Episode 36 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 36 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

اس دن میں مارکیٹ سے کچھ ضروری سامان لینے کیلئے گئی تو کیف سے بھی ملاقات ہو گئی تھی۔ دو دن بعد نظر آیا تھا۔ ان دنوں کام میں بہت مصروف تھا۔ اسی لئے پارک میں بھی نہیں آ رہا تھا۔ ورنہ تو روزانہ ہی میں اسے قریبی پارک میں ٹہلتے اور موبائل فون پر مصروف دیکھتی تھی۔ اس وقت بھی اسے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کرتے دیکھ کر مجھے بے ساختہ خوشی محسوس ہوئی۔

”کہاں تھے اتنے دن سے؟“ میں نے بڑے بڑے تھیلے اس کے ہاتھ میں زبردستی تھماتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ مصروف تھا۔ تم سناؤ؟ آج کل کیا ہو رہا ہے۔“ اس نے ہمیشہ کی طرح شائستگی بھرے لہجے میں دریافت کیا۔
”بس‘وہی پڑھائی کا رونا۔“ میں نے دکھی دل سے بتایا۔ مما نے آتے ہی میری ننھی سی جان پر پھر سے کتابوں کا بوجھ لاد دیا تھا۔

(جاری ہے)

بقول مما کے جب تک شادی نہیں ہوتی‘فارغ رہنے سے بہتر ہے‘مصروف رہو اور اب تو میں سچے دل سے شادی کیلئے دعائیں کر رہی تھی۔

مجھے پورا یقین تھا کہ اس دفعہ بھی میں ہرگز پاس نہیں ہو سکوں گی اور فیل ہونے سے بہتر تھا‘میں کسی کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھر دوں۔ مگر مسئلہ تو صرف یہ تھا کہ خاندان کا کوئی بھی مرغا بچ نہیں پایا تھا اور خاندان سے باہر تانکنے جھانکنے کی مما نے مجھے اجازت نہیں دے رکھی تھی اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ بھی تھا۔
”آنٹی کا ارادہ تم سے جاب کروانے کا ہے؟“ کیف کا انداز کچھ سوچتا ہوا تھا۔
”نہیں تو۔“ میں نے نفی میں سر ہلایا۔
”پھر کیا ضرورت ہے‘خوامخواہ تمہیں تکلیف دینے کی۔“ وہ منہ بنا کر بولا۔ ”آنٹی کو چاہئے تمہاری شادی کر دیں۔“
”لو جی‘کر لو گل… یہاں کوئی پروپوزل آتا تو تب بات بھی تھی۔ بندہ رو دھو کر گھر والوں کو شادی کیلئے منوا ہی لیتا۔“ میں نے کڑھ کر سوچا۔
”تم بھوک ہڑتال کر دو۔“ کیف نے اسے نئی راہ دکھانا چاہی تھی۔
”مما ان اوچھے ہتھکنڈوں سے متاثر نہیں ہو سکتیں۔“ میں نے مایوسی سے نفی میں سر ہلایا۔
”اچھا‘ایک اور طریقہ بھی ہے‘تم بیمار پڑ جاؤ۔“
”مگر کیسے؟“
”بھئی‘ہر روز جھوٹ موٹ کا دورہ بنا لینا۔“
”پھر مما لوگ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگیں گی‘سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔“ میں نے مایوسی سے کہا۔
”تم ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا۔
”میں نہیں جاؤں گی مگر ڈاکٹر خود چل کر میرے پاس آ جائے گا۔“ میں بیزاری سے بولی۔ ”کچھ اور سوچو۔“
”کہہ دو‘میری یادداشت چلی گئی ہے۔ ابھی میں گاڑی نکال کر لاتا ہوں۔ معمولی سی ٹکر کے بعد تم بے ہوش ہو جانا۔“ اس نے ایک اور نادر ترین حل پیش کیا‘جسے سن کر میرا منہ بن گیا تھا۔
”تاکہ میرا دماغی علاج ہونا شروع ہو جائے اور پھر مما اور پاپا کو پتا چل جائے کہ میں انہیں پریشان کرنے کیلئے ڈرامے کر رہی ہوں۔
”ایک اور حل بھی ہے میرے پاس۔“ وہ پھر سے سوچ میں گم ہوا۔
”جلدی بتاؤ۔“ میں بے صبری سے بولی۔
”تم خود کشی کر لو۔“
”ہائے خود کشی۔“ میں گویا بدک کر دور ہوئی۔
”یعنی مر جاؤں؟ محض پڑھائی سے بچنے کیلئے۔“ میری آنکھوں کے ڈیلے گویا باہر نکلنے لگے۔
”نہیں تو۔“ وہ گویا جھنجھلا گیا، ”مرنے کیلئے کون کہہ رہا ہے۔
صرف خود کشی کی کوشش کرنا۔ ٹیرس سے چھلانگ مار دینا۔“ وہ اطمینان سے بولا۔
”تاکہ میری ساری ہڈیاں ٹوی جائیں۔ میں لنگڑی ہو کر بستر سے لگ جاؤں۔“ ایسے خوفناک مشورے نے مجھے پسینہ پسینہ کر دیا تھا۔
”بدھو! دھیان سے چھلانگ مارنا تاکہ ہڈیوں ٹوٹنے سے بچ جائیں۔ بس اس کا دھیان رکھنا کہ اس منظر کو کوئی دیکھ لے۔“
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔
“ میں نے مشکوک انداز میں اسے گھورا۔“ تم مجھے دنیا سے بھجوانے کے طریقے کیوں بتا رہے ہو۔“
”ایک آخری آئیڈیا بھی ہے میرے زرخیز دماغ میں۔“ کیف نے چٹکی بجا کر کہا۔
”مجھے تو معاف کرو۔“ میں نے دونوں ہاتھ جوڑے۔ میں سڑک پار کرنے لگی تھی۔
”ارے سن تو لو۔“ وہ میرے پیچھے بھاگا چلا آیا۔
”کیا ہے؟“ میں ناراضی سے بغیر رکے بولی۔
”تو تم شادی کر لو۔“ اس نے پھر سے میرا دل جلایا۔
”کس سے۔“ میں نے بغیر سوچے سمجھے دانت پیس کر بھناتے ہوئے کہا تھا۔
”ایبک سے۔“ وہ میرے سامنے کھڑا بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔ یوں کہ میرا اطمینان پل بھر میں ہوا ہو گیا۔
”مگر…“ میں نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر کیف نے گویا ہاتھ اٹھا کر میری بات قطع کر دی۔
”کوئی اگر مگر نہیں۔
کیا میں اور میری ماما تمہارا ہاتھ مانگنے آ جائیں؟“ اب وہ بڑے صاف اور دو ٹوک انداز میں پوچھ رہا تھا اور میری حیرت کی گویا انتہا ہو چکی تھی۔
”مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔“ میں ہکا بکا رہ گئی۔ ”بھلا یوں کھڑے کھڑے رشتے طے پاتے ہیں؟“
”کیوں نہیں ہو سکتا۔“ وہ پرجوش سا بولنے لگا۔ ”تم ہمار آئیڈیل ہو ساحی! ہمیں جس لڑکی کی تلاش تھی۔
وہ لڑکی صرف تم ہو سکتی ہو۔ تم میں جو خوبیاں موجود ہیں۔ ہمیں ایسی ہی خوبیوں والی لڑکی کی تلاش تھی۔ میری تلاش یہاں آکر ختم ہو چکی ہے اور میں تمہیں اپنی بھابھی بنانا چاہتا ہوں۔“
ہائے‘مجھے کھڑے کھڑے ہارٹ اٹیک نہ ہو جائے۔ اپنی اتنی تعریفوں نے تو میرے حواس معطل کر دیئے تھے۔ اگر کچھ سنبھل کر کیف کے تاثرات جانچ لیتی تو ضرور ٹھٹک جاتی۔
مگر کیا ہے کہ مجھے کسی کو جانچنا‘پرکھنا یا سمجھنا تو کبھی نہیں آیا۔ میں بے وقوفی کی حد تک سادہ ہوں۔ ان دنوں مجھے اپنی بے وقوفیوں کی خبر نہیں ہو سکی تھی‘مگر وقت بہت بڑا استاد ہے۔ جو باتیں ماں‘باپ اور کتابیں تک سمجھا نہیں سکتیں‘ان باتوں کو وقت اچھی طرح سے ذہن نشین کروا دیتا ہے۔ اور وقت کی شاگردی میں رہنا کوئی آسان کام نہیں۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi