Episode 55 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 55 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”بہت شوق تھا تمہیں شادی کرنے کا۔“ ان الفاظ کو سن کر عشوہ دھک سے رہ گئی۔ وہ اس کے سامنے ہی تو بیٹھا تھا پرشوق نظروں سے دیکھتا ہوا۔ عشوہ کو ایک تسلی تو ہو چکی تھی یعنی کہ وہ پیا کو بھی بھائی تھی۔ کیا یہ اس کے جیسی قناعت پسند لڑکی کیلئے کم تھا؟
”جی…“ اس کے ہونٹ ایک دوسرے سے گویا جڑ کر رہ گئے تھے۔
”نہ تو میں بھاگا جا رہا تھا اور نہ تم… پھر نجانے کیوں چچی امی نے طوفان اٹھا رکھا تھا۔
“ اس نے منہ کے زاویے بگاڑ کر کہا۔
”دوچار سال بعد کرلیتیں تو کیا حرج تھا۔ میں بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا۔“ عمر کا تاسف کسی طور پر کم نہیں ہو رہا تھا اور عشوہ نے بے حد خوف کے عالم میں بے ساختہ جھک کر عمر کے پیروں کو دیکھا تھا جو کہ بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے۔

(جاری ہے)

عمر اس کی نظروں کے تعاقب میں خود بھی ذرا سا جھک گیا۔

”یہ پیر سلامت ہیں۔
ان کی بات نہیں کر رہا ہوں۔“ وہ گویا سمجھ گیا تھا۔
”تو پھر…؟“ اس کی آنکھوں میں واضح سوال تھا۔
”اپنی اسٹڈیز اور جاب کی بات کر رہا ہوں۔ خیر! چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ لو تمہارا گفٹ۔“ ایک ڈیبا اچھلتی ہوئی اس کی گود میں آگری تھی۔
”ایسے تحفہ دیا جاتا ہے۔“ اس کی نم آنکھوں نے سوال کیا۔
”اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟ اب نکالو جلدی سے۔
“ وہ ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔
”کیا؟“ اس کے لب بے ساختہ وا ہوئے۔
”میرا گفٹ۔“
”مگر میں تو نہیں لائی۔“ وہ گھبرا سی گئی۔
”کیوں…؟“ عمر کو غصہ آ گیا۔ ”تمہیں کسی نے نہیں دیا؟“
”نہیں…“ وہ اس کے طعنے سے خوف زدہ ہو گئی۔
”تو پھر چچی امی کو بھی یہ چین نہیں دینی چاہئے تھی۔ ادھر واپس دو۔“ عمر نے جھپٹنے کے انداز میں ڈبیا کو پکڑا۔
”کیا کرنے لگے ہیں…؟“
”کچھ خاص نہیں۔“ وہ ڈبیا کھول کر ڈیزائن دیکھنے لگا تھا۔ پھر اس نے چین کالاک کھول کر اپنے گلے میں پہن لی۔
”مجھے سوٹ کر رہی ہے؟“ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں…“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”اچھا…“ عمر نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”جیولری عورتوں کیلئے ہوتی ہے۔“ نجانے کیسے عشوہ کے لبوں سے پھسل گیا۔
”اتنا کچھ تو لاد رکھا ہے۔ ابھی بھی بس نہیں ہے۔“ عمر نے تاسف سے کہا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ قدرے منہ پھٹ۔
”نہیں… میں اس لئے نہیں کہہ رہی۔‘
”مجھے تو کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔“ عمر کو اسے ڈرانا اور خوف زدہ دیکھنا خوب بھلا لگ رہا تھا اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کر رہا تھا جو عشوہ کو خوف زدہ کرتیں۔ بلند آواز میں بول کر اسے تنگ کرنا‘دہلانا عمر کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا تھا۔
دھیرے دھیرے یہ عادت پختہ ہوتی چلی گئی۔ عشوہ کی بوکھلاہٹیں اسے غضب ناک کر دیتی تھیں۔ ہمہ وقت اس کی پیشانی پر سلوٹیں رہنے لگی تھیں۔
چچی امی نے اپنی تمام تر نفاست عمر میں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔ ویسے بھی وہ تنہا اتنے سال تک چچی امی کی محبتیں سیمٹتا رہا تھا۔ پہلے عروسہ اور پھر عشوہ نے اس کی محبت کو تقسیم کیا تو عمر کچھ اور اکھڑ گیا۔
چچی امی اسے گھر لاکر کچھ بے فکر ہو گئی تھیں۔ زیادہ تر عروسہ کو سجانے سنوارنے میں لگی رہتی تھیں۔ وہ بیمار تھیں۔ مگر عشوہ نے دیکھا تھا جب تک وہ زندہ رہیں‘ہمیشہ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہیں۔ خود کو بیمار سمجھ کر بستر پر کبھی لیٹ کر انہوں نے خواہ مخواہ خود کو پریشان کیا‘نہ دوسروں کو۔ چچی امی اس کیلئے بہترین ساس اور رہنما ثابت ہوئی تھیں۔
جو محبت اور توجہ انہوں نے عمر کو والدین کی وفات کے بعد دی تھی‘اسی محبت سے انہوں نے عشوہ کو بھی نوازا تھا۔
گھر میں مختصر سے افراد تھے۔ چچی امی‘عمر اور عروسہ۔
عمر صبح کالج روانہ ہو جاتا تھا۔ عروسہ یا تو سوتی تھی یا پھر کھیلتی کودتی۔ چچی امی‘عروسہ کو اپنے بڑھاپے کی اولاد سمجھتی تھیں۔ اکثر عشوہ کو اپنے ماضی کے بارے میں بتاتیں۔
چونکہ عمر کی والدہ اور چچی دونوں سگی بہنیں تھیں اور دونوں میں بلا کا اتفاق تھا۔ اسی لئے چچی امی اور اس کی امی دونوں نے ایک گھر میں رہنے کی ترجیح دی تھی۔ یہ گھر عمر کے والد نے تعمیر کروایا تھا۔ تب ان کے حالات بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔
عمر کو تعلیم سے دلچسپی تھی اور اسے پڑھتا دیکھ کر عشوہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوتی تھی۔ خود وہ بھی بہت سا پڑھنا چاہتی تھی۔
مگر وقت نے کچھ اور نصاب پڑھانا شروع کر دیا تھا۔
شادی کے دسویں مہینے عمیمہ اس کی گود میں آ گئی۔ ابھی عمر کو سمجھنا اور پڑھنا شروع کیا تھا۔ عمر کو جاننے کی کوشش ہی کی تھی جب عشوہ کی مصروفیت کا دائرہ کچھ پھیل گیا۔ چھوٹی سی بچی‘گھر کی ذمہ داری‘چچی امی کی بیماری… عروسہ کی الگ سے دیکھ بھال اور پھر عمر کے سدا کے نخرے‘دس دس منٹ بعد‘جوس‘اسکوائش اور الم غلم کی فرمائش۔
پڑھنے کے دوران اسے کچھ نہ کچھ چاہئے ہوتا تھا۔
عروسہ کی اسکولنگ بھی عشوہ کیلئے بڑا امتحان تھی۔ وہ ایک ضدی اور نخریلی بچی تھی۔ بالکل عمر کی طرح۔ صبح کے وقت عمر اور عروسہ اسے پھرکی کی طرح گھما ڈالتے تھے۔ اوپر سے عمیمہ بھی اگر کبھی وقت سے پہلے اٹھ جاتی تو عشوہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتاتھا۔ حالانکہ عمیمہ بہت صابر بچی تھی۔ عمر چیخ چیخ کر اسے بوکھلا کر رکھ دیتا تھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi