Episode 28 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 28 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

غانی کے منہ میں پانی بھر آیا تھا۔ ان فضول کتابوں کے نام لے کر‘گویا پوری کچوری اور خطائی کا ذائقہ اس کے منہ میں گھل گیا تھا۔ میرے منہ کے زاویے اسود کا نام سن کر ہی بننے‘بگڑنے لگے تھے۔ منہ میں گویا کڑوے بادام آ گئے۔ حالانکہ یہ چاکلیٹی ہیرو جیسا کزن فرینڈز کے درمیان گردن اکڑانے اور دوستوں کے درمیان ویلیو بنانے کا سبب تھا۔
”چھوڑو بھی غانی! جس رائٹر کا نام ہی اتنا خوف زدہ کر دینے والا ہو۔
اس کی تصنیف کتنی بکواس ہوگی۔ بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا چیخوف… یعنی نرا خوف ہی خوف… اور یہ فزانز کافکا… ایسے لگتا ہے۔ جیسے پرانز اور کانٹے یعنی فورک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ہائے غانی!مجھے تو بھوک بھی لگ گئی ہے۔“ میں نے پیٹ پکڑ کر دہائی دی تو غانی نے ہاتھ میں پکڑی کتاب میرے سر پر دے ماری۔

(جاری ہے)

”بھوسا بھرا ہوا ہے یہاں۔“ کتاب کے وزن سے میرے دماغ کی چولیں ہل کر رہ گئی تھیں۔
اوپر سے غانیہ کا موڈ بگڑ گیا تھا۔
”تمہیں ٹھیک ہی باورچن‘دھوبن اور درزن کا خطاب دیا گیا ہے۔ تمہارا دماغ پڑھنے کی طرف نہیں مائل ہونے والا۔ پکانے اور کھانے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ کھا کھا کر ایک دن غبارے کی طرح پھٹ جاؤ گی۔ موٹی!“ غانی میری اچھی صحت پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آتی تھی اور کھانا پکانے کے طعنے دینا تو مما اور ان کی پیاری بھانجی غانی کا دیرینہ مشغلہ تھا۔
میں نے تو اکثر ہی ماؤں کو آہیں بھرتے دیکھا ہے کہ ان کی بیٹیاں کچن کے نام سے ہی دور بھاگتی ہیں۔ سینے پرونے کا بھی کوئی شوق نہیں ہوتا۔ گھر کے کام کاج سے الرجک ہوتی ہیں جبکہ مجھ میں سگھڑ خواتین والے سارے جراثیم پائے جاتے تھے۔ مگر میرے ہاتھ میں جھاڑو دیکھ کر مما تنتنا اٹھتی تھیں۔
”کبھی اسی شوق اور جذبے سے کتاب بھی پکڑ لیا کرو۔“ یہ طعنہ تو مما کی نوک زباں پر ہر وقت مچلتا رہتا تھا۔
نجانے مما بھی کیسی ماں تھیں۔ یعنی جو ایکسٹرا میڈ کی خدمت سرانجام دیتی تھی۔ ان کی مما کے نزدیک اس کی کوئی ویلیو نہیں تھی۔
”ساحیہ مراد! آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ علم موسیقی اور آواز پر سائنسی دریافتیں کرنے والے سائنس دان کا نام بتاؤ جو کہ تیسری صدی ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوا تھا۔“ مجھے سوچوں میں الجھا دیکھ کر غانی نے کافی ناراضی کے عالم میں اپنا سوال دہرایا۔
”تیسری صدی ہجری میں کون پیدا ہوا تھا؟“ میں نے یاد داشت کے سارے خانے کھنگالنے شروع کر دیئے تھے۔
”کون سی ایسی کھانے والی چیز کے نام سے ملتا جلتا نام تھا۔ علم موسیقی کو دریافت کرنے والے سائنس دان کا…“ میں زیر لب بڑبڑاتے ہوئے سخت ٹینشن میں مبتلا ہو چکی تھی۔
”ساحی! غانی کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور میرے منہ سے اچانک نغمہ برآمد ہوا۔
”شکر قندی‘یعنی الکندی۔“
”بھاڑ میں جاؤ تم… ایک سوال کے جواب میں پندرہ منٹ برباد کر دیئے ہیں۔ پیپر میں نجانے تم کیا کرو گی۔“ غانی درست جواب سن کر بھی منہ پھلائے بیٹھی رہی۔
”سوری غانی!“ میں نے بھی غلطی تسلیم کرکے معانی مانگنے میں دیر نہیں کی تھی۔
”آخری جواب بتاؤ‘پھر جان چھوٹ جائے گی تمہاری۔ ویسے بھی ”کہر“ لگنے والا ہے۔
‘ غانی میری دلی کیفیات سے واقف تھی۔ تب ہی تو میرے فیورٹ ڈرامے کا ذکر کیا تھا۔ 
”پوچھو“ میں نے شان بے نیازی سے جواب دیا۔
”حالت سکون سے چلنے والی کار کی ابتدائی ویلاسٹی کتنی ہوتی ہے؟“
”یہ ویلاسٹی صفر ہوتی ہے۔“ میں نے بھی نظر بچا کر کتاب میں سے اچانک کر دیکھا اور جھٹ سے جواب بھی دے دیا تھا۔ غانی کون سا میری طرف متوجہ تھی۔
اپنا ہینڈ بیگ کھولے ببل کا پیکٹ نکال رہی تھی۔ سو میرا بھی کام چل گیا اور آج ان ہی چھوٹی موٹی ”چوریوں“ کا خمیازہ فیل ہونے کی صورت میں بھگت رہی تھی۔
مما نے کافی سوچ بچار کرنے کے بعد سر اٹھا کر میری طرف دیکھا تھا اور پھر بولیں۔
”ساحیہ! کتابیں سمیٹ کر نیچے آ جاؤ۔ میں تمہاری پیکنگ کرنے لگی ہوں۔“
”مگر کیوں مما!“ میں حیران پریشان ہی تو رہ گئی تھی۔
”تم نبیلہ کے پاس جا رہی ہو۔“ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”پھوپھو کے پاس‘مگر کیوں؟“ اپنی ہٹلر ٹائپ پھوپھو کے پاس جانے کے متعلق سوچ کر ہی میں لرز اٹھی تھی۔
”اس لئے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔“
”مما پلیز!“ میں منمناتی رہ گئی تھی۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi