Episode 71 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 71 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”بیٹا، عروسہ کو کہو! یہ سب ٹھیک نہیں۔ میں نے خود عمر باؤ کے ساتھ عروسہ کو بہت دفعہ گاڑی میں بیٹھ کر آتے جاتے دیکھا ہے‘کالج یونیفارم میں۔ عروسہ کی عمر کچی ہے‘ماں‘باپ کا سایہ نہیں۔ بہتر یہی ہے تم ابھی سے سنبھال لو۔ معاملہ بگڑ گیا تو ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔“ ماسی تو چلی گئی تھی‘مگر عشوہ کو گویا جیتے جی مار گئی۔
”عمر اور عروسہ… چھپ چھپا کر ملنا ملانا… کالج یونیفارم میں‘یعنی وہ کالج کے بہانے عمر کے ساتھ چلی جاتی ہے اور عمر کو دیکھو! میری ناک کے نیچے کون کون سے ڈرامے ترتیب دیئے جا رہے ہیں… اور میں ابھی تک خاموش ہوں۔
کیا مجھے کسی بڑے نقصان کا انتظار ہے؟ میرے ہونٹ کب کھلیں گے‘جب کوئی بہت بڑا حادثہ پیش آ گیا؟“ وہ گویا سن ہوتے دماغ کے ساتھ سوچ رہی تھی اور اس کے کانوں میں بھابھی بیگم‘غوثیہ باجی اور ماسی کی آوازیں گویا پگھلا ہوا سیسہ بنی اتر رہی تھی۔

(جاری ہے)

”عروسہ‘اور عمر… ان کے میل جول‘ملاقاتیں…“
”نہیں! میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی‘چاہے مجھے اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانا پڑے۔
میں اپنا گھر اجڑنے نہیں دوں گی‘بلکہ اس ناگن کا سر کچل کر اسے مار ڈالوں گی۔“
وہ گویا دہکتے انگاروں پر ننگے پیر چل رہی تھی۔ اب تو شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔ اس کے یقین پر گویا مہر لگ گئی تھی اور اسے بھی صرف عمر کے آنے کا انتظار تھا۔ وہ پچھلے دو دن سے آفس کے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا تھا اور عشوہ گویا ایک ایک پل گن گن کر گزار رہی تھی۔
نہ جانے نیند میں کس احساس کے تحت اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ بے قراری اس حد تک بڑھی تھی کہ دوبارہ نیند مہربان ہی نہ ہوئی۔ وہ اٹھ کر ننگے پیر کچن میں آ گئی۔ دو گلاس پانی پی کر کچھ دیر کیلئے وہ لاؤنج میں ٹہلتی رہی‘پھر بچیوں کے کمرے میں جھانکنے لگی۔ وہ تینوں ہی بے خبر سو رہی تھی۔ برابر میں عروسہ کا کمرہ تھا۔ کچھ سوچ کر وہ اس کے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑے ہو گئی۔
دروازہ اندر سے مقفل تھا۔ عروسہ کی آواز بالکل صاف انداز میں اس کی سماعتوں میں اتر رہی تھی۔
”میں کچھ نہیں جانتی عمر! اگر آپ نے میرے ساتھ شادی نہیں کرنی تو صاف بتا دیں۔ میں آپ کی واپسی تک کا انتظار کر رہی ہوں۔ مجھے دنیا کی کوئی پروا نہیں۔ ہم اسی ہفتے نکاح کر لیں گے۔ میں آپ سے کہہ بھی رہی تھی کہ مجھے ساتھ لے جائیں۔ ہم شہر سے باہر نکاح کر لیتے۔
“ عروسہ کی بھرائی آواز میں غصے کی آمیزش صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
”دنیا والوں کی پروا کریں گے تو ہمارے دل حقیقی خوشی سے دور ہو جائیں گے۔ میں آپ سے محبت کرتی ہوں اور آپ مجھ سے محبت کے دعویدار ہیں تو پھر… لوگوں کی طرف مت دیکھیں۔“
عروسہ گویا سسک اٹھی تھی۔ عشوہ سے مزید سننا دشوار ہو گیا۔ اس کی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی۔
سر سے لے کر پیروں تک وجود پسینے سے شرابور تھا۔
”آپ بھی مجھ سے محبت کے دعویدار ہیں عمر!“
عشوہ زندہ نہیں تھی۔ ان چند لفظوں کے کوڑوں نے اسے مار ڈالا تھا۔ عمر اس سے محبت نہیں کرتا تھا‘مگر وہ اس کے مزاج کے ہر رنگ سے سمجھوتا کئے ہوئے تھی۔ شاید اس لئے کہ وہ عمر کی محبت میں اوائل عمری سے ہی مبتلا ہو گئی تھی۔ وہ عمر کو چاہتی تھی‘بے حد و حساب‘اسی لئے تو اس نے اپنی ذات کو اس گھر کی خاطر مٹا دیا تھا۔
عمر سے وابستہ ہر رشتے سے محبت کی تھی۔ مگر عمر نے بھلا کس مقام پر اسے دھوکا دیا تھا؟
اگر وہ کسی دوسری عورت کو پکڑ کر لے آتا اور یہ تعارف کرواتا کہ وہ عمر کی بیوی ہے تو عشوہ کبھی ”اف“ تک منہ سے نہ نکالتی۔ مگر جسے اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا تھا۔ اسے عمر کے برابر کھڑے دیکھنے کا اس میں حوصلہ نہیں تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر سے صبر اور برداشت کے اسباق یاد کرنا چاہتی تھی‘مگر عروسہ کی آواز گویا لمحہ بھر میں اسے لہولہان کر دیتی۔
”نہیں عروسہ! تم نے اچھا نہیں کیا۔ یوں کسی کے پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپتے۔ میں ظالم نہیں بننا چاہتی۔ مگر تم نے مجھے ظلم کرنے پر اکسا دیا ہے۔“ وہ اندر ہی اندر گویا پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ مگر ایک بھی آنسو اس کی آنکھ سے نہیں گر پایا تھا۔ اس بھیانک رات کا اختتام ہو ہی گیا تھا اور اسے جس صبح کا انتظار تھا۔ وہ اس کے آنگن میں اتر آئی تھی۔
عمر نے اس گھر میں قدم رکھا تو جیسے وہ نیند سے جاگ اٹھی۔ حالانکہ وہ سوئی کہاں تھی۔ بس بے خبری میں ماری گئی تھی۔
وہ عمر کے کمرے میں آنے کا انتظار کرتی رہتی تھی۔ مگر عمر بیڈ روم میں آنا گویا بھول گیا تھا۔ عشوہ کو اٹھ کر باہر نکلنا ہی پڑا۔ وہ سیدھا عروسہ کے کمرے میں چلا گیا تھا۔ عشوہ پھر سے لہولہان ہو گئی۔
”میں مر جاؤں گی‘میں نہیں رہ سکتی‘میں محبت کرتی ہوں… اور محبت کرنا جرم نہیں۔
مجھے کسی کی پروا نہیں‘مجھے اپنے دل کی خوشی چاہئے۔“ عروسہ‘عمر کے کندھے سے لگی سسک رہی تھی اور عمر اس کے بال سہلا رہا تھا۔ عشوہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی۔ تاہم اس کی آواز نے عشوہ کے پیروں تلے انگارے بچھا دیئے۔
”تم فکر مت کرو‘پلیز عروس! مت رویا کرو‘تمہارے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔ خود کو سنبھالو‘یہ کیا بچپنا ہے۔
”مجھے کچھ نہیں چاہئے‘مجھے عمر چاہئے۔“ وہ بچوں کی طرح مچل رہی تھی۔ عشوہ کی شریان گویا پھٹنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ وہ اپنی ٹانگیں گھسیٹتے ہوئے بمشکل اپنے کمرے میں آئی تھی‘جب الجھا الجھا عمر بھی بیڈ روم میں داخل ہوا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi