Episode 72 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 72 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”السلام علیکم!“ وہ ٹائی کی ناٹ کھول کر صوفے پر ڈھے گیا تھا۔ وہ سفر سے اتنا تھکا نہیں آیا تھا‘جس قدر ایک بے نام سی پریشانی نے اسے تھکا ڈالا تھا۔
”کچھ چائے وغیرہ پلا دو‘سر میں شدید درد ہے۔“ عمر اپنی کنپٹیاں دبا رہا تھا۔ پھر اٹھ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ جب واپس آیا تو عشوہ کو ہنوز کھڑے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھ جاؤ‘طبیعت تو ٹھیک ہے؟ بڑی مشکل سے جان چھڑا کر آیا ہوں‘تمہارے دن بھی تو قریب ہیں‘بلکہ یہی کچھ گنتی کے دن۔
“ وہ بولتے ہوئے اس کے قریب چلا آیا۔
”خیر تو ہے؟“
”میری ناک تلے کون سا کھیل رچا رکھا ہے؟ مجھے پاگل‘احمق اور بے وقوف سمجھتے ہو کیا؟“ عشوہ ایک دم گویا ضبط کی تمام تر طنابیں چھوڑ بیٹھی تھی۔
”شرم نہیں آتی عشق کے کھیل رچاتے ہوئے؟ گھٹیا آدمی! اپنے مرتبے اور مقام کو ہی دیکھ لیتے۔

(جاری ہے)

عروسہ تمہاری بیٹی سے کچھ ہی بڑی ہے۔“ وہ اس کا گریبان پکڑ کر چیخ رہی تھی۔

”جو تم دونوں سوچ رہے ہو‘پلان کر رہے ہو‘میں وہ سب کچھ نہیں ہونے دوں گی‘اپنی جان ہار دوں گی‘مگر تمہیں عروسہ سے نکاح نہیں کرنے دوں گی۔ بے حیا آدمی! نقب لگانے کیلئے اپنا ہی گھر ملا تھا؟“
چٹاخ… عشوہ کے لبوں پر گویا اس تھپڑ نے قفل لگا دیا تھا‘مگر دوسرے ہی پل یہ قفل خود بخود تڑخ گیا۔
”مارو‘اور مارو مجھے… جتنا چاہا ہو مار لو‘مگر میں ساری دنیا کو چیخ چیخ کر اکٹھا کر لوں گی‘تمہارا ایک ایک کرتوت دکھاؤں گی۔
”بکواس بند کرو عشوہ!“ عمر یک دم دہاڑا۔
”تم مجھے خاموش نہیں کروا سکتے۔“ وہ زہر خند ہوئی۔
”تمہیں آخر ہوا کیا ہے؟“ عمر حد درجہ مشتعل ہو گیا تھا۔
”میں نے تمہارے کریہہ روپ کا ایک نظارہ دیکھ لیا ہے۔ مجھے کراہیت آ رہی ہے‘تمہارے وجود سے۔“ عشوہ کے ہونٹ گویا زہر آلود ہو گئے۔
”تم جو سمجھ رہی ہو‘ایسا کچھ نہیں ہے۔
میں تمہیں بتاتا ہوں احمق عورت!“ وہ کچھ بولنا چاہ رہا تھا‘مگر چپ ہو گیا۔
”مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہئے‘میں عروسہ کو اس گھر میں رہنے نہیں دوں گی۔“ وہ اپنے حواسوں میں کہاں تھی۔ عمر کی آنکھیں لہو رنگ ہو گئیں۔
”یہ گھر عروسہ کا بھی ہے‘تم اسے یہاں سے کیسے نکال سکتی ہوں؟“ اس کے الزام در الزام نے گویا عمر کو بھی حد درجہ آگ بگولا کر دیا تھا۔
”یہ گھر میرا ہے۔“ وہ پھنکاری۔
”کیا جہیز میں لائی تھیں؟ یہ ہمارا گھر ہے‘یعنی میرا اور عروسہ کا۔ تم کون ہوتی ہو اسے گھر سے نکالنے والی؟ عمر کے طنزیہ انداز نے اسے اور بھی کھائل کر دیا۔
”یہ میرا گھر نہیں؟“ وہ صدمے کی شدت سے پھٹی پھٹی آواز میں بولی۔
”نہیں۔“ عمر رکھائی سے گویا ہوا۔
”تو پندرہ سال میں نے ایسے ہی گزار دیئے‘اس گھر کی خاطر اپنی ہر خوشی اور ہر سکون کو تیاگ دیا۔
یہ پھر بھی میرا نہیں‘تو پھر یہاں کیوں ہوں؟“ وہ اس کی شرٹ پکڑے اپنے حواس چھوڑ بیٹھی تھی۔
”تاکہ تم آرام سے شادیانے بجا لو؟“ وہ غصے میں تہذیب‘تمیز سب بھول چکی تھی۔
”عشوہ!“ عمر چلایا۔ ”میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔ عروسہ کے بارے میں ایک بھی نازیبا لفظ مت منہ سے نکالنا۔“
”تم دونوں غلیظ اور بے غیرت ہو۔ خود غرضی تم دونوں کے خون میں رچی ہے۔
یہ میری بدقسمتی تھی جو میں جان ہی نہیں پائی۔“
”عشوہ! وہ گویا خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا۔
”تمہیں شرم نہیں آئی۔ عروسہ سے محبت کے ڈھونگ رچاتے ہوئے؟ اسے کالج سے لے کر کہاں غائب ہو جاتے تھے؟ تم جو سمجھ رہے تھے کہ میں کچھ جان نہیں پاؤں گی‘سب پتا چل گیا ہے مجھے تمہارے گھناؤنے کاموں کا۔“ اس کا ذہن گویا ایک نقطے پر ٹھہر گیا تھا۔
”تم دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔“ وہ آگ بگولا ہو اٹھا۔
”میں خود لعنت بھیج کر جای رہی ہوں تمہارے اس گھر پر۔ نہیں آؤں گی واپس۔ کبھی نہیں۔“ عشوہ اٹھ کر روتے ہوئے ننگے پیر گھر سے نکل آئی تھی۔ غصہ حرام ہوتا ہے‘ہوش و حواس سلب کر لیتا تھا۔ غصے نے عشوہ کے حواس پر بھی اپنے پنجے گاڑ دیئے تھے۔ ورنہ وہ اتنا بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی موجودہ حالت کی طرف ہی غور کر لیتی۔
جس وقت وہ بھابھی بیگم کے گھر میں داخل ہوئی۔ پورے گھر پر سناٹے کا گویا راج تھا۔ نہ جانے سب کہاں تھے۔ ایک لحاظ سے بہتر ہی تھا۔ اسے سنبھلنے کیلئے موقع مل جاتا۔ وہ تھکے تھکے قدم اٹھاتے ہوئے اندرونی حصے کی طرف آ گئی تھی‘جب گول کمرے سے آتی آواز نے اسے بری طرح سے ٹھٹکا دیا۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi