Episode 63 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 63 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

وہ بیڈ روم میں آئی۔ عمر آفس کے کام میں مصروف تھا۔ عشوہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد معمول کی تسبیحات پڑھ کے واپس آئی۔ عمر نے اپنا کام سمیٹ لیا تھا اور اب ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ دودھ کا گلاس بھی خالی ہو چکا تھا۔ سو پہلے وہ خالی گلاس اٹھا کر کچن میں دھو کر رکھ آئی۔ رات کو گندے برتن رکھنے کی اسے عادت نہیں تھی۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی دادی اماں نے اسے گر کی باتیں گرہ میں بندھوا دی تھیں۔
یہاں آکر بھی اس نے اپنا معمول ترک نہیں کیا تھا اور کلثوم کو اس کی یہی عادتیں پسند تھیں۔ کلثوم کو کبھی اسے ٹوکنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔ وہ سارا سلیقہ اور قرینہ اپنی دادی اماں سے وراثت میں لے کر آئی تھی۔ کلثوم جب تک زندہ رہی تھیں‘اس سے ہمیشہ خوش رہیں۔
”آپ بچیوں کو جھوٹا لارا مت لگایئے گا۔

(جاری ہے)

ان کی چھٹیاں تو کچھ دنوں تک شروع ہو جائیں گی‘مگر ظاہر ہے‘میں سفر نہیں کر سکتی فی الحال… عید کی چھٹیوں میں بھی جانا ناممکن ہے‘پھر کبھی سہی‘گھومنا‘پھرنا اتنا ضروری بھی نہیں۔

”تو میں کون سا تمہیں ہنی مون پر لے جانے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔“ مجال ہے جو عمر بھی دل رکھنے کی بات کرے۔
”پندرہ سال بعد مجھے ہنی مون پر جانے کا کوئی شوق بھی نہیں‘جب وقت تھا‘تب لے کر نہیں گئے۔“ شکوہ لبوں سے پھسل ہی گیا تھا۔ اگرچہ عشوہ نے فوراً لب بھینچ لئے تھے‘مگر کمان سے نکلا تیر بھلا واپس آ سکتا تھا۔ عمر نے ایک مرتبہ پھر سے گردن موڑ لی۔
”یہ بھی میرا ہی قصور ہے؟“ عمر نے طنزیہ نظروں سے اسے گھورا۔ ”جب بھی کہیں آنے جانے کا پروگرام بنانے کا ارادہ ہوتا‘کبھی عمیمہ بیمار ہو جاتی‘کبھی عموریہ کو نمونیہ ہو جاتا اور کبھی ایمن کے آنے کی تیاریاں۔“
”نہیں جی! آپ بھلا کیونکر قصور وار ہیں‘سارے فساد کی جڑ تو میں ہوں۔“ اس نے لوشن کی بوتل کو زور سے ڈریسنگ پر پٹخا۔
عمر ایک دفعہ پھر چینل سرچنگ میں مصروف ہو گیا تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ریموٹ کو قبضے میں کر لیا۔
”پہلے میری بات سن لیجئے! مجھے سونا ہے۔ آپ بے شک پوری رات بیٹھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتے رہئے گا۔“
”سونے کے علاوہ تو تمہیں کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔“ وہ اس کے ہاتھ سے ریموٹ لینا چاہتا تھا‘مگر عشوہ نے غصہ کے مارے ریموٹ تکیے کے نیچے رکھ لیا۔ دن بھر ایک پل کیلئے بھی کمر نہیں ٹکا سکتی تھی ۔
عشوہ اس الزام پر تڑپ اٹھی تھی۔ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی‘صبح چار بجے کی اٹھی ہوئی رات گیارہ بجے بھی نہ سوتی۔
”یہ تم عورتوں کا ایک بڑا ہتھیار ہے‘تھک گئے‘ٹوٹ گئے‘مر گئے۔“
عمر تکیے کے نیچے سے ریموٹ نکال ہی چکا تھا اور ایک دفعہ پھر سے عمر کو ٹی وی کی طرف متوجہ ہوتا دیکھ کر عشوہ تپ اٹھی۔
######
جوں جوں اس کے دن قریب آ رہے تھے‘عمر کا موڈ بھی بگڑتا جا رہا تھا۔
اس کی طبیعت کی بے زاری نے عمر کو بھی خاصا بے زار اور چڑچڑا کر دیا تھا۔ طبیعت کے بوجھل پن کی وجہ سے عشوہ پر عجیب سی سستی طاری رہتی تھی اور نیند بھی ہر وقت حاوی رہنے لگی تھی۔ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا تھا‘سو عمر کا غصہ کرنا بھی بنتا تھا۔ انہی بوجھل اور اداس دنوں میں بچیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اور عشوہ کا بوجھ خود بخود بٹنے لگا تھا۔
عمیمہ اور عموریہ دونوں مل کر صفائی ستھرائی بھی کر لیتی تھیں۔ برتن بھی دھو دیتی تھیں۔ کپڑے اگرچہ عشوہ کو خود دھونے پڑتے تھے۔ تاہم استری عمیمہ کر لیتی۔ حتیٰ کہ سبزی وغیرہ بھی بنا دیتی۔
بھابھی بیگم عمیمہ اور عموریہ کو خاصی ذمہ داری سے کام کرتے دیکھ کر بے حد خوش ہو کر عشوہ سے کہتی تھیں۔ ”دیکھو! اللہ نے بیٹیاں دی ہیں تو آج انہوں نے بوجھ بھی تو بانٹ لیا ہے نا۔
اس دن عشوہ نے کالے چنے صبح سے بھگو دیئے تھے‘تاکہ پکانے سے پہلے کچھ نرم ہو جائیں اور خود وہ کچھ دیر کیلئے لیٹ گئی تھی۔ مگر اس کمبخت نیند نے برے وقت میں حملہ کر دیا تھا۔ جب وہ اٹھی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ عشوہ کے تو مارے خوف کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ عمر بس آنے ہی والا تھا‘بلکہ آ چکا تھا۔ لاؤنج میں عمر کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور لنچ میں اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔
اگر اس وقت وہ کسی ہوٹل سے کھانا منگوانے کی بات کر بھی لیتی تو عمر نے زمین آسمان ایک کر دینا تھا۔
”سارا دن بستر توڑتی ہو… اور کوئی کام نہیں ہوتا‘پھر بھی لنچ تک تیار نہیں ملتا۔ آئندہ آفس سے اٹھ کر نہیں آؤں گا۔“
وہ جانتی تھی۔ اس کا تھوڑی دیر آنکھ لگ جانے والا گناہ کم از کم آج کی تاریخ میں معاف نہیں ہوگا۔ لرزتے قدموں سے جوں ہی وہ باہر آئی‘اسے باہر کا ماحول دیکھ کر خاصا جھٹکا لگا تھا۔
وہ سب لاؤنج میں کارپٹ پر بیٹھے تھے۔ عمیمہ نے دستر خوان چن کر کھانا لگا رکھا تھا۔ وہ دو قدم چل کرمزید آگے آئی تو عمر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”شام تک سوتے رہنا تھا‘اب تم کچن سے ریٹائرڈ ہو جاؤ عشوہ! دیکھو تو عمیمہ نے یہ قورمہ اور چاول بنائے ہیں اور اللہ کی قسم! اتنے ٹیسٹی ہیں کہ میاں جی کے ریسٹورنٹ کا قورمہ یاد آ گیا ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا‘عمیمہ اتنی اچھی کوکنگ بھی کر سکتی ہے۔“

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi