یہ ان دنوں کی بات ہے۔ جب رخسانہ آنٹی نے اچانک کینیڈا شفٹ ہو جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ شوہر اور اپنی بیٹی چونکہ پردیس میں تھے۔ سو وہ تنہائیوں سے گھبرا کر کینیڈا چلی گئی تھیں۔ ان کی انیکسی میں ابھی تک کیف رہائش پذیر تھا۔
آنٹی کے چلے جانے کا بڑی مما اور میری مما نے خاصا صدمہ لیا تھا۔ عرصہ دراز سے وہ ہمارے پڑوس میں رہ رہی تھیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد یوں لگتا تھا گویا برابر والا گھر سناٹوں میں ڈوب گیا ہے۔
آنٹی چلی گئیں تو کیف بھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح چند دنوں کیلئے غائب ہو گیا تھا اور میں جو اتنے دنوں سے اس کی عادی ہو چکی تھی‘ایک دم بوکھلا کر رہ گئی اور جس دن وہ واپس آیا تھا۔ میں گویا پھٹ پڑی۔
”بغیر بتائے‘کہاں دفع ہو گئے تھے؟“
”سانس تو لینے دو‘بتاتا ہوں۔
(جاری ہے)
“ وہ گھاس پر پھسکڑا مار کے بیٹھ گیا تھا۔
”جلدی سے بکو۔
“ میں غصے سے بولی۔ اسود بھائی اور غانی کے بعد کیف ہی تھا‘جس سے میں اس قدر بے تکلفی سے پیش آتی تھی اور دوسرے مما اور پاپا‘کیف کی شرافت‘نجابت کو دیکھ کر مطمئن تھے۔ انہوں نے کبھی مجھے کیف سے ملنے اور گپ شپ سے نہیں روکا تھا اور ویسے بھی ہم کون سا ہر وقت ملنے کیلئے بے تاب رہتے تھے۔ زیادہ تر پارک میں ہی ملاقات ہوتی تھی۔ وہ پارک میں بچوں کے ساتھ والی بال کھیلتا تھا اور میں مما کے ہزار مرتبہ مجبور کرنے پر چار پانچ راؤنڈ لینے کیلئے نکل آتی تھی۔
جب تک میں راؤنڈ لیتی تھی۔ اتنی دیر تک وہ والی بال کھیلتا رہتا تھا۔ جوں ہی میں تھک ہار کر بنچ پر بیٹھ جاتی۔ وہ بال پھینک کر بھاگ آتا تھا۔
”یوسما ہے نا‘میری وہ۔ اس کا برتھ ڈے تھا۔“ وہ پسینہ صاف کرتا ہوا بولا۔ یوسما اس کی ”وہ“ تھی یعنی دوست‘منگیتر‘یا پھر بیوی۔ اس نے کبھی ”وہ“ کی وضاحت نہیں کی تھی۔“ میں نے بھی کبھی وضاحت طلب نہیں کی تھی۔
دراصل مجھے کریدنے کی کبھی بھی عادت نہیں رہی تھی اور نہ ہی میرا کیف کے ساتھ ایسا کوئی ریلیشن تھا جو میں یوسما کے بارے میں کانشس رہتی۔ وہ مجھے خاصا ہمدرد‘مخلص اور سادہ مزاج لگا تھا اور ان دنوں تو میری مما کے کہنے پر وہ مجھے اکنامکس اور انگلش بڑی دل جمعی کے ساتھ پڑھا رہا تھا اور میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتی تھی کہ کیف سے اچھا کوئی آج تک مجھے پڑھا پایا تھا اور نہ ہی کچھ سمجھا پایا۔
مما کیف سے بہت خوش تھیں کیونکہ میرے منتھلی ٹیسٹ دیکھ کر مما کا دل خوش ہو گیا تھا اور وہ اس کامیابی کا سارا کریڈٹ کیف کو دے رہی تھیں۔ میری محنت کو وہ کسی کھاتے میں نہیں سمجھتی تھیں۔
”تو بتا کر جاتے۔“ میں نے ناراضی جتائی۔
”کیوں بھئی‘آپ نے مجھے مس کیا تھا؟“ وہ صاف مجھے چڑا رہا تھا۔
”ہونہہ‘کوئی نہیں۔“
”تم تو خوش ہوگی‘پڑھائی سے جان چھوٹی رہی اتنے دن۔
“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔“ میں جزبز ہوئی۔ ”تم آوارہ گردی کر آئے؟“
”لڑکی! احترام سے بلایا کرو۔ میں تمہارا استاد ہوں۔“ وہ خوامخواہ استاد بنا۔
”تمہاری یوسما ٹھیک ہے؟“ میں نے جان کر اسے چھیڑا۔
”ایک دم ٹھیک ہے‘فرسٹ کلاس۔“ وہ دور سے آئس کریم والے کو آتا دیکھ کر اٹھ گیا تھا۔
”اور تم؟“
”میں تمہارے سامنے ہوں۔
“ وہ دو آئس کریم لے آیا تھا۔
”بڑے فریش لگ رہے ہو۔“ میں نے اپنا فیورٹ فلیور نہ دیکھ کر منہ بنا لیا۔ ”یہ کیا ہے؟“
”آئس کریم۔“
”مگر مجھے مینگو فلیور پسند نہیں۔“ میں نے ناک چڑھائی۔
”تو نہ کھاؤ… مجھے دے دو۔“ وہ اطمینان سے بولا تھا۔
”تم سے ایک بات کرنا تھی ساحی…! کافی دیر سوچنے کے بعد وہ بہت سنجیدگی سے بولا تھا۔
میں کچھ چونک گئی۔
”کیا؟“
”وہ دراصل میری ماما آنا چاہتی ہیں۔“ بالآخر اس نے کہہ ہی دیا۔
”تو آ جائیں… اس میں سوچ بچار کرنے والی کیا بات ہے۔“ میں اس کی بات کا مفہوم نہیں سمجھی تھی۔ دراصل مجھے بات تو کیا‘لہجے سمجھنا اور چہرے پڑھنا بھی نہیں آتا تھا۔
”میرا مطلب ہے‘ایک خاص مقصد کیلئے آئیں گے۔“ وہ سر جھکائے گھاس کے تنکے نوچ رہا تھا۔
اس کے قریب ہی خشک گھاس کے تنکوں کی ایک ڈھیری لگ چکی تھی۔
”کیسا مقصد؟“ اب میں کچھ کچھ سمجھ تو چکی تھی۔ تاہم مزید وضاحت بھی ضروری تھی۔
”ایبک کیلئے آئیں گی۔ میں نے تمہاری اتنی تعریفیں کی تھیں کہ وہ تم سے ملنے کیلئے بے چین ہو گئی ہیں۔“
اس نے تعریف کا ایک جال میری طرف پھینک دیا تھا اور میں اس جال میں الجھنے کے قریب قریب پہنچ چکی تھی۔
دراصل اپنی تعریف کسے ناپسند ہوتی ہے اور میری جن خوبیوں کی میرے گھر والوں کے نزدیک کوئی وقعت یا اہمیت نہیں تھی۔ وہ انہی خوبیوں کو میری نظر میں اور بڑھا کر پیش کرتا تھا۔ دراصل یہ بھی ایک فن ہے۔ شائستگی اور سلیقے کے ساتھ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن… یہ ہنر بھی کسی کسی کو آتا ہے۔
”تم بہت اچھی کوکنگ کرتی ہو۔ تم میں سلیقہ ہے۔
گھر سنبھال سکتی ہو۔ ماما کہتی ہیں ایک لڑکی کو ہر فن میں طاق ہونا چاہئے اور وہ عورت ہی کیا‘جو گھر داری کے قرینے سے واقف نہ ہو۔“ وہ اپنے مخصوص دھیمے اور پُراثر لہجے میں کہہ رہا تھا اور اس کی باتوں سے‘اس کے لہجے کی تاثیر سے کوئی بھی عقل و فہم والا بندہ قائل ہو سکتا تھا جبکہ میں تو پھر ایک احمق اور بدھو سی لڑکی تھی۔ دراصل میرے لئے بے وقوف اور کم عقل جیسے الفاظ ہی مناسب تھے۔
اس وقت میں سفاکانہ حد تک خود کو احمق ترین مخلوق بھی کہہ سکتی ہوں‘ہاں اس وقت مجھے یہ الفاظ بہت زہریلے اور اپنا مذاق اڑانے والے محسوس ہوئے تھے‘جب مما نے مجھے جتایا کہ
”تم احمق اور پاگل ہو ساحی! ہمیں یہ سب تمہارے لئے بہتر نہیں لگ رہا۔“
”آپ تو چاہتی ہی نہیں‘میں قدردان لوگوں میں جاؤں جو میرے سلیقے سے متاثر رہیں۔ جو میری ڈگریوں کی بجائے میرے ہاتھ کے ذائقے کی تعریف کریں۔
پلیز مما! میں ساری زندگی احساس کمتری کے ساتھ نہیں گزار سکتی۔ مجھ سے یہ طعنہ کبھی نہیں برداشت ہو سکے گا کہ میں کند ذہن تھی یا پھر میرا اکیڈمک ریکارڈ اچھا نہیں تھا۔“ میں احساس کمتری کا شکار تھی اور اسی خوف کے زیر اثر میں نے کیف کے بھائی کے حق میں ووٹ دے کر اپنے لئے ایک بھرے پرے کنبے کا انتخاب کر لیا تھا۔
میرا تھرڈ ایئر کا رزلٹ آیا اور میں خوشی قسمتی سے پاس ہو گئی۔ ابھی میری اس خوش کو سلیبریٹ کر رہے تھے کہ ایک نیا واقعہ رونما ہو گیا۔
######