Episode 38 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 38 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

پوری زندگی میں شاید پہلی مرتبہ میں نے خوشی خوشی کالج جانے کی تیاری کی تھی اور اس سے پہلے کالج کیلئے ضروری چیزوں کی شاپنگ بھی کی تھی… مما اور بڑی ما اس کایا پلٹ پر حیران تھیں اور ڈیڈی‘پاپا بے انتہا خوش۔
مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے اندر تبدیلیوں کی اصل وجہ کیف کی ذات تھی۔ وہ میرے لئے ایک مخلص دوست ثابت ہوا تھا اور اس نے مجھے احساس کمتری کے بھنور سے نکال دیا تھا۔
اس نے میری ذات کی اہمیت کو اپنے جاندار لفظوں کا پیراہن دے کر مجھے پہلے سے بھی زیادہ بااعتماد کر دیا تھا۔ یہ بات بھی مجھے بہت بعد میں پتا چلی تھی کہ دراصل کیف کا مقصد مجھے بااعتماد کرنا نہیں بلکہ میرا اعتماد جیتنے کی کوشش کرنا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا۔
ہاں تو‘بات ہو رہی تھی اس دن کی‘جب میں کالج جانے سے پہلے جھٹ پٹ ناشتہ تیار کر رہی تھی۔

(جاری ہے)

مما اور بڑی مما فی الحال اپنے کمروں میں تھیں۔ ڈیڈی اور پاپا نماز کے بعد سو جاتے تھے۔ جب تک وہ فریش ہو کر میز تک آتے تھے۔ میں ان کی پسند کا ناشتہ تیار کر چکی ہوتی تھی۔ یہی میری روٹین بھی۔ اس وقت بھی میں نے شمو کے ساتھ مل کر برتن میز پر سجا دیئے تھے‘جب کیف کی کال نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
میں موبائل اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئی تھی۔
میرا ارادہ تھا کہ ساتھ ساتھ یونیفارم بھی پریس کر لوں گی کیونکہ میں جانتی تھی‘کیف لمبی بات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
”استاد محترم! خیریت تو ہے۔ صبح صبح فون کھڑکا دیا ہے؟“ میں نے موبائل کان سے لگا کر استری کا پلگ لگاتے ہوئے کہا۔
”بس ایسے ہی۔“
”جھوٹ نہ بولو۔“ مجھے قطعاً یقین نہیں آیا۔
”سویرے سویرے میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔
”اتنے بھی تم بچے نہیں ہو‘دوست!“ میں نے طنزیہ کہا۔
”یہ تو تم نے سچ کہا۔ سو فیصد ٹھیک کہا۔“ اس نے فوراً اتفاق کر لیا تھا۔
”ہم ہمیشہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔“ میں خوامخواہ اترائی۔
نجانے کیوں وہ ہنس دیا۔
”تم بہت سادہ ہو۔“
”شکریہ‘نوازش۔“ میں اسے چڑانے کی غرض سے بولی تھی۔ شاید وہ میری سادگی پر چوٹ کر رہا تھا۔
”بہت نادان بھی ہو۔“
”ٹھیک فرمایا آپ نے۔“ میں مزے سے بولی ”اور تم بہت چالاک ہو۔“
”ہاں‘واقعی۔“ وہ پھر سے مسکرا دیا تھا اور اس کی ہنسی کی آواز سن کر میں نے بس ایسے ہی عام سے لہجے میں کہہ دیا تھا۔
”اور کبھی کبھی یہی چالاکی آپ کے منہ پر بھی آ پڑتی ہے۔ خود کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہئے۔“
”بڑی عقل کی باتیں کرنے لگی ہو۔
“ دوسری طرف حیران ہونے کی اداکاری کی گئی تھی۔
”آخر کس استاد کی شاگردی میں ہوں۔“ میں نے عاجزی کا مظاہرہ کیا تھا۔ دوسری طرف کچھ دیر کیلئے خاموشی چھا گئی تھی۔
”فون کیوں کیا تھا؟“ میں نے ایک مرتبہ پھر اپنا سوال دوہرایا۔ کپڑے استری ہو چکے تھے۔ اب میں جوتے نکال ہی تھی۔
”آج ماما تمہارے گھر آئیں گی۔“ بالآخر اس نے فون کرنے کی وجہ بتا ہی دی تھی۔
لمحہ بھر کیلئے میں تھم سی گئی تھی اور میرے دل کی دھڑکنیں بھی بے ترتیب ہو گئیں۔ مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں کیا تھا اور میری خاموشی سے وہ اپنے مطلب کے معنی اخذ کرنے لگا۔
”تمہیں برا لگا؟“ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مجھے ہرگز برا نہیں لگا مگر پھر بھی اس نے پوچھا۔
”مجھے برا کیوں لگے گا۔ آفٹر آل میرے استاد محترم کی ماما آئیں گی۔
مجھے تو ابھی سے مینیو کی فکر ہو گئی ہے۔“ کچھ دیر بعد میں نے کافی ہلکے پھلکے لہجے میں کہا تھا۔
”اچھی بات ہے… اپنی کوکنگ کے جو ہر دکھا کر ماما کو امپریس کر لینا۔“ وہ شاید مسکرایا تھا۔
”مجھے بھلا کیا ضرورت ہے۔“ میں نے مصنوعی ناراضی سے کہا اور چپکے سے کال منقطع کر دی تھی۔ دراصل میں کچھ گھبرا گئی تھی اور ایسی گھبراہٹ کا شکار بھی میں پہلی مرتبہ ہوئی تھی اور یہ گھبراہٹ کیف کی ماما کو دیکھ کر کچھ اور بڑھ گئی تھی۔
ان کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ پہلی نظر میں ہی بندہ کچھ گھبراہٹ اور خوف کا شکار ہو جاتا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کی شخصیت کیلئے کون سا لفظ مناسب تھا۔ باوقار‘مہذب‘بارعب یا پراسرار انہوں نے ماتھے تک دوپٹہ لے رکھا تھا۔ یوں کہ آنکھیں تک دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ جھکا ہوا سر اور جھکی ہوئی آنکھیں۔ خاموش لب‘سادہ سا چہرہ‘آنکھوں میں سادگی تھی‘کوئی سوال نہیں تھا۔
صاف بات تو یہ تھی۔ بڑی مما اور میری مما کو کیف کی ماما پسند نہیں آئی تھیں اور جب گھر والے پسند نہیں آئے تھے تو پھر ایبک کو دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ڈیڈی اور پاپا خاموش تھے۔ فی الحال انہوں نے کوئی رائے نہیں دی تھی اور نہ ہی انہوں نے ایبک سے ملنے یا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی جبکہ مما اور بڑی مما نے صاف کہہ دیا تھا۔
”کافی بھری پُری فیملی ہے… ایبک کے پانچ بھائی‘ماں اور خیر سے معذور دادی بھی موجود ہیں۔ مجھے تو ساحی کیلئے یہ رشتہ پسند نہیں۔ اوپر سے ایبک کی ماں نے ہمارے ساتھ کلام تک نہیں کیا۔“
”بڑا خاندان ہونے میں کیا برائی ہے۔“ اس وقت تو ڈیڈی اور پاپا کی موجودگی کے باعث میں کچھ نہیں بولی تھی۔ تاہم ان کے اٹھنے کے فوراً بعد مجھ سے رہا نہیں گیا تھا سو بول اٹھی۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi