Episode 44 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 44 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”بٹو! میں بھلا کیا کروں… کیف باؤ‘راشن اور بل وغیرہ کے پیسے مجھ سے لے جاتے تھے۔ مگر نہ بل ادا ہوتا تھا اور نہ ہی راشن آتا۔ مجبوراً میں پھر ایبک سے پیسے مانگنے کھڑی ہو جاتی تھی۔“نجمہ بی سچ ہی تو کہہ رہی تھیں۔ انہیں بھلا اس بڑھاپے میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔
”اگر کیف کو پیسے چاہئے ہوں تو ایبک سے مانگے۔ گھر کے اخراجات میں سے پیسے کیوں لیتا ہے۔
“ میں اُلجھ کر رہ گئی۔
”ان ہی کے پیسے ہیں جی‘جہاں سے مرضی لیں۔ہم تو اس معاملے میں بول نہیں سکتے۔“وہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔
”بٹو! میں ذرا آرام کر لوں… اللہ تمہیں سکھ دے‘جب سے آئی ہو۔ میری بوڑھی ہڈیوں کی بچت ہو گئی ہے۔“ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں‘تمام زندگی ان کا اسی گھر میں قیام رہا تھا۔

(جاری ہے)

آگے‘پیچھے کوئی تھا نہیں‘سو ایبک‘کے ابا قیوم انہیں اپنے گھر لے آئے تھے۔

یہ ان کی خاندانی ملازمہ تھیں۔
میں اٹھ کر کچن میں آ گئی۔رات کے کھانے کی تیاری کرنا تھی مگر مما کی فون کال نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ فون بند کرکے ابھی کچن میں قدم رکھا ہی تھا‘جب کیف آندھی طوفان کی طرح چلا آیا۔
”نجمہ بی کہاں ہیں؟“ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا تھا۔
”وہ آرام کر رہی ہیں۔“ میں چکن کا پیکٹ کھول کر گوشت کا حساب لگا رہی تھی کہ ایک پیکٹ سے رات کیلئے سالن بن سکے گا۔
”اور تم کیا کرنے لگی ہو؟“
”کھانے کی تیاری۔“ میں نے ایک اور پیکٹ فریزر میں سے نکالتے ہوئے بتایا۔
”یہ کام نجمہ بی کے سپرد ہی رہنے دینا تھا۔“
”کیوں؟“ میں نہیں کر سکتی کیا؟“ میں نے چونک کر پوچھا۔
”بہت اچھا کرتی ہو۔ مگر‘خیر چھوڑو۔ یہ بتاؤ‘تم نے اور ایبک نے ہنی مون کیلئے نہیں جانا۔“وہ کچھ کہتے کہتے بات پلٹ گیا تھا۔
”نہیں‘بھلا ہنی مون کیلئے جانا ضروری ہے؟“
”بہت ضروری ہے۔ تم لوگوں کو کہیں گھومنے پھرنے ضرور جانا چاہئے۔“ وہ اسٹول کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔ یعنی اس کا ابھی مزید گفتگو کرنے کا ارادہ تھا۔
”تمہیں ایبک سے بات کرنی چاہئے تھی۔“ وہ مجھے اکسا رہا تھا۔
”دیکھوں گی… ایبک فارغ ہوں گے‘تب ہی تو کہیں جائیں گے نا۔“میں نے ٹوکری میں سے پیاز نکال کر چھیلنا شروع کر دی تھی۔
”اس کے فارغ ہونے کا انتظار کروں گی تو پھر یوں ہی بیٹھی رہ جاؤ گی۔ وہ نہیں فارغ ہونے والا۔ یہ کاروبار‘یہ روپیہ پیسہ اسے جان سے زیادہ پیارا ہے۔ ادھر ادھر ہونے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب یہ تمہاری محبت پر منحصر ہے کہ تم اپنی بات اس سے منوا سکتی ہو یا نہیں۔“ وہ بڑے عجیب سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ”اگر تو تمہاری محبت کا پلڑا بھاری ہوا‘پھر تو سمجھو‘تم کامیاب ہو گئیں۔
”مجھے ایبک کی محبت پر شک نہیں ہے۔ اگر وہ فارغ ہوئے تو ضرور میری بات مان لیں گے مگر۔ مجھے ان کی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ سو اس لئے میں اپنی وجہ سے ایبک کو پریشان نہیں کر سکتی۔“ میرا انداز دو ٹوک قسم کا خاصا اور روکھا تھا۔ تب ہی تو کیف کا لہجہ بھی بدل گیا اور گفتگو کا انداز بھی۔
”اتنی مشرقیت کا اظہار کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
وہ ویسے ہی تمہارے دام میں پھنس چکا ہے۔“
”کیف!“ میں اس کے الفاظ سن کر دنگ رہ گئی تھی۔
”تم کس قسم کی لینگویج یوز کر رہے ہو؟“
”میں نے کچھ غلط کہا؟“وہ فوراً معصوم بن گیا تھا۔ ”میرے بھائی کو محبت کے دام میں الجھا تو لیا ہے۔ ویسے میں چاہتا بھی یہی تھا۔“
”کیف! ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو۔ میں اس وقت تمہاری بڑی بھابھی ہوں۔
میرا اور تمہارا رشتہ بدل چکا ہے۔“ میں نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا تھا۔
”ہماری دوستی کا رشتہ تو ابھی تک قائم دائم ہے۔ دوست ہونے کے ناتے تم میرا ساتھ دو گی نا۔“ وہ اتنے کھردرے لہجے میں بولا تھا کہ میرا دل کانٹ کر رہ گیا۔
”کون سی دوستی؟“
”وہ ہی جو میرے تمہارے درمیان تھی۔“ وہ چبا چبا کر بولا۔
”تم آخر چاہتے کیا ہو؟“ میں اس کے بدلتے انداز دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی۔ وہ مذاق کے رنگ میں بات نہیں کر رہا تھا۔ اس کا لہجہ گہرا طنزیہ‘کاٹ دار قسم کا تھا۔ میری ریڑھ کی ہڈی سنسنا اٹھی۔
”اب کیا ہے نا‘دانش مندانہ سوال… میں بھلا کیا چاہتا ہوں۔“ وہ دھیرے سے مسکرایا تھا اور پھر بولنے لگا اور میرا رنگ لمحہ بہ لمحہ فق ہوتا جا رہا تھا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi