Episode 23 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 23 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

وہ اپنی چھوٹی سی جنت میں بے حد مگن تھی۔ عبد کی ہمراہی میں اسے کوئی پچھتاوا چھو کر بھی نہیں گزرتا تھا اور سچی بات تو یہ تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح ”بدلہ“ لے کر مطمئن ہو چکی تھی۔ یکسر بھلا چکی تھی کہ وہ عبد تک کس مقصد کے حصول کیلئے آئی تھی۔
اسے یاد تھا تو بس اتنا کہ عبد سے اسے اپنے آپ سے بھی بڑھ کر محبت ہو گئی تھی۔ وہ آفس جاتا تو پہلے کی طرح کئی کئی مرتبہ فون کرتی۔
میسیجز میں اس کا حال احوال پوچھتی رہتی۔ اسے اپنی ماں کا گھر تو بھول ہی چکا تھا۔ پاپا کے گھر آسائش و آرام‘سب بھلا چکی تھی۔ وہ اس چھوٹے سے سرکاری کوارٹر میں بہت خوش تھی۔
عبد کے اپنے گھر والوں سے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔ دل ہی دل میں رمشا اس وجہ سے خاصی مطمئن تھی وہ عبد کو اب چھٹیوں میں بھی گھر نہیں جانے دیتی تھی۔

(جاری ہے)

جب بھی وہ جانے کا ارادہ کرتا‘رمشا کو کچھ نہ کچھ ضرور ہو جاتا۔
کبھی شدید گھبراہٹ اور کبھی بلڈ پریشر کا مسئلہ بن جاتا تھا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دل سے عبد کے گھر والوں کی نفرت بھی خود بخود کم ہو رہی تھی مگر وہ پھر بھی عناس اور عبد کو ایک ساتھ بیٹھا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اسے بہت مسرت محسوس ہوتی تھی جب وہ عناس کی فون کال کے جواب میں یہ مسیج کر دیتی۔
”رانگ نمبر‘عبد یہاں نہیں رہتا۔
آئندہ اس نمبر پر کال مت… کریں۔“
اس نے عبد کی غیر موجودگی میں عباس کو کئی مرتبہ دروازے سے واپس لوٹا دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ عناس اور عبد کبھی اکٹھے بیٹھ سکیں۔ اپنے تئیں وہ عناس کیلئے یہی ”سزا“ منتخب کر چکی تھی۔ اس بات سے بے نیاز کہ کبھی کبھی جیتی بازی بھی ہار سے دوچار ہو جاتی ہے۔
یہ بھی ایک عام سا چھٹی کا دن تھا۔
آج عبد نے ثوب کی فیملی کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ ملازمہ کے ساتھ کچن سمیٹ کر اپنی ممی کے گھر آ گئی تھی۔
ممی کے گھر میں بھی خاصی رونق لگی ہوئی تھی۔ اس کے بھائی اور بھابھی کراچی سے آئے ہوئے تھے‘سو وقت گزرنے کا پتا نہیں چلا تھا۔
کچھ دبر بعد جازم بھی چلا آیا تھا۔ بہت عرصے کے بعد رمشا کی اس سے ملاقات ہو رہی تھی۔
”عبد جرار صاحب کا کیا حال احوال ہے؟“
”تم یوں پوز کر رہے ہو‘گویا تمہاری… عبد سے ملاقات نہیں ہوتی۔“ رمشا نے اسے گھور کر دیکھا۔
”کبھی کبھی“ جم“ میں ٹاکرا تو ہو ہی جاتا ہے۔ تاہم آج کل ہمارا کوئی میچ نہیں ہو رہا۔ جب سے اس کی شادی تم سے ہوئی ہے‘بس تمہارا ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ مجھے تو عبد کے علاوہ کسی اور کے خلاف ہاکی کھیلنے میں مزا ہی نہیں آتا۔
“ جازم نے سچائی سے کہا تھا۔
”تم دونوں ایک دوسرے کے حریف جو ہوئے۔“ وہ ہنس رہی تھی۔
”سو تو ہے۔ بہرحال‘تمہاری غداری سے میں خاصا جلا بیٹھا تھا۔“
”کیا مطلب؟“ وہ سمجھ نہیں پائی۔
”جب سے عبد تمہیں مل گیا ہے‘تم ہمیں تو بھول ہی چکی ہو۔“جازم شکوؤں کی پٹاری کھول بیٹھا۔
”اب میں تمہارا اچار ڈالوں؟عبد کے بارے میں ساری انفارمیشن اکٹھا کرنے اور پل پل کی رپورٹ لینے کیلئے تمہاری خدمات لیتی تھی۔
اب جبکہ میرا کام ہو چکا ہے تو…“
”اور تم مطلب پرستوں کی طرح اپنا آپ دکھا چکی ہو۔“جازم نے منہ بنا کر کہا۔ رمشا ہنس ہنس کر بے حال ہو گئی۔
”اچھا خاصا ڈاکٹر عناس سے بدلہ لیتے لیتے اس کے بھائی پر عاشق ہو گئیں اور میں بے چارہ مفت میں مارا گیا۔“ جازم کا تاسف کسی طور کم نہیں ہو پا رہا تھا۔
”ڈاکٹر عناس کیلئے تو اب بھی میرے اندر زہر بھرا ہا ہے۔
انہیں تو میں کبھی معاف نہیں کر سکتی اور ان کے مارے گئے‘وہ دو تھپڑ تو مجھے تمام عمر نہیں بھول سکتے۔“
”چلو‘اب جانے بھی دو خونخوار بلا! کبھی کسی کو معاف بھی کر دیا کرو۔ ہر کسی سے بدلہ لینے پر تل جاتی ہو۔“ جازم کا انداز ناصحانہ تھا۔
”ڈاکٹر عناس کو تو میں کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ ان کی وجہ سے میرا ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا تھا‘بلکہ مجھے ”ڈاکٹر“ لفظ سے ہی نفرت ہو گئی۔
“ وہ تنفر سے بولی۔
”عبد کی خاطر ہی معاف کر دو۔ کہتے ہیں‘محبت کا ظرف بہت وسیع ہوتا ہے۔“
”میں نہیں کر سکتی۔ انہوں نے میرے ساتھ اچھا کیا تھا؟ اور دیکھو‘مجھے پہچان تک نہیں پائے۔ ظاہر ہے‘اتنے بے شمار اسٹوڈنٹس میں سے بھلا وہ کس کس کا چہرہ یاد رکھتے‘مگر دیکھو‘میں ڈاکٹر عناس کو پہلی نظر میں ہی پہچان گئی تھی اور عبد کو دیکھ کر تو یوں لگتا تھا گویا کچھ سال پیچھے کی طرف سفر کرو تو ڈاکٹر عناس مجسم کھڑے نظر آئیں۔“

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi