Episode 64 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 64 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

عمر نے عمیمہ کے ماتھے پر بوسہ دے کر ایسے بے ساختہ انداز میں تعریف کی تھی کہ عمیمہ کے ساتھ عشوہ بھی اندر تک مسرور ہو گئی۔ بھلا آج تک عمر نے کب کسی کی تعریف کی تھی۔ ہاں! نقص نکالنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا۔ عشوہ نے قورمہ اور چاول چکھے تو واقعی عمر کی بات پر یقین آ گیا۔ عمیمہ نے فرسٹ ٹائم بغیر کسی سے پوچھے اتنا اچھا کھانا بنا لیا تھا۔
سو عشوہ کا ماں ہونے کے ناتے سیروں خون بڑھ گیا۔
”قورمہ کیسے بنایا ہے بیٹا!“ وہ عمیمہ کے قریب ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”ماما! دادی بیگم سے پوچھ کر آئی تھی۔“ عمیمہ کو جھوٹ بولنا مناسب نہیں لگا تھا۔ سو اس نے سچ بتا دیا۔
”پھر بھی دیکھو عشوہ! فرسٹ ٹائم اس نے قورمہ بنایا ہے اور وہ بھی اتنا خوش ذائقہ۔“ عمر سارا کریڈٹ اپنی بیٹی کو ہی دینا چاہتا تھا۔

(جاری ہے)

عمیمہ بہت خوش بھی تھی اور اپنی تعریف پر شرما بھی رہی تھی۔
”پاپا! میں نے ہیلپ کروائی تھی۔ پیاز میں نے کاٹی‘اتنے آنسو آئے تھے اور مرچیں بھی میں نے کاٹی تھیں۔ ابھی تک انگلیوں پر لگ رہی ہیں اور باقی سب اپیا نے کیا۔ روٹی بھی اپیا نے بنائی۔“ عموریہ بھی ٹھنک کر کچھ تعریف وصولنا چاہتی تھی۔ عمر نے بھی پھر تعریف کرنے میں کنجوسی نہیں کی تھی۔
یہ ساری کنجوسیاں صرف عشوہ کیلئے تھیں۔
”تب ہی میں کہوں‘سبز مرچ اور پیاز میں الگ سا ٹیسٹ کیوں محسوس ہو رہا ہے۔“ عمر آج واقعی موڈ میں لگ رہا تھا۔ ویسے بھی بادشاہ سلامت کے موڈ بدلنے کا پتا نہیں چلتا تھا۔
”تو پھر آئس کریم تو پکی ہوئی۔“ عموریہ کھانے‘پینے پر تو مرتی تھی۔
”بالکل پکی۔“ عمر نے انہیں بے طرح… خوش کر دیا تھا۔
”پپا جان! ہم بھی ایک بات سوچ رہے ہیں۔“ ایمن نے کافی دیر کی خاموشی کے بعد بڑے مدبرانہ انداز میں کہا تھا۔
”کون سی بات؟“
”ہم سوچ رہے ہیں کہ کوئی ڈش بنانا سکھ لیں‘تاکہ آپ ہماری بھی تعریف کریں۔“ اس نے گال پر انگلی رکھ کر اتنے بے ساختہ انداز میں کہا تھا کہ عشوہ اور عمر ایک ساتھ ہنس پڑے۔
”ہم آپ کی ویسے ہی تعریف کر دیتے ہیں شہزادی عالیہ! آپ کچن کو رونق بخش کر اپنی ننھی سی جان پر ظلم مت کیجئے گا۔
“ عمر نے ایمن کی ننھی سی ناک دبا کر کہا۔ وہ ہنس پڑی۔
عشوہ نے مسکراتے ہوئے بلا ارادہ ہی عروسہ کی طرف دیکھا تھا اور اس کے چہرے کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ عجیب کھوئی کھوئی سی کیفیت طاری تھی اس پر۔ یوں لگتا تھا کہ وہ یہاں موجود ہونے کے باوجود بھی موجود نہیں ہے۔ کسی اور جہاں‘کسی اور نگر میں محو پرواز ہے۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی سوچ کی پرچھائیاں تھیں‘نہ جانے وہ کیا سوچ رہی تھی‘کس خیال میں تھی۔
عشوہ کو اس کا کھویا کھویا سا انداز بہت عجیب لگ رہا تھا۔ تاہم اس وقت اس نے اسے ٹوکنا یا بلانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ مگر اس کے بعد بھی عشوہ نے بہت دفعہ اسے خاموش خاموش اور کھویا کھویا پایا۔ آج کل ایمن کے ساتھ اس کی کھٹی میٹھی لڑائیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔
عروسہ کی بھی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ مگر ان دنوں وہ گھر میں ہونے کے باوجود گویا گھر میں نہیں تھی۔
اس کا سارا دن نوری کے گھر میں گزرتا تھا جبکہ عشوہ چاہتی تھی کہ ان دنوں وہ بھی کچھ گھر داری سیکھ لے یا پھر کسی ٹریننگ سینٹر سے کوکنگ بیکنگ کا کورس وغیرہ کر لے۔ اس کا ارادہ تھا کہ عروسہ کے ساتھ عمیمہ کو بھی دو‘تین گھنٹے کیلئے بھیج دیا کرے گی۔ جب اس نے عروسہ سے یہی بات کی تو وہ بے زاری سے بولی۔
”موڈ نہیں بن رہا بھابھی! ابھی فی الحال ریسٹ کرنے کا ارادہ ہے۔
ابھی تو کالج سے جان چھوٹی ہے۔“
”دو‘تین گھنٹے کی تو بات ہے۔“ عشوہ اسے ہر صورت قائل کرنا چاہتی تھی۔
”عمر بھائی مان جائیں گے؟“
”میں ان سے بات کر لوں گی۔“ عشوہ مطمئن تھی۔
”تو پہلے بات کر لیں‘عین ممکن ہے کہ وہ انکار کر دیں۔“ عروسہ کا انداز کچھ استہزائیہ سا تھا۔ عشوہ کو برا لگا۔
”میں نے پچھلے سال بھی تمہارے لئے ان سے بات کی تھی۔
اس کام کیلئے وہ اعتراض ہرگز نہیں کریں گے۔“
”پھر بھی… آپ کے مجازی خدا کا مزاج بدلتے دیر نہیں لگتی۔“ عروسہ ایک میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی‘مگر اس وقت بھی عشوہ پورے یقین سے کہہ سکتی تھی کہ عروسہ ذہنی طور پر یہاں حاضر نہیں تھی۔ وہ اس کی باتوں کے جواب بغیر سوچے سمجھے دے رہی تھی۔
”دیکھو بیٹا! اگلے گھر بھی جانا ہے۔ یہیں تو نہیں بیٹھے رہنا۔
لوگ کیا کہیں گے۔ اپنی ماں نہیں تھی تو بچی کو کچھ سمجھایا‘سکھایا بھی نہیں۔“ عشوہ نے مشین لگا رکھی تھی۔ مشین کا بزر بجا تو وہ اٹھ کر چلی گئی۔ کپڑے نکال کر کھنگالنے‘نچوڑنے کے بعد الگنی پر پھیلا کر وہ واپس آئی تو عروسہ ہنوز اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔ اب کے عشوہ سچ مچ ٹھٹک گئی۔ نہ جانے کیا مسئلہ تھا۔ اسے کیا پریشانی تھی؟ آج سے پہلے عشوہ اسے یوں گم صم دیکھ کر ٹھٹکی تو ضرور تھی۔
تاہم اس نے اس قدر سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا تھا۔ مگر اس وقت تو وہ خاصی پریشان ہو گئی تھی۔ تبھی اس کے قریب بیٹھتے ہوئے وہ نرمی سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
”میں تمہیں کچھ دنوں سے کافی پریشان دیکھ رہی ہوں۔ اگر کوئی پرابلم ہے تو شیئر کر لو۔“ عشوہ کے لہجے میں ہمیشہ والی نرماہٹ تھی۔ عروسہ کچھ اور گھبرا گئی۔
”نہیں بھابھی! پرابلم کیسی۔
”پھر اتنی چپ چپ کیوں ہو؟“
”آپ کو ایسا فیل ہوتا ہے‘میں تو پہلے کی طرح ہوں۔“ اس نے مصنوعی بشاشت کا مظاہرہ کیا۔ مگر عشوہ بچی تو نہیں تھی جو بہل جاتی۔
”عروسہ! اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتا دو۔ میں تمہاری ماں‘ بہن‘بھابھی سب کچھ ہوں‘کیا پتا تمہاری پریشانی دور کردوں۔“
”آپ مجھ پر شک کر رہی ہیں؟“ وہ ناراضی سے گویا ہوئی۔
”آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں؟“ عروسہ چڑ گئی۔
”اعتماد کیوں نہیں‘مگر نہ جانے کیوں دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے۔“ وہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔
”چلو! نہیں بتاتا چاہتیں‘تمہاری مرضی۔ کھانے کا وقت ہونے والا ہے۔ سلاد بنا لو۔ اس طرح خاموش خاموش بیٹھو گی‘پھر تو میں چونکوں گی ضرور۔“ عشوہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اٹھ گئی۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi