
”عبی! یہ لڑکی دھوکے باز ہے۔
اس نے تمہیں فریب دیا۔یہ تمہیں ہم سے چھین کر لے جائے گی۔ یہ عناس سے بدلہ…“
وہ ہذیاتی انداز میں چیخ رہی تھیں جبکہ رمشا مسلسل روئے جا رہی تھی۔ اسے ایک پل کیلئے خوف محسوس ہوا تھا کہ عبد ماں کے آنسوؤں سے متاثر ہو کر ساری کہانی جان نہ لے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ رمشا اکرام ایک ذہین آفیسر کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ وہ سسکتے ہوئے اس کے کندھے سے آ لگی۔
وہ عبد کو ماں کی طرف متوجہ نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
”پلیز عبد! مجھے یہاں سے لے چلو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں مر رہی ہوں۔ مجھے یہاں سے لے جاؤ۔“ وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔
”ہاں‘عبد! اسے واقعی یہاں سے لے جاؤ۔ اگر یہ ادھر سے نہ گئی تو ہمارا دم ضرور نکال کر رہے گی۔“ حوریہ نے سلگتے لہجے میں التجا کی تھی۔
”کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کچھ پل پہلے یہاں کون سے ڈرامے کا سین چل رہا تھا؟“وہ حوریہ کی طرف دیکھتے ہوئے زہر خند لہجے میں بولا۔
”تم اپنی بیوی سے ہی تفصیل پوچھ لو۔ہماری سچائی تمہیں جھوٹ لگے گی اور اس کے جھوٹ پر تمہیں یقین آ جائے گا۔“ حوریہ تلخی سے کہتی ہوئی ماما کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
”عبد! اس سے کہو‘ہمارے گھر سے چلی جائے۔ یہ تمہارے قابل نہیں ہو سکتی۔“ ماما گویا تھک کر بولیں۔
”عبد! آؤ چلیں۔ ہم اپنے گھر چلیں۔“ وہ اس کا بازو تھام کر التجائیہ انداز میں بولی تھی۔
اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ باہر نکل گئے بیگم عدیلہ جرار بس پتھرائی نظروں سے انہیں جاتا دیکھ رہی تھیں۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi