Episode 42 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 42 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

اس گھر کی خواتین کی روٹین دیکھ کر تو مجھے غش آنے لگے تھے۔
”نیما اور سمی گھر کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتیں۔“
میں پورا ہفتہ مما کے گھر رہنے کے بعد واپس آئی تھی۔ یہاں آتے ہی اسی گندگی‘غلاظت نے استقبال کیا تھا۔ رانی اگرچہ صفائی کرکے گئی تھی مگر پھر بھی جگہ جگہ فروٹ کے چھلکے اور ٹافیوں کے ریپرز پڑے تھے۔ حتیٰ کہ صوفوں کے اوپر بسکٹس کا چورا بھی شان سے بکھرا ہوا تھا۔
اگر لاؤنج میں بیٹھ کر پیٹ پوجا کی گئی تھی تو پھر جھوٹے برتن اور چھلکے سمیٹنے میں کتنا ٹائم لگ جانا تھا۔ رات کو ایبک اپنے مخصوص ٹائم یعنی ساڑھے گیارہ بجے گھر آیا تو میں نے کافی ناگواری سے اپنے بھرے دل کو خالی کرنا چاہا تھا۔
”وہ اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھتیں‘سو اس لئے۔“ وہ فریش ہو کر بیڈ پر نیم دراز ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

ایبک کو اور مجھے بھی ٹی وی سے دلچسپی نہیں تھی۔

سو ہمارے کمرے کا ٹی وی خاموش رہتا تھا۔
”یہ کیا بات ہوئی۔“ میں برا مان گئی۔“ جس گھر میں قیام ہو‘چاہے وہ کرائے کا ہی کیوں نہ ہو‘اسے اپنا سمجھ کر اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا چاہئے۔“
”یہ تو تمہاری سوچ ہے۔“ اس نے لیٹے لیٹے جواب دیا۔
”مگر انہیں بھی ایسا سوچنا چاہئے۔ رانی ایک دفعہ صفائی کر جاتی ہے۔ پورا دن ہمیں خود ہی گھر کو صاف رکھنا ہوتا ہے۔
اگر گندگی یا پھیلاوا نہیں سیمٹیں گے تو اگلے دن تک بھلا کیا حالت ہوتی ہوگی۔ بچے اس گندگی میں کھیلنے لگتے ہیں۔ فرش سے گندی چیزیں اٹھا کر کھاتے ہیں۔ اسی لئے آئے دن ڈاکٹروں کے پاس بھاگی رہتی ہیں۔“ میں نے کلس کر کہا تھا۔ اپنا سجا سجایا میکے والا گھر دیکھ کر آئی تھی سو اسی لئے طبیعت خاصی اوب رہی تھی کیونکہ میرے پیچھے اس کمرے کی صفائی تک نہیں کروائی گئی تھی۔
فرنیچر پر گرد کی ایک تہہ چمک رہی تھی۔
”اب بھلا میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ عون اور فائز کو چاہئے‘ان چیزوں کی طرف دھیان دیں۔ بیویوں سے کہیں‘کچھ اور نہ سہی‘کم از کم کچن کی طرف توجہ خود دے لیا کریں۔ مہینے بھر کا راشن دس دن میں اڑ جاتا ہے۔ ظاہر ہے‘جب گھر کی خواتین توجہ نہیں دیں گی تو ہر چیز کو ضائع کر دیا جائے گا مگر یہاں شروع سے ہی ایسے حالات ہیں۔
دادی اور ماما سیدھی سادی خواتین تھیں۔ پکانا‘کھلانا آتا نہیں تھا۔ شروع سے ہی نجمہ بی سنبھالتی ہیں۔ نیما اور سمی نے یہی کچھ دیکھا ہے۔ سو انہیں جان مارنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ خیر چھوڑو‘ان باتوں کو یہ بتاؤ‘گھر والے کیسے ہیں؟ سفر میں پرابلم تو نہیں ہوئی؟“
ایبک نے بات بدل دی تھی۔ جس بات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا تھا۔ اس پر بھلا بحث میں وقت کیوں ضائع کیا جاتا۔
اب وہ میرا حال احوال پوچھ رہا تھا۔ وہ میرے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بہت دھیان سے سنتا تھا۔ اگرچہ چھوڑ کر تو مجھے ایبک ہی آیا تھا تاہم واپس میں ڈرائیور کے ساتھ آئی تھی۔ ایک ہفتہ تک رہنا تو نہیں تھا مگر چونکہ عماد بھائی فیملی سمیت کراچی سے آ گئے تھے سو ان کے بچوں کیلئے میں وہاں رک گئی تھی۔ حالانکہ میرا ابھی مزید رہنے کا ارادہ تھا مگر ایبک نے مجھے ایک دن بھی اوپر نہیں رہنے دیا تھا۔
”مسئلہ تو کوئی نہیں تھا مگر میں نے آپ کو بہت مس کیا۔“ میں ہونٹوں میں مسکان دبائے مزے سے بولی۔ اگرچہ میں نے سچائی کو ظاہر کیا تھا مگر ایبک میرے اس سچ کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھا۔
”سراسر جھوٹ۔ اگر مس کرنا ہی تھا تو میرے ساتھ ہی واپس آ جاتیں۔“
”پورے دو ماہ بعد گئی ہوں جناب‘صرف ایک ہفتے کیلئے۔“
”اور میرے لئے یہ ہفتہ پورے دو ماہ کے برابر تھا۔
دن گزرتا تھا نہ رات۔“ وہ میری طرف دیکھ کر دلکشی سے مسکرا دیا۔
”سراسر جھوٹ‘اگر ایسی بات تھی تو آ جاتے نا۔“ میں لاڈ سے بولی۔
”بس جی‘کیا کریں… مجبوری تھی۔“ ایبک نے ٹھنڈی آہ بھری۔
”کیسی مجبوری؟“ میں نے آنکھیں دکھائیں۔
”میری جان! کاروبار سلطنت کی مجبوریاں کیا کم ہیں۔ ذرا ادھر ادھر ہو جاؤں تو لاکھوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔
“ وہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے بولا تھا۔
”کیوں بھلا‘فائز اور عون وغیرہ ہوتے تو ہیں۔“
”مگر وہ اتنی توجہ نہیں دیتے۔ لاکھوں کا نقصان ان کی نظر میں کچھ نہیں ہوتا۔ اگر میری غیر موجودگی میں کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو وہ لوگ سنبھال نہیں سکتے۔ ابھی نا سمجھ ہیں۔ آہستہ آہستہ سمجھ جائیں گے۔“
وہ حد درجہ سنجیدہ تھا اور خاموش ہی رہتا تھا۔
کم بولتا تھا مگر بہت اچھا بولتا۔ زیادہ تر میں ہی اسے بولنے پر اکساتی تھی۔ خود سے کبھی بھی گفتگو کا آغاز نہیں کرتا تھا۔ ہاں‘محبت لٹانے کے معاملے میں وہ کنجوس ہرگز نہیں تھا اور اظہار کے معاملے میں تو بالکل نہیں۔ اپنے مخصوص لہجے میں دھیما دھیما بولتا وہ سیدھا دل میں اتر جاتا تھا۔
”کیا سوچ رہی ہو؟“ وہ میرے بازو پر ہاتھ رکھے بڑی نرم گرم جذبے لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”آپ کے علاوہ کچھ اور سوچ سکتی ہوں۔“ میں اس کی محبت لٹاتی نظر سے نظر چرا گئی تھی۔
”ہمیشہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔“ اس کا گمبیھر لہجہ یوں ہی دل دھڑکا دیتا تھا۔
”بھلا کیسے؟“ میں نے بوجھل پلکوں کو بمشکل اٹھا کر پوچھا۔
”تمہاری سوچوں میں‘خیالوں میں‘باتوں میں صرف میں ہوں‘میرے علاوہ کوئی اور نہیں۔“ وہ دھیمی آواز میں بولا تھا۔
”میرا دل پکا ایمان دار ہے۔ بے ایمانی نہیں کرتا۔“
”اور میں اسے بے ایمانی کرنے میں بھی نہیں دوں گا۔“
وہ میرے کان کے قریب گنگنایا تھا۔ ایبک کی قربت کا خمار اس کی آنکھوں سے ہوتا ہوا میرے دل میں اتر آیا تھا اور میں اپنے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کی آواز اپنے کانوں سے سن رہی تھی۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi