Episode 73 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 73 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

عشوہ کو اک پل کیلئے لگا تھا گویا وہ پورے قد سے زمین بوس ہو جائے گی۔ اس قدر زور سے چکر آیا تھا۔ اگر وہ دیوار کا سہارا نہ لیتی تو سچ مچ ڈھے جاتی۔ اس نے ایک دفعہ پھر اپنے حواس مجتمع کرکے کچھ سننے کی کوشش کی تھی۔
”میں شادی کروں گا تو عروسہ سے۔ اگر آپ عمر بھائی سے بات نہیں کریں گی تو مجبوراً مجھے دوسری راہ کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ یعنی میں کورٹ میرج کر لوں گا۔
“ یہ آواز عمر کی تھی۔ عمر امان کی۔ غوثیہ باجی کا بیٹا‘بھابھی بیگم کا پوتا اور نوری کا بڑا بھائی۔
”جس قدر اتاؤلا ہو رہا ہے۔ یہ لڑکا۔ ذرا شرم نہیں۔ جوان بہن گھر میں ہے۔ اس کی کہیں بات طے نہیں اور صاحبزادے کو اپنے شادیانے بجانے کی پڑی ہے۔“ غوثیہ باجی کے خیالات بھی کچھ پرانے قسم… دیکھا جائے تو یہ غلط بھی تھا۔

(جاری ہے)

عمر امان‘نوری سے آٹھ سال بڑا تھا۔

برسر روزگار تھا۔ شکل و صورت واجبی سی تھی۔ اگر وہ شادی کیلئے اصرار کر رہا تھا تو پھر غوثیہ باجی کو نوری کا معاملہ سامنے رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر نوری کی خدانخواستہ چار‘پانچ سال تک شادی نہ ہوتی تو اتنی دیر عمر امان کو بٹھائے رکھنا کہاں کا انصاف تھا۔ اسی لئے معاشرے میں برائیاں جنم لیتی ہیں۔ مگر ہم لوگ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ادھر عشوہ کے بدن میں گویا لہو تک باقی نہیں رہا تھا۔ اس کے الفاظ‘اس کی گھٹیا سوچ اور اس کا شک سب اس کے منہ پر آ پڑے تھے۔
مارے شرمندگی کے اس سے سر نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ جو کچھ وہ عمر سے کہہ آئی تھی۔ وہ سب واپس نہیں پلٹ سکتا تھا۔ اس کے لفظ ہی نہیں وہ خود بھی بے مول ہو گئی تھی۔ خفت‘ذلت اور شرم نے اس پر بیک وقت حملہ کر دیا تھا۔
اتنی صاف ستھری‘واضح اور سامنے کی بات تھی‘مگر اس کے ذہن کی کھڑکی کھل ہی نہیں سکی۔ اس کا شک عمر کے اردگرد ہی گھومتا رہا تھا۔
وہ عمر فاروق اور عمر امان میں فرق سمجھ ہی نہیں پائی۔
اور اب جو ندامتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ گویا پسینہ پسینہ ہو گئی۔ وہ عمر کا سامنا بھلا کیسے کر پائے گی۔ یہی سوچ اسے مار ڈال رہی تھی۔ جو گندے الفاظ اور مغلظات اس کے منہ سے نکل چکے تھے۔
جو کچھ وہ کہہ چکی تھی۔ وہ سب واپس تو نہیں آ سکتا تھا۔ البتہ ایک تسلی تو یہ تھی کہ عروسہ سے کوئی بھی غلط بات نہیں کی تھی ورنہ تمام عمر اس سے بھلا کیسے نظر ملا کر بات کر سکتی تھی۔
شرمندگی کا بوجھ زیادہ تھا یا پھر پچھتاوے کا۔ ایک دم ہی اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ کمر سے اٹھتی ٹیسوں نے اسے بے حال کر دیا تھا اور جب وہ فرش پر گر رہی تھی تب اس نے نوری کی آواز سنی۔
”امی! جلدی آیئے عشوہ بھابھی کو دیکھیں۔ ہائے‘اللہ! یہ تو بے ہوش ہو گئیں۔“ وہ چیخ رہی تھی۔ آناً فاناً سب جمع ہو گئے تھے۔ عشوہ کو بھابھی بیگم‘ڈاکٹر کوثر کے کلینک لے گئی تھی۔ جہاں اس نے قبل از وقت فجر کے قریب ایک صحت مند سے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
شام تک اسے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔
واپسی پر جوں جوں گھر قریب آ رہا تھا۔ اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔
گھبراہٹ اور خوف نے حواس معطل کر دیئے تھے۔
گاڑی رک گئی تو بھابھی بیگم نے سہارا دے کر اسے باہر نکالا۔ جوں ہی گیراج میں کھڑی عمر کی گاڑی پر ان کی نظر پڑی وہ گویا کھل اٹھیں۔
”خیر سے عمر گھر آ گیا ہے۔“
”عمر رات سے گھر میں ہی موجود ہے‘مگر اس نے میرا پیچھا ہی نہیں کیا۔ یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں ہوں کہاں؟ گھر سے نکل کر کہاں گئی؟ کدھر گئی؟ نہ میکہ تھا‘نہ سسرال اور نہ ہی کوئی عزیز رشتہ دار تھا۔
اس نے بھلا جانا ہی کہاں تھا؟ مگر عمر نے برابر والے گھر سے بھی اس کے بارے میں نہیں پوچھا؟“
بھابھی بیگم بچے کو گود میں چھپائے اسے لئے کمرے میں آئی۔ عمران دونوں کو دیکھ کر ٹھٹکا نہیں تھا۔ یقینا نوری نے اسے اطلاع دے دی تھی۔ بھابھی بیگم نے اسے بیڈ پر بٹھا کر بچے کو زبردستی عمر کی گود میں دے دیا۔
اسی پل دھاڑ سے دروازہ کھلا تھا۔
عروسہ اور اس کے پیچھے تین اور گورے گورے چہرے جھانکنے لگے تھے۔
”پاپا!“ ایمن گویا چیخ اٹھی۔ یہ کون ہے؟“
”ایمن کا بھائی۔“ عمر گویا کھل کر مسکرا دیا۔
”صرف ایمن کا بھائی۔” عمیمہ اور عموریہ چیخی۔
خوشی گویا ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
”یہ تو پورا میرے جیسا ہے۔ ناک‘آنکھیں اورہونٹ بھی۔“ چھوٹا سا گڈا اب عروسہ کی گود میں منتقل ہو گیا تھا۔
”جی نہیں! میرے جیسا ہے۔“ ایمن چیخی۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi