Episode 66 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 66 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”میری بیٹی کیسے راستہ بھول آئی ہے؟“
”راستہ تو اچھی طرح سے یاد ہے بھابھی بیگم! مگر فرصت کا لمحہ بھر میسر نہیں۔“ وہ ان کے قریب ہی تخت پر بیٹھ گئی۔
”یہ تو ٹھیک کہا۔“ انہوں نے فوراً تائید کی تھی۔ ”عروسہ بھی تو ابھی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتی۔ بچیوں کے ساتھ چوتھی بچی بن جاتی ہے۔“
”کام تو کافی بٹ گیا ہے۔ عمیمہ اور عموریہ خاصا خیال رکھتی ہیں۔
بس طبیعت کے بوجھل پن کی وجہ سے میں گھر سے نکل نہیں پاتی۔“ اس نے سادگی سے وضاحت کی۔
”ماشاء اللہ عمیمہ بہت سمجھ دار ہے۔“ غوثیہ باجی کچن سے نمودار ہوئی تھیں۔ کچھ خفا خفا سی دکھائی دے رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر چلی گئیں۔ عشوہ نے بھی ان کے رویے پر زیادہ غور و فکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ورنہ غوثیہ باجی کے تیور دیکھ کر ٹھٹک ضرور جاتی کہ ان کی پیشانی پر خاص ناگوار سی سلوٹیں دکھائی دے رہی تھیں اور وجہ نجانے کیا تھی۔

(جاری ہے)

اگر وہ غور کرتی تو پھر وجہ ڈھونڈنے کا خیال بھی آتا۔
”بہت دن ہوئے ہیں۔ آپ نے چکر نہیں لگایا؟“ عشوہ بھی شکوہ کئے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔
”بس بیٹی! کچھ گھریلو پریشانی تھی۔ دل ہی نہیں مانا کہیں آنے جانے کو۔“ انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
”کیسی پریشانی؟“ عشوہ نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
”نوری کے رشتے کی کہیں بات نہیں بن پا رہی۔
بس اسی وجہ سے خاص پریشانی ہے۔“ انہوں نے صاف صاف بتا دیا تھا۔ ”آج کل لوگ بس اچھی شکل پر مرمٹتے ہیں۔ اخلاق‘تمیز‘خلوص سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔“
”نوری کی بات ایک جگہ چل رہی تھی؟“
”جواب دے دیا ہے ان لوگوں نے۔ انہیں کوئی اونچی‘لمبی‘گوری چٹی لڑکی پسند آ گئی تھی۔“ وہ بجھے لہجے میں بولی تھیں۔ ”اب اپنی عروسہ کو ہی دیکھ لو! ابھی بات چلاؤ۔
دس رشتے آ پڑیں گے۔ بس جی‘اپنے اپنے نصیب کی بات ہوتی ہے۔“
”اللہ بہتر کرے گا بھابھی بیگم! آپ فکر نہ کریں۔ جو کوئی اس کے جوڑ کا ہو گا۔ راستے بدل بدل کر ادھر آ نکلے گا۔“ اس نے ان کے گھنٹے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
”پوتیوں کی فکر نے آنکھوں سے نیندیں چرا لی ہیں۔ غوثیہ بھی کچھ پریشان ہے۔ اوپر سے بیٹا بھی مانو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔
“ ان کی مبہم سی بات عشوہ کے پلے نہیں پڑی تھی۔
”نوری کہاں ہے؟“ اس نے کچھ سوچ کر پوچھا۔ عروسہ بھی تو نظر نہیں آ رہی تھی۔
”میرے کپڑے سلائی کر رہی تھی۔ ابھی سونے کیلئے اٹھی ہے۔ میں نے سوچا‘کچھ آرام کر لے۔ سویرے کی مشین کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔“ بھابی بیگم نے مکمل کے دوپٹے سے سر لپیٹے ہوئے بتایا۔ نوری بے حد سلیقہ مند‘سگھڑ اور گھر گرہستی کو سنبھالنے والی لڑکی تھی اور کچھ بھابھی بیگم کے زیر تربیت اور بھی ہر فن میں طاق ہو گئی تھی‘مگر یہ دنیا اور اس کے ”معیار“ پر پورا اترنا کہاں آسان تھا۔
وہ خود کو ہی اگر دیکھ لیتی تو حیران ہو جاتی۔ صورت‘سیرت میں بے مثال‘ہرفن میں طاق‘ہر کام میں ماہر‘بس تعلیم کے معاملے میں کمی رہ گئی تھی اور یہ کمی گویا اس کی پوری زندگی پر محیط ہو گئی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اگر تعلیم یافتہ ہوتی تو ضرور عمر کے دل پر راج کرتی۔ بس اسی ایک کمی کی وجہ سے وہ خود کو ان چاہی تصور کرتی تھی اور ادھر نوری میں بھلا کیا کمی تھی۔
اچھے تعلیمی ادارے سے پڑھ رہی تھی۔ سلیقہ مند‘سمجھ دار۔ بس رنگ روپے میں خاصی کم تھی اور اسی وجہ سے ٹھکرائی جا رہی تھی۔ عشوہ بس تاسف سے سوچتی رہ گئی۔
”عروسہ کیا کر رہی ہے؟ آج صبح کا اس نے چکر نہیں لگایا؟“ بھابھی بیگم‘عروسہ کا پوچھ رہی تھیں جبکہ اس کا دل تو گویا دھک سے رہ گیا۔
”کیا مطلب؟ عروسہ یہاں نہیں آئی؟“ وہ گویا پوری جان سے کانپ کر رہی گئی‘مگر بھابھی بیگم پر کچھ ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
البتہ اس کے پورے وجود پر عجیب سی بے چینی چھا گئی تھی۔ دل تھا کہ فکر کے مارے سینے میں قلا بازیاں کھا رہا تھا۔
”عروسہ یہاں نہیں آئی تو پھر کہاں گئی ہے؟“ اس کا بس نہیں چل رہا تھا گویا سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلتی اور کہیں سے بھی اسے ڈھونڈ کر گھر لے آتی۔
”یا اللہ! میں کیا کروں؟ عمر تو مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ عروسہ اتنے گھنٹوں سے کہاں غائب ہے؟“
وہ بھابھی بیگم سے معذرت کرکے اٹھ آئی۔
گھر آکر اس نے عروسہ کے نمبر پر کئی مرتبہ ٹرائی کیا‘مگر فون بھی بند تھا۔ پھر اس نے فرداً فرداً اس کی ساری سہیلیوں کے گھر فون کئے۔ مگر وہ نجانے کہاں تھی؟ بغیر بتائے کدھر چلی گئی تھی؟
جوں جوں وقت آگے گزر رہا تھا۔ عشوہ کے حواس ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ دل تھا کے اندیشوں میں گھرا اور بھی سہما رہا تھا۔ اپنی اس پریشانی کو وہ بھابھی بیگم سے بھی شیئر نہیں کر سکی تھی۔
بھلا انہیں بتاتی بھی کیا؟ وہ عروسہ کے بارے میں کیا سوچتیں۔ گھر کی بات گھر سے باہر نکل جاتی تو پھر کیا عزت رہ جاتی۔
سوچ سوچ کر اس کے دماغ کی چولیں ہلنے لگی تھیں۔ پریشانی کے مارے چکر آ رہے تھے۔ تنگ آکر اس نے عمر کے موبائل پر کال کر دی تھی مگر عمر کا نمبر بھی آف جا رہا تھا۔ وہ پھر سے عروسہ کے نمبر پر ٹرائی کرنے لگی۔ اب وہ کبھی عروسہ کو کال کرتی تھی اور کبھی عمر کو۔
ہر تین منٹ بعد وہ یہی عمل دوہرا رہی تھی۔ ایک بار‘دو بار‘بار بار‘کئی بار۔ بس ایک ہی ٹیپ شدہ جواب ”مطلوبہ نمبر سے جواب موصول نہیں ہو رہا۔“ عشوہ کی تو گویا جان نکلی جا رہی تھی۔ نمبر ڈائل کر کرکے اس کی انگلیاں گھسی جا رہی تھیں۔ خوف کے مارے دل بند ہونے کے قریب تھا۔ جب اس کے وحشت زدہ دل میں ایک وسوسہ بالکل اچانک بیدار ہو گیا۔ اس وسوسے کے نمو پاتے ہی گویا عشوہ پورے قد سے ڈھے گئی تھی۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi