Episode 68 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 68 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”بس لڑکی ہونی چاہئے‘کوئی شو پیس نہیں۔ گھر کا کام کاج جانتی ہو‘مطلب کھانا پکانا۔“ فائق نے وضاحت کی تھی۔
”تو پھر ٹھیک ہے‘تم بے فکر ہو جاؤ۔“ عشوہ نے دل سے کہا۔
”میں تو ہمیشہ سے بے فکر ہوں۔ غم پالنے کا کام تمہارے ذمے لگا رکھا ہے۔ ویسے آپا! تم بھی زیادہ فکریں مت پالا کرو۔ ٹینشن ہمیشہ دینے کی کوشش کرتے ہیں‘لینے کی نہیں۔“
وہ اپنے لا ابالی انداز میں کہہ رہا تھا۔
عشوہ کے دل میں کانٹا سا چبھا۔ دھیان ایک دفعہ پھر عروسہ اور عمر کی طرف چلا گیا تھا۔ ہمہ وقت اسے بس ایک ہی غم کھائے جا رہا تھا کہ اگر ایسا ویسا کچھ ہو گیا تو پھر اس کا اور اس کی بچیوں کا کیا بنے گا؟
”سچ آپا!“ فائق دلار سے بولا۔ ”بہت یاد کرتا ہوں میں تمہیں۔“
”اب مکھن مت لگاؤ۔

(جاری ہے)

“ عشوہ ہنس پڑی۔

”میں تمہارے لئے لڑکی ڈھونڈوں؟“ وہ ایک مرتبہ پھر یقین دہانی چاہ رہی تھی کہ فائق بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا تھا۔
”لڑکی کہیں گم ہے‘جو تم ڈھونڈنے کی مہم پر نکلنے کی اجازت چاہ رہی ہو آپا؟“ فائق بڑی معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔
”میری پسند کی ہوئی لڑکی سے شادی کر لو گے؟ یہ نہ ہو میں سارے معاملات طے کرلوں اور تم انکار کر دو۔“ عشوہ اس سے ہر بات کلیئر کر لینا چاہتی تھی۔ ظاہر ہے وہ کسی کی زندگی کے ساتھ بھلا کیونکر کھیلتی۔
”نہیں آپا! مجھے آپ پر پورا بھروسا ہے“ اب کے فائق سنجیدہ ہوا تھا۔
”اچھا! ایک لڑکی ہے میری نظر میں۔“ عشوہ کچھ سوچ کر پرجوش ہو گئی تھی۔ اس وقت وہ اپنی تمام تر فکر و پریشانی بھلا چکی تھی۔
”صرف ایک لڑکی؟“ فائق کو گویا دل کا دورہ پڑ گیا۔
”بکو نہیں۔“
”نہ جی‘آپ خفا کیوں ہوتی ہیں‘جیسے آپ کی مرضی۔“ فائق نے فوراً تابعداری کا مظاہرہ کیا تھا۔
عشوہ کافی دیر اس کی بونگیوں سے لطف اندوز ہوتی رہی تھی۔
فائق سے بات کرکے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ جلتے دل کو گویا قرار آ گیا تھا۔ فون رکھ کر جون ہی وہ ہٹی تو پہلی نظر عمر سے ٹکرائی تھی۔ وہ بڑی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ عشوہ کے دل میں عمر کیلئے نفرت ایک دم پھر سے امڈ آئی۔ وہ کترا کر اس کے قریب سے گزر جانا چاہتی تھی‘جب عمر کے سلگتے لہجے اور آواز کو سن کر ٹھٹک گئی۔
”فائق کو کم از کم مہینے میں ایک مرتبہ ضرور فون کر لینا چاہئے۔
تمہاری صحت کیلئے اس کے فون ناگزیر ہو گئے ہیں۔ پھر عید کے عید نہیں‘بلکہ ہر مہینے ہی تمہارے چہرے پر بھولی بھٹکی مسکراہٹ ہم مسکین لوگ بھی دیکھ لیا کریں گے۔“
”آپ نے مجھے دیکھ کر کرنا بھی کیا ہے؟ آپ کے دیکھنے کیلئے بے شمار سامان موجود ہے۔“ وہ سر سے لے کر پیر تک سلگ گئی تھی۔
”کبھی کبھی سمجھ داری کی بات بھی کرلیتی ہو۔“ اس نے عام سے انداز میں اسے چڑانا چاہا تھا۔
تاہم عشوہ نے بات کو اپنے ہی پیرائے میں لے لیا۔
”میں اور میری اوقات کیا ہے۔“
”سیانے لوگ اپنی اوقات پہچان ہی لیتے ہیں۔“ وہ طنزیہ بولا۔
”پورے پندرہ سال سے اپنی اوقات اور حیثیت کا تعین لگا رہی ہوں۔“ عشوہ نے بھرائی آواز پر بمشکل قابو پاکر کہا۔
”تو پھر نتیجہ کیا نکلا؟“ وہ بھنویں اچکا کر پوچھ رہا تھا۔
”نتیجہ صفر… ہم تو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔
اسے ایک دم اپنی توہین کے احساس نے زرد کر دیا تھا۔
”بھائی لطیفے سنا رہا تھا؟“ اب کے عمر نے موضوع بدل کر طنز کرنا شروع کر دیئے تھے۔
”ہاں“
”ہمیں بھی سنا دو… ہم بھی تھوڑی دیر کیلئے ہنس کھیل لیتے ہیں۔ دو‘تین کلو ہمارا بھی خون بڑھ جائے گا۔“
”آپ تو آل ریڈی لوگوں کا خون چوس چکے ہیں۔ مزید خون بڑھا کر بھلا کرنا ہی کیا ہے؟“ اس نے کشنز کے کورز اتارنے شروع کر دیئے۔
”کچھ تمہیں ادھار دے دوں گا‘آج کل تمہارا بلڈ پریشر لو ہو رہا ہے نا۔“
”میں آپ کے خود غرض خون سے ایسے ہی بھلی ہوں۔“ اس نے کلس کر سوچا۔
”جی نہیں! کوئی نہیں‘ ہماری ماما کے بارے میں ایسے مت بولئے۔“ ایمن پتا نہیں کب وہاں آئی تھی۔
”اگر بولوں تو پھر کیا کروں گی؟ اور اگر تمہاری ماما سے لڑائی کروں تو پھر کیا کرو گی؟ وہ جان بوجھ کر ایمن کو چھیڑ رہا تھا۔
”تو ہم آپ کو گھر سے نکال دیں گے۔“ ایمن نے گویا فیصلہ سنا دیا تھا۔ عشوہ کے ہاتھ سے جھاڑو چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
”ماں اتنی پیاری ہے کیا؟“ عمر نے صدمے کی شدت سے سنبھل کر پوچھا۔ اس کے اتنے لاڈ پیار کے باوجود ووٹ ماں کی طرف ہی تھا۔
”جی… ہمیں ماما ساری دنیا سے پیاری لگتی ہیں۔ ہم اپنی ماما کے بغیر نہیں رہ سکتے۔“ ایمن نے انگلی اٹھا کر گویا وضاحت کی تھی اور ساکت کھڑی عشوہ کو بیٹی پر گویا ٹوٹ کے پیار آ گیا تھا۔ وہ اتنے مضبوط ستونوں پر کھڑی تھی اور اس کے باوجود کئی طرح کے خدشات نے اس کی راتوں کی نیندیں تک چرا لی تھیں۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi