Episode 70 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 70 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”کرکٹ‘ہاکی‘والی بال‘فلم‘ڈراما‘سیاست‘سیاحت اور کچھ بھی…“ اس نے کندھے اچکا کر کہنا شروع کیا تھا۔
”ماشاء اللہ! لگتا ہے‘یہی سارا کچھ گھول کر تم اس بدنصیب آدمی کو کھلاؤ گی جس کے نصیب تمہارے ساتھ پھوٹیں گے۔“ عمر نے دودھ کا… گلاس خالی کرتے ہوئے مزے سے کہا تھا۔ عشوہ کے علاوہ اور سب کیلئے اس کی خوش مزاجی عروج پر ہوتی تھی۔
”میرا خیال ہے وہ دنیا کا خوش قسمت انسان ہوگا۔
“ عروسہ نے شرارتی انداز میں چہک کر کہا تھا اور اس کا چہکنا پسینے میں تربتر عشوہ کو بری طرح سے سلگا گیا تھا۔ اس نے غصے کے عالم میں برنر زور سے بند کیا۔
”اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں۔“
”یہی بڑا اور اصلی والا سچ ہے۔“ عروسہ ہنسنے لگی۔ اس کی گنگناتی ہنسی کی آواز نے لمحہ بھر کیلئے عشوہ کو بھی مبہوت کر دیا۔

(جاری ہے)

”یعنی اصلی دیسی گھی والا؟“ عمر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”دیسی گھی کا نام مت لیں‘عشوہ جی کو ابکائی آ جائے گی۔“ وہ عشوہ کو باہر نکلتا دیکھ کر چھیڑنے والے انداز میں بولی۔
”عشوہ جی کی صورت ہی… خیر سے کیا کہیں‘ہماری بات تو زہر کی طرح لگتی ہے جناب کو۔“
”صورت ہی منحوس ہے‘بات مکمل کر لینا تھی۔ بھلا ادھوری چھوڑنے کا فائدہ۔“ تپ تپ کر اس نے اپنی ساری تپش نکال دی تھی۔
”پپا! اسکول سے دیر ہو رہی ہے۔
“ عمیمہ کو بولنا پڑا۔ وہ ابھی ابھی یونیفارم پہن کر آئی تھی۔ ہاتھ میں عموریہ اور ایمن کے اسکول بیگ پکڑ رکھے تھے۔
”اور مجھے کالج سے دیر ہو رہی ہے۔“ عروسہ بھی ساتھ ہی کھڑی ہو گئی تھی۔ عموریہ نے بھی اس کے پراٹھے کو للچائی نظروں سے دیکھنے کے باوجود کھانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
”میں آفس سے لیٹ ہو چکا ہوں۔ کیا خیال ہے آج سارے چھٹی نہ مار لیں؟“ وہ ان سب کے کھلے کھلے چہروں کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔
بس ان میں عشوہ کا چہرہ حدپژ مردہ تھا۔ وہ حد درجہ بے زار دکھائی دے رہی تھی۔ بچیوں نے فوراً نعرہ لگایا۔
”نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ سب یونیفارم تبدیل کرنے اندر بھاگ گئے۔“
######
اس نے کہیں پڑھا تھا کہ شک ایک ناگ کی طرح ہوتا ہے جو آپ کی ہر خوشی کو ڈس لیتا ہے اور فکر آج کے دن کی چمکتی سنہری دھوپ پر آنے والے کل کے کالے بادلوں کے سائے پھیلا دیتی ہے۔
تنہا کڑھتے کڑھتے گویا وہ تھکنے لگی تھی۔ اس کا دل ایک ناسور بنتا جا رہا تھا جو بس پھٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
عمر اور عروسہ کی چھیڑ چھاڑ‘بے تکلفی پہلے کی طرح قائم دائم تھی۔ عشوہ سے اب یہ رنگین منظر دیکھے نہیں جاتے تھے۔
عشوہ صحن میں آکر تازہ ہوا کیلئے بیٹھ گئی تھی‘جب برابر والے گھر سے غوثیہ باجی آ گئیں۔ بڑے دنوں بعد انہوں نے چکر لگایا تھا۔
وہ کچھ الجھی الجھی سی لگ رہی تھیں۔ ایسے ہی باتوں کے دوران انہوں نے دبی آواز میں عشوہ سے کہا۔
”عروسہ کی کہیں بات وات چلاؤ۔ یہ نہ ہو پانی سر سے اونچا ہو جائے اور تمہارے ہاتھ کچھ نہ آئے۔“
”جی!“ وہ ساکت رہ گئی تھی۔
”پرائی لڑکی کی ذمہ داری بہت بھاری ہوتی ہے۔ مجھے عروسہ کے رنگ ڈھنگ ٹھیک نہیں لگ رہے۔“
غوثیہ باجی بولے جا رہی تھیں۔
”کیا غوثیہ باجی بھی عمر اور عروسہ کے متعلق سن گن پا چکی ہیں۔“ اس کا دل گویا دھک سے رہ گیا تھا۔
اور یہی بات بہت واضح اور صاف لفظوں میں ماسی نے بھی گویا عشوہ کے منہ پر دے ماری تھی۔ ماسی کو ان دنوں… عشوہ نے کپڑے وغیرہ دھونے کیلئے رکھا تھا۔ پورے محلے کا کام کرتی تھی۔ بھابی بیگم کی صفائی ستھرائی بھی کرتی تھی۔ بلکہ زیادہ قیام اس کا بھابھی بیگم کے گھر میں ہی ہوتا تھا۔
بیوہ عورت تھی اور بے اولاد بھی… بھابھی بیگم بلا کی خدا ترس خاتون تھیں۔ انہوں نے اسے ٹھکانہ فراہم کر دیا تھا۔
بات کچھ یوں ہوئی۔ عروسہ معمول کی طرح عمر کے کندھے سے لٹکی نہ جانے کیا فرمائش کر رہی تھی۔ پہلے پہل تو عمر مان نہیں رہا تھا اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر عروسہ کو لئے باہر نکل گیا۔ حالانکہ ایمن نے بھی ساتھ جانے کیلئے ضد کی تھی‘مگر عمر نے اسے ڈانٹ کر خاموش کروا دیا۔
”ہوم ورک کرو آرام سے بیٹھ کر۔ میں آکر تم تینوں کا ٹیسٹ لو گا۔ جو تیاری کرنی ہے کر لو۔“
”وہ گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا تھا اور عروسہ بھی اس کے پیچھے قلانچیں بھرتی بھاگ گئی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کر عشوہ کی آنکھوں میں دھواں بھر گیا۔
”عشوہ بیٹی! ایک بات کہوں؟“ ماسی نے جھجھکتے ہوئے پوچھا تھا۔
”بولو ماسی!“ عشوہ کو اندازہ نہیں تھا۔
ماسی کون سا دھماکا کرنے والی ہے ورنہ اسے کچھ بولنے کا موقع ہی نہ دیتی۔ وہ یوں تو اس کے پرخچے نہ اڑا کر جاتی۔
”بیٹی! اپنی عروسہ بیٹا کو سمجھاؤ‘وہ جو کر رہی ہے ٹھیک نہیں۔“
”کیا کر رہی ہے؟“ عشوہ چونک گئی۔
”بیٹا! منہ چھوٹا ہے‘بات بڑی ہے۔“ ماسی تذبذب کا شکار تھی۔ عشوہ کے گویا پورے وجود میں بے چینیاں اتر گئی تھی۔
”ماسی! بولو بھی۔“ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوڈچھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi