Episode 33 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 33 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

میں اس وقت ٹیرس پر بیٹھ کر کیلوں کے ساتھ معمولی سا انصاف کر رہی تھی۔ صرف چھ کیلے ہی کھائے تھے۔ جب میری پڑوسن کے ٹیرس کی ریلنگ پر جھکے ایک سیاہ چمکتی آنکھوں والے خوبرو لڑکے نے مجھے ساتواں کیلا اٹھاتے دیکھ کر گویا گنتی مکمل کر دی تھی۔
”اب مزید ایک بھی کیلا مت کھانا۔ ورنہ تمہارا نہ سہی‘میرا اپنا معدہ تمہیں کیلے کھاتے ہوئے دیکھ کر پھٹ جائے گا۔
مائی گاڈ! پیٹ ہے کہ کنواں‘ابھی دو سرخ سرخ سیب بھی پلیٹ میں ڈھک کر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کسی اور کے معدے میں ڈالو گی؟“ وہ مسلسل بولتا ہوا بڑی بے تکلفی کے ساتھ ہمارے ٹیرس پر کود گیا۔ یہ کیلے سیب تو مجھے ہضم ہو سکتے تھے مگر ان محترم کی بے تکلفی ہرگز نہیں۔
”کون ہو تم؟“ میں نے اپنے ازلی پُرجلال موڈ میں دہاڑنے کی کوشش کی تھی مگر گلے میں کافی تکلیف دہ خراشیں پڑ گئیں۔

(جاری ہے)

”میں دلوں کا کیف ہوں۔“ مقابل نے خاصا جھوم کر بتایا۔
”میں کہہ رہی ہوں‘اپنا نام بتاؤ؟“ مجھے ایک دفعہ پھر تلخ لہجہ بنانا پڑا۔
”بتایا تو ہے۔ کیف ہوں‘سرور ہوں‘نشہ ہوں‘خمار ہوں۔ مستی ہوں۔“ وہ پھر سے دلار بھرے انداز میں بولا۔
”یہ سارے نام تمہارے ہیں؟ احمق! مجھے صرف ایک نام بتاؤ۔“ میں نے جھاڑ کر کہا۔ دراصل میرا ارادہ یہ تھا کہ ریلنگ پھلانگ کر ذرا رخسانہ آنٹی (گل کی ممی) سے شکایت لگا کر آتی ہوں کہ گھر میں کس تدتہذیب مہمان کو رکھا ہوا ہے۔
جو بغیر اجازت کے دوسروں کے گھروں میں گھس کر بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔“ رخسانہ آنٹی تمہاری رشتے میں کیا لگتی ہیں۔“ میں نے آنکھیں دکھا کر پوچھا۔
”ڈیڈی کی بہن۔“
”یعنی تمہاری پھوپھو؟“
”یہی سمجھ لیں۔“ اب وہ ریلنگ کے اوپر جھک کر ہمارے لان کا جائزہ لے رہا تھا۔
”یہ پھول پودے کس نے لگائے؟“
”ساحیہ نے۔
“ میں نے سوچا کیوں نہ تعریف ہی بٹوری جائے۔
”یہ کون خاتون ہیں؟“ وہ چونک کر پوچھنے لگا۔
”میں اور کون۔“
”اوہ‘تو آپ کا نام ساحیہ ہے۔“ اس نے آنکھیں سکیڑ کر میری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ ”آپ کا نام تو کوئی بھاری بھرکم قسم کا ہونا چاہئے تھا۔ دردانہ‘سطوت آرایا ہزیرہ بیگم۔“
”کیا مطلب؟“ میں چیخ اٹھی۔ دفع ہو جاؤں یہاں سے۔
“ کوئی میری صحت پر چوٹ کرے تو میں زخمی شیرنی بن جاتی تھی۔ کچھ میں فطرتاً جھگڑالو تھی۔ دراصل اس کے پیچھے بھی بے شمار وجوہات ہیں۔ میرے گھر والوں کی بے شمار زیادتیاں اور ظلم‘جو عمر کے مختلف ادوار میں مجھ پر ٹوٹتے رہے تھے۔ شروع سے ہی مجھے ہر بات پر ڈی گریڈ کرنا۔
میں جو عماد بھائی کے اتنے سالوں بعد اس ظالم گھرانے میں پیدا ہوئی تو ان لوگوں کو میری قدر کرنا چاہئے تھی۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ لوگ شکرانے پڑھتے‘نیازیں بانٹتے‘مگر ہوا کچھ یوں… مما مجھ جیسی جناتی بچی کو پیدا کرکے بیمار پڑ گئی تھیں۔ سارے گھر والے معصوم سی گول گوتھنی بچی کو بھول بھال کرمما کے غم میں ادھ موے ہونے لگے۔ پایا نے تو اس وقت جذبات میں آکر یہ تک کہہ دیا تھا۔ ”اس سے بہتر تھا‘میں بے اولاد ہی رہتا۔“ یہ اس نازک گھڑی کی جذباتی سی کیفیت تھی۔
بعد میں پاپا نے مجھے اپنی آنکھوں کا ستارہ اور ہتیھلی کا چھالا بنانا چاہا تو میری ہٹلر مما درمیان میں کود پڑیں۔
”مراد! کیا ساحی کو بگاڑ دیں گے۔ ایک ہی ہماری بیٹی ہے۔ اس کی تربیت میں چوک نہیں ہونی چاہئے۔“ مما نے دو سال کی عمر میں تربیت کرنے کے چکر میں مجھے جو خونخوار نظروں سے گھورنا شروع کیا تو اب تک یہی سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔
میں بچپن سے ہی مما کے ظلم و جبر کا نشانہ بنتی رہی ہوں۔
ظاہر ہے‘اکلوتی تھی۔ سارے ستم مجھ مسکین پر ہی ڈھائے گئے۔ عماد بھائی ایک تو مجھ سے بہت بڑے تھے۔ اوپر سے بلا کے فرمانبردار تھے۔ مجھے دیکھ دیکھ کر تو مما کو ہول پڑتے تھے۔
”ہائے‘لڑکی ذات اور ایسی بد زبان… بولتی ہے تو گویا چھت پھاڑنے کے ارادے سے۔ کبھی عماد کو اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا ہے۔“
مما کا خیال تھا قصور میرا بھی نہیں میں اپنی پھوپھی کا مزاج چرا لائی ہوں۔
سو میری گرم مزاجی سے گھر والوں نے سمجھوتا کر لیا تھا۔ بس یہی وجہ تھی کہ میں…
”محترمہ! آپ کس مراقبے میں چلی گئی ہیں؟“ وہ بالکل میرے سامنے آکھڑا ہوا تھا اور میں جو ماضی کی بھول بھلیوں میں گم بچپن سے اب تک اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ایک دم چونک کر خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو؟“ جوں ہی میری نظر اس کے ہاتھوں تک گئی۔
میرا پارہ چڑھ گیا۔ وہ کمینہ لیموں کے رس میں کٹے ہوئے سیب چٹ کر گیا تھا۔
”کس کی اجازت سے تم نے میرے سیب کھائے ہیں؟“
”کھانے پینے کے معاملے میں بھلا اجازت کیسی؟“ اس نے میز سے ایک ٹشو بھی اٹھا لیا۔
”جاؤ یہاں سے… ورنہ میں چوکیدار کو بلا لاؤں گی۔“ میں نے اسے دھمکانا چاہا۔
”چوکیدار نے بھلا یہاں آکر کیا کرنا ہے؟“ اس نے معصومیت سے پوچھا۔
”تمہیں اٹھا کر دوسرے ٹیرس پر پھینک دے گا۔“

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi