Episode 58 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 58 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”ہیلو سویٹی!“ عمر نے لیپ ٹاپ کا بیگ درمیانی میز پر رکھا اور خود قدرے جھک کر چٹاخ چٹاخ ایمن کے کئی بو سے لینے کے بعد سیدھا ہو گیا۔ آج بڑے دنوں بعد اسے سب سے لاڈلی اور چھوٹی بیٹی کا خیال آیا تھا۔ عمر کے”لاڈ“ بھرے انداز کو دیکھ کر بھی ایمن کے وجود میں جنبش نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہنوز سرجھکائے بیٹھی رہی۔
”ایمن بیٹا! کیا اسکول سے چھٹی مارنے کا ارادہ ہے؟“ وہ ایمن کی ہر نبض سے واقف تھا۔
اکثر و بیشتر اسکول نہ جانے کیلئے بھی وہ بہانے بنا لیتی تھی۔ کبھی پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور کبھی پورا جسم ٹھنڈا ہونے کے باوجود ایک سو تین بخار ہو جاتا۔
”نہیں…“ بالآخر ایمن نے سر کو دائیں بائیں ہلایا۔
”تو پھر؟“ عمر استفہامیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔ اس کے سرخ سرخ گالوں کے ڈمپل بھی خاموش تھے۔

(جاری ہے)

آنکھیں بھی خفا خفا سی تھیں۔

عمر کے دل کو کچھ ہونے لگا۔
”پاپا! ہماری آپ سے کٹی ہے۔“ ایمن نے سابقہ انداز میں جتا کر کہا۔
”شہزادی عالیہ! کیا وجہ جان سکتا ہوں؟“ اس پل عمر قطعاً مختلف لگ رہا تھا۔ اپنی اکھڑ فطرت کے بالکل برعکس۔ بیٹیوں میں سے بھی صرف ایمن کو ایسی توجہ اور محبت سے نوازا جاتا تھا۔ کچن کی کھڑکی میں سے یہ منظر صاف دکھائی دے رہا تھا اور نہ جانے کیوں ہر دفعہ ہی یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ خوشی کے ساتھ دل کچھ بھر بھی آتا تھا۔
آنکھیں نم ہو جاتیں اور ماضی کی بھول بھلیوں میں وہ کسی ایک بھی خوشگوار منظر کی تلاش میں سر گرداں تھک سی جاتی تھی‘مگر ذہن کی اسکرین ہنوز سپاٹ رہتی۔ کوئی رنگ بہت چاہنے کے باوجود بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔
”آپ جانتے ہیں پپا! ہم کیوں ناراض ہیں۔“ ایمن نے بسور کر سامنے رکھا دودھ کا گلاس ہاتھ سے قدرے دور کھسکا دیا۔
”اچھا…“ عمر کو سوچنا ہی پڑا۔
مگر یہ کیا؟ ایمن کی ناراضی کی کوئی بھی وجہ اس کی یادداشت میں محفوظ نہیں تھی۔ ویسے بھی ایمن اور عروسہ دونوں کو روٹھنے کا بلکہ گھڑی گھڑی روٹھنے کا مرض لاحق تھا۔ یہ اور بات تھی کہ ایمن کسی نہ کسی وجہ سے اور عروسہ بغیر کسی وجہ کے بھی کئی کئی گھنٹے روٹھنے کا شغل فرمائی تھی۔ پھر عمر ان کو مناتا تھا۔
”پاپا! آپ ہماری برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کرتے۔
آپ ہماری برتھ ڈے سیلیبریٹ کریں۔“ ایمن نے کہا تو عشوہ کے ساتھ ساتھ آملیٹ اور پراٹھے رغبت سے کھاتی عروسہ بھی چونک گئی۔
”ایمن! یہ کیا بے ہودگی ہے۔“ عشوہ نے سنبھل کر ایمن کو بری طرح سے ڈپٹا۔ ”خاموشی سے دودھ کا گلاس اٹھا کر پیو… میں تم دونوں کے لنچ باکسز لاتی ہوں۔“
”ہم نے کچھ غلط کہا ہے؟“ ایمن کی سبز آنکھیں شفاف پانیوں سے لبریز ہو گئیں۔
“ آپ نے کبھی ہمارا برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کیا۔ ہماری فرینڈز ٹھیک ہی کہتی ہیں۔“ وہ سوں سوں کرتے ہوئے بغیر رکے بولتی چلی گئی۔
”کیا کہتی ہیں تمہاری بے ہودہ فرینڈز؟“ عشوہ جو کچن کی طرف مڑنے لگی تھی‘پلٹ کر واپس آ گئی۔
”یہی کہ ہم بیٹے کی جگہ غلطی سے آ گئے ہیں‘سو اسی لئے…“
”ایمن!“ عشوہ کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
اس کا اٹھتا ہاتھ دیکھ کر عمر درمیان میں بول پڑا۔
”تم اپنا کام کرو۔ یہ میرا اور ایمن کا معاملہ ہے۔“ اس نے رکھائی سے عشوہ کی طرف بغیر دیکھے کہا۔
”یہ آپ کا اور ایمن کا معاملہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔“ اس کی بھرائی آواز اس کے جذبات کو شدت کو ظاہر کر رہی تھی۔
عشوہ چاہ کر بھی ایمن کی خواہش پوری نہیں کر سکتی تھی۔
ایک دفعہ کوشش کی بھی تھی‘مگر اس وقت عمر غصے میں آ گیا تھا اور عروسہ نے بھی رو‘رو کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ اب بھی وہی ہوا تھا۔ عروسہ نے ایک دم رونا شروع کر دیا۔ عمر‘روٹھی روٹھی ایمن کو بھول کر عروسہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”عروسہ! فار گاڈسک‘یہ کیا بچپنا ہے؟ خاموش ہو جاؤ! ایمن تو بچی ہے‘کچھ بھی کہہ سکتی ہے‘تم نے خواہ مخواہ دل پر لے لیا ہے‘ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
”میں کب منع کر رہی ہوں؟ شوق سے بچی کی خوشی پوری کر دیجئے۔ میرا دل تو ویسے بھی بھرا گیا ہے۔“ عروسہ کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئی تھی۔ اب کے عشوہ بھی بوکھلا کر رہ گئی۔
”عروسہ گڑیا! چپ کرو نا‘ایمن تو بس…“
عمر اٹھ کر عروسہ کے قریب آ گیا اور گھٹنوں کے بل دو زانو بیٹھ گیا۔ عروسہ کے ہاتھ اس کے ہاتھوں میں تھے اور وہ بہت نرمی‘بہت پیار سے اسے سمجھنا رہا تھا ”چچی امی کی وفات کا دن ہمارے لئے بھی اتنا ہی اہم ہے۔
تم دل چھوٹا مت کرو۔“
عمر کے سمجھانے بجھانے کا اتنا اثر ہوا تھا کہ عروسہ نے آنسو پونچھ لئے تھے اور اب وہ پھر سے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر کھانے لگی تھی۔ عمر بھی ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ ایمن بھی عروسہ کو روتا دیکھ کر اپنی ناراضی بھول چکی تھی۔ عموریہ ہمیشہ کی طرح خاموش تھی اور اسی خاموش کے ساتھ ساتھ دوسرا پراٹھا پلیٹ میں رکھے کھانے میں مصروف تھی۔
اس کے بارے میں سب کی متفقہ رائے تھی کہ وہ کھانے اور سونے کیلئے ہی دنیا میں آئی ہے۔ باقی کے معاملات اس کی بلا سے۔ چاہے کچھ بھی ہو‘اسے وقت پر کھانا چاہئے ہوتا تھا اور نیند بھی بہت ضروری تھی۔ صحیح معنوں میں وہ عمر کی ہو بہو کاپی تھی۔ نین نقوش سے لے کر عادتوں تک۔ بالکل باپ کی طرح بے حس۔
عشوہ نے ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے اک گہری طویل سانس کھینچی۔
اس کی نظریں اب عمیمہ کے چہرے پر تھیں۔ مضمحل سا اداس چہرہ۔ آج وہ یونیفارم میں نہیں تھی۔ یقینا اسکول سے چھٹی کا ارادہ تھا۔ مگر وہ ناشتہ بھی نہیں کر رہی تھی۔ اس کا پراٹھا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ دودھ کے نیم گرم گلاس پر بالائی کی تہ سی ابھر آئی تھی۔ انڈا بھی جوں کا توں پڑا تھا۔ عین اس لمحے جب عشوہ نے اپنی بھوک مٹتی محسوس کی تھی‘بالکل اسی پل اسی لمحے عمیمہ کی بھوک بھی خود بخود ختم ہو چکی تھی اور وہ محض دکھاوے کیلئے بھی ناشتہ نہیں کر سکتی تھی۔ عمیمہ کی عادتیں ہی نہیں‘مزاج بھی بالکل عشوہ کی طرح تھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi