Episode 67 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 67 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”کیا عمر اور عروسہ ایک ساتھ ہیں؟ دونوں گھر نہیں آئے۔ دونوں کے نمبر آف ہیں؟ دونوں سے بات نہیں ہو پا رہی؟ کیا یہ سچ ہے؟“ اس کی ناگن جیسی سوچوں نے گویا اسے ہی ڈس لیا تھا۔ وہ ایک دم نیل نیل ہو گئی تھی۔
”کیا یہ سچ ہے؟ کیا یہ سچ ہے؟“ یہ سوال اسے کوڑوں کی طرح لگ رہا تھا اور ہر کوڑے کی ضرب اسے کراہنے اور چلانے پر مجبور کر رہی تھی‘مگر وہ کسی پتھر کی مورت کی طرح ساکت بیٹھی تھی۔
گویا اس کے وجود میں جان تک باقی نہیں تھی۔ وہ سانس تک نہیں لے رہی تھی۔ اس کی دھڑکنیں تک خاموش تھیں مگر وہ پھر بھی زندہ تھی۔ حالانکہ زندہ رہنے کو دل اب آمادہ بھی نہیں تھا‘مگر پھر بھی اسے زندہ رہنا تھا۔ اپنے ساتھ اس عظیم دھوکا دہی کے مرتکب لوگوں کے گریبان تک پہنچنا تھا۔ وہ ایسے منظر سے ہٹنا نہیں چاہتی تھی۔

(جاری ہے)

وہ اس طرح دنیا سے پردہ پوش نہیں ہونا چاہتی تھی۔

وہ اپنے مجرموں کی ہر حال میں رسوائی چاہتی تھی اور اس کیلئے عشوہ عمر کا زندہ رہنا ضروری تھا۔
اور جب وہ ان زہر آلود سوچوں کے سمندر میں غرق ہوتی مایوسی کی آخری حد تک پہنچی ہوئی تھی تب بہت چپکے سے عروسہ اس کے قریب آ رکی۔
”بھابھی…!“
”تم…“ عشوہ کے لہجے میں عجیب سی پھنکار تھی۔ ”کہاں گئی تھیں تم؟“
وہ گویا بل کھا کر اٹھی۔
غصے اور توہین کے احساس نے عشوہ کے حواس چھین لئے تھے۔ وہ عروسہ کا خوب صورت چہرہ نوچ لینا چاہتی تھی‘مگر ایک دم گویا اس کی تمام تر ہمتیں کسی نے سلب کر لی تھیں۔ اس سے بولا ہی نہ گیا۔ کچھ پوچھا ہی نہ گیا۔ وہ بس ٹکر ٹکر عروسہ کو دیکھتی رہ گئی تھی۔ حالانکہ وہ ایک پورا پرچہ تیار کئے بیٹھی تھی۔ مغلظات کا ایک طوفان اس کے اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا‘مگر اس کے ہونٹ گویا کسی نے سوئی کے ساتھ بے دردی سے سی دیئے تھے۔
”میں اپنی ایک دوست کے گھر گئی تھی۔“ اس کے لہجے کی کپکپاہٹ میں جھوٹ صاف عیاں تھا۔
”تم… تم جھوٹ بول رہی ہو۔“ عشوہ نے بمشکل بولنا چاہا تھا مگر بول نہیں پائی۔ دکھ‘صدمہ‘درد اور نجانے کون کون سی منزل سے وہ اس پل گزر رہی تھی۔ مان ٹوٹا تھا یا اعتبار ٹوٹا تھا۔ تاہم اس کا دل پاش پاش ضرور ہو چکا تھا۔
”بھابھی پلیز!“ وہ ہاتھ اٹھا کر تلخی سے بولی۔
”میرے سچ اور جھوٹ سے آپ کو کیا لینا دینا ہے۔ میرے معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ رکھائی سے کہہ کر اپنے کمرے میں بند ہو گئی عشوہ کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔ اس میں نہ ہمت تھی‘نہ حوصلہ‘بھلا وہ کیسے عروسہ اور عمر کے سامنے ڈٹ جاتی۔
######
دن چپکے سے گزرتے چلے گئے تھے۔ عشوہ کو گویا ایک چپ کی چاٹ لگ گئی تھی۔ دل میں خاموشیاں کیا اتری تھیں۔
اب ہنسنا اور بولنا ہی بھول گئے تھے۔ ایسے ہی اداس اور ویران دنوں میں فائق کی فون کال گویا اسے پھر سے زندہ کر گئی تھی۔
اس دن بھی وہ معمول کے کام کاج میں مصروف تھی‘جب عموریہ نے چیخ کر اسے آواز دی۔
”ماما! جلدی آیئے۔ ماموں کا فون ہے۔“
”فائق کا فون؟“ اس کے ہاتھ سے وائپر گر گیا تھا اور وہ نہ جانے کس طرح سے فون تک کا فاصلہ طے کرکے آئی تھی۔
ریسیور ہاتھ میں لیا تو گویا اشکوں کی جھڑی لگ گئی تھی اور جب وہ رو رو کر دل کی ساری بھڑاس نکال کر ہلکی ہو گئی تو پھر فائق نے بولنا شروع کیا۔
”کمال ہے آپا! تم نے پہلے ہی رونا دھونا شروع کر دیا ہے۔ تاکہ میں اپنے آنے کا ارادہ بدل لوں۔ میری کنجوس دل آپا کا اللہ بھلا کرے۔آپا! میں کسی ہوٹل میں ٹھہر جاؤں گا۔ تم رو‘رو کر مجھے اپنی غربت کی داستان سنانے کی تیاری مت پکڑو۔
“ دوسری طرف فائق اس کے بھرے بھرے دل کی وجہ سمجھے بغیر اپنی سنانے لگا تھا۔
”پگلے! میرا دل تو تیری آواز سن کر بھر آیا تھا۔ سو بسم اللہ کرکے آؤ۔ میرا تمہارے بغیر بھلا اور ہے ہی کون… اور یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔“ اس نے فی الفور اپنے آنسو پونچھ دیئے۔
”اللہ کی پناہ! یہ آنسوؤں کا دریا اگر خوشی کا تھا تو پھر غم کے سمندر کے بھلا کیا کہنے… آپا! نہ رویا کرو میری جان! کہیں پاکستان میں سیلاب ہی نہ آ جائے۔
“ فائق نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
”مسخرے! یہ بتاؤ‘کب آؤ گے؟ سچ‘میرا دل بڑا اداس ہو رہا ہے‘بس اپنی صورت آکر دکھا جاؤ۔“ اس کے حلق میں پھر سے آنسو اٹکنے لگے۔
”اپنے اداس دل کو ذرا خوش رکھنے کی کوشش کرو… اور آؤں گا تو میں تب جب مجھے تم اچھی سی کوئی خبر سناؤ گی۔“
”کیسی خبر!“ اس نے آنکھ کا کونا بے دردی سے مسل دیا۔
”میری دلہن تلاش کرنے کی خبر‘کوئی اچھی سی گڈ نیوز‘یعنی میری دلاری آپا اپنے سجیلے بھائی کیلئے ایک فل ٹائم میڈ دریافت کر چکی ہے۔
تاکہ میں آکر نکاح پڑھوالوں۔“ وہ اپنے ازلی شرارتی انداز میں کہہ رہا تھا۔
”کیا سچ…؟ میں تمہارے لئے لڑکی دیکھوں فائق؟“ عشوہ کا بجھا بجھا اندیشوں میں گھرا دل گویا کھل اٹھا۔
”انگریزی تو نہیں بولی آپا! جو تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔“ فائق نے گویا دہائی دی۔
”اچھا‘بتاؤ… لڑکی بھلا کیسی ہونی چاہئے؟“ وہ عروسہ اور عمر کی طرف سے دیئے گئے گھاؤ کو بھول کر قدرے بشاشت سے بولی۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi