Episode 40 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 40 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

ایک دن کیف چلا آیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ جا کر اپنی شادی کی شاپنگ کر لوں۔ اس میں کوئی اعتراض والی بات بھی نہیں تھی۔ سو مما نے مجھے اجازت دے دی تھی۔
تقریباً تین دن تک شاپنگ کا سلسلہ چلتا رہا تھا۔ اگرچہ شاپنگ بھی میں نے نہ ہونے کے برابر کی تھی۔ ایک تو مروت میں کافی ہلکے پھلکے اور کم قیمت کے کپڑے لئے تھے۔ دوسرے مجھے ویسے بھی بھاری لباس سے الجھن ہوتی تھی اور جب لہنگے کی باری آئی تو کیف نے مجھ سے پوچھا۔
”لہنگا کیسا ہونا چاہئے؟“
”لہنگا نہیں۔“
”تو پھر؟“
”میں کچھ اور لوں گی۔“ میں نے بھاری بھر کم لہنگے دیکھ کر ایک ہلکا سا نفیس کام والا شلوار قمیض پسند کر لیا تھا۔
”شاکنگ پنک لے لو‘ایبک کو یہ کلر پسند ہے۔“ کیف نے مجھے سرخ رنگ انتخاب کرتے دیکھ کر فوراً کہا تھا۔

(جاری ہے)

حالانکہ سرخ رنگ کو میں اپنا لکی کلر سمجھتی تھی۔

یہ رنگ میرا پسندیدہ تھا مگر اس کے باوجود میں نے ایبک کی پسند کو اولیت دی تھی۔
شاپنگ کے دوران یوسما ہمارے ساتھ رہی تھی۔ یوسما‘کیف کی کزن اور منگیتر تھی اور جس طرح کیف اس پر دل کھول کر خرچ کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ کیف یوسما سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ کیف کی یوسما کیلئے محبت اس کے ہر ہر انداز سے ظاہر ہو رہی تھی اور میں وثوق سے کہہ سکتی تھی کہ اتنی خریداری میں نے نہیں کی تھی‘جس قدر یوسما نے کی تھی۔
مہنگے ترین کپڑے اور سونے کے زیورات‘اس کے علاوہ بھی نجانے کیا کچھ۔
میرا سامان کیف نے میرے حوالے کر دیا تھا اور یوسما پوری گاڑی اپنی چیزوں سے بھر کر جہلم چلی گئی۔ حالانکہ جب میں برائیڈل ڈریس خرید رہی تھی‘تب کیف برابر مجھے جتا رہا تھا۔
”ہاتھ ہولا رکھنا فرینڈ! تمہارے انہوں نے میری جیب میں کچھ خاص رقم بھر کر نہیں بھیجا۔
”اپنے بھائی سے کہنا‘وہ شادی کر رہا ہے یا پھر برتھ ڈے سیلیبرٹ کر رہا ہے۔“ میں نے بھنا کر کہا تھا۔ اگرچہ مجھے خود ان باتوں کا خاصا خیال تھا مگر کیف کا بار بار جتانا مجھے بہت برا لگ رہا تھا۔
پھر ایک دن کیف نے اچانک فون کرکے مجھے حیران کر دیا۔ ”ایبک سے بات کرو گی؟“ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا۔
”میں… مگر کیوں؟“ میں گھبرا اٹھی۔
شادی میں چند دن تو رہ گئے تھے اور آج سے پہلے ادھر سے کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا تھا اور پھر مما سے پوچھے بغیر میں بھلا کیسے بات کر سکتی تھی۔
”بس ایسے ہی‘تم نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔“ کیف نے مزید کچھ سننے سے پہلے فون رکھ بھی دیا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ کیف کو بھی میں سمجھ نہیں پائی تھی۔ عجیب سا بندہ تھا۔ گھڑی میں تولہ‘گھڑی میں ماشہ۔
ان ہی الجھی سلجھی سوچوں سمیت شادی کا دن بھی آ گیا تھا۔ اس دن عام لڑکیوں کی طرح مجھ پر بھی گھبراہٹ سوار تھی اور آنسو بھی وقتاً فوقتاً بغیر کسی وجہ کے گرتے جا رہے تھے۔ مما اور بڑی مما میرے سامنے خود کو بشاش رکھنے کی کوششیں کر رہی تھیں مگر یہ کوشش کبھی کبھی ناکام ہو جاتی تھی۔ پورا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ گھر کے لان میں شامیانے لگے تھے۔
رات کو مہندی کی تقریب کا انتظام ہوٹل میں تھا۔ البتہ بڑی مما کی خواہش تھی کہ رخصتی کسی ہوٹل سے نہیں‘بلکہ گھر سے ہونا چاہئے۔
نکاح سے کچھ دیر پہلے میں نے عجیب سی دبی بی سرگوشیاں سنی تھیں اور کچھ دیر بعد کھل کر بات سامنے آ گئی۔ کیف نے مما سے بڑے واضح لفظوں میں کہا تھا۔
”آنٹی جی! آپ نکاح نامے میں‘حق مہر کے طور پر ایبک سے کچھ بھی لکھوا لیں۔
ساحی کے تحفظ کے طور پر۔“
”پر بیٹا! اس کی کیا ضرورت ہے۔ جو کچھ شرعی طور پر ہوگا۔ ہمیں منظور ہے۔“ مما نے سلیقے سے کہا تھا۔ اگرچہ بات تو درست تھی مگر میرے والدین اس چیز کو کافی غیر مناسب سمجھتے تھے۔
”نہیں آنٹی! ضرورت ہے۔ یہ ساحی کا حق ہے۔“ وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا تھا۔ ”میں ایبک سے بات کرتا ہوں۔ وہ اپنا گھر‘چار فرنچائز میں سے دو فرنچائز اور کارخانہ ساحی کے نام لکھ دے۔
یہ ساحی کا حق مہر ہوگا۔“
”مگر یہ تو بہت زیادہ ہے۔“ مما گھبرا کر بولیں۔
”اتنا بھی زیادہ نہیں… میں نے کہا نا‘یہ ساحیہ کا حق ہے۔“
اس کا انداز دو ٹوک قسم کا تھا۔ مما چپ سی ہو گئی تھیں۔ اگرچہ مجھے بھی یہ حق مہر بہت زیادہ لگ رہا تھا مگر میں بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ورنہ ضرور بول اٹھتی۔
”ایبک کیا سمجھے گا۔ ہم کس قدر لالچی ہیں۔
“ مجھے یہی سوچ مارے ڈال رہی تھی۔ میں مما کو منع کرنا چاہتی تھی مگر پاپا اور ڈیڈی کے ساتھ مولوی صاحب کو دیکھ کر خاموش ہو گئی تھی۔ اگرچہ سننے میں آیا تھا کہ ایبک نے کیف کے اس مطالبے پر کافی ناگواریت کا اظہار کیا تھا۔ وہ مان نہیں رہا تھا مگر نجانے کیسے کیف نے اسے منا کر ہی دم لیا۔ کیف کے خلوص اور ہمدردانہ فطرت کی میں کچھ اور قائل ہو گئی تھی۔
سفینہ بیگم یعنی کیف کی ماما‘اس وقت بھی کچھ نہیں بولی تھیں‘جب حق مہر کے متعلق دبی دبی سرگوشیاں ہونے لگی تھیں۔ تب بھی وہ خاموش اور سرجھکائے بیٹھی رہی تھیں۔ نہ ان سے کسی نے پوچھا تھا‘نہ مشورہ لیا اور نہ ہی بڑھ چڑھ کر انہوں نے بولنے کی کوشش کی تھی۔ ایک چپ تھی ان کی‘جو گھر آنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹی تھی۔
بس انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر خاموش لبوں سے ایک دعا دی تھی اور میرے لئے ان کی یہ دعا پوری زندگی کا حاصل تھی۔
”سدا سکھی اور آباد رہو۔“
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi