Episode 74 - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

قسط نمبر 74 - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

”شور نہیں کرو بیٹا! تمہاری ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ بھائی کو گود میں اٹھانا ہے تو اسے باہر لے آؤ۔ میں غوثیہ سے کہتی ہوں۔ عشوہ کیلئے یخنی بنا لائے۔“ بھابھی بیگم بچیوں کو لے کر باہر نکل گئی تھیں۔ عروسہ بھاگتی ہوئی اس تک آئی۔
”عشوہ بھابھی! آپ نے تو کمال کر دیا ہے۔ عمر کے ساتھ شادی کا ارادہ بدل دیا ہے۔ میں تو اپنے اس چھوٹے سے گڈے کے ساتھ شادی کروں گی۔
“ وہ اس سے بے ساختہ لپٹ گئی تھی۔ بڑا ہی معصومانہ قسم کا انداز تھا۔ عمر پاس ہی کھڑا تھا۔ اس موقع پر بھی طنز کرنے سے باز نہیں آیا۔
”اور جس کے نام کے وجہ سے فساد مچا ہوا ہے‘اس کو کدھر جانا ہے؟“
”بھاڑ میں جائے۔ جب غوثیہ آنٹی نہیں مان رہیں تو پھر مجھے بھی ان چاہا بن کر جانے کی ضرورت نہیں۔“ اس نے ناک چڑھا کر اپنے ہنوز پرانے انداز میں کہا تھا۔

(جاری ہے)

”یہ تو عمر میرے پیچھے پڑا تھا اور پھر مجھے بھی اس سے محبت ہو گئی۔“
”اتنی عقل کہاں سے خریدی ہے؟“ عمر نے پھر طنز کیا۔
”عمر بھائی! اس خوشی کے موقع پر تو بخش دیں۔“ عروسہ کھلکھلاتے ہوئے بولی۔“ ویسے بھی سارا دن کچھ نہیں کھایا‘اتنا پریشان رہے۔“
”اور جو بھابھی بیگم کے گھر سے یریانی آئی تھی‘وہ کہاں گئی؟“
”وہ ہم سب کے پیٹ میں… ویسے بھابھی! جلدی ٹھیک ہونے کی کوشش کریں۔
عمیمہ کی کوکنگ اتنی بھی اچھی نہیں ہے۔“ عروسہ نے دہائی دی۔
”بھابھی! تو تم سے خدمت کروا کر ہی اٹھیں گی۔“ عمر اطمینان سے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”اور میں بھابھی کی خدمت ضرور کروں گی۔ ہمیں اتنا پیارا تحفہ جو دیا ہے۔“ وہ اس کے گال چوم کر بھاگ گئی تھی۔
وہ دل ہی دل میں ایک مرتبہ پھر سے اللہ کا شکر ادا کرنے لگی تھی کہ اس نے اسے کم از کم عروسہ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا۔
انسان غلط فہمی اور شک کی بنا پر بڑی بڑی غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ کچھ ایسی غلطیاں جن کا ازالہ ہونا ممکن ہی نہیں ہوتا‘مگر وہ پھر بھی اپنے رحیم رب کی شکر گزار تھی کہ وہ واپس اپنے ٹھکانے پر آ چکی تھی۔ واپسی کے راستے کھوٹے نہیں ہوئے تھے۔ معافی کا ایک در تو کھلا تھا۔
اور وہ اپنے جرم کی سزا کے بعد معافی کی درخواست تھامے منتظر تھی‘مگر سزا سنانے والا اس کی طرف متوجہ کہاں تھا اور عشوہ کی ہر ہر دھڑکن منتظر تھی۔
جب بہت دیر خاموشی ہی بولتی رہی۔ عمر نے اس کی طرف نظر نہیں کی تو وہ اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی تھی۔ اب کے سچ مچ عمر نہ صرف چونکا تھا‘بلکہ اسے کارپٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرتے دیکھ کر چیخ اٹھا۔
”نیچے کیوں بیٹھ رہی ہو‘یہاں بیٹھو۔“ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے قریب اس کی جگہ بنائی۔
”میں آپ کے پیروں میں بیٹھ کر معافی مانگنا چاہتی ہوں۔
“ عشوہ نے ڈرتے ڈرتے کہہ ہی دیا۔
”تمہاری جگہ پیروں میں نہیں ہے۔ برابر بیٹھ کر بھی معافی مانگ سکتی ہو۔“ عمر کے الفاظ نے گویا اسے گنگ کر دیا تھا۔ اس کا لہجہ اور انداز دونوں بلا کی نرمی لئے ہوئے تھے۔
”آپ معاف کر دیں گے کیا؟“ وہ کپکپاتے ہونٹوں پر ہاتھ پھیر کر بولی۔
”کرنا تو نہیں چاہئے‘جو کچھ مجھے سنا کر گئی ہو‘برداشت سے باہر تھا‘مگر اب کیا کریں‘تم نے تحفہ ہی اتنا اچھا دیا ہے۔
سارے بہتان‘سارے الزام بھولنا ہی پڑیں گے۔“ عمر نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔ وہ اس کے قریب بیٹھی‘مگر سرجھکائے۔
”میں نے آپ کے اور عروسہ کے بارے میں بہت غلط سوچا تھا۔ معافی لفظ بہت چھوٹا ہے‘مگر میں پھر بھی معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ مجھے معاف کر دیں‘میں نے بہت گندے الفاظ استعمال کئے تھے۔ مگر میں بھی کیا کرتی۔ میں بھابھی بیگم‘غوثیہ باجی اور ماسی کی باتوں کا غلط مفہوم سمجھ کر آپ پر بہتان باندھنے لگی تھی۔
میں نے سوچا ہی نہیں کہ ایک اور عمر بھی ہمارے برابر والے گھر میں رہتا ہے۔“
اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ عمر ابھی اسے مزید ستانا چاہتا تھا‘مگر اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔
”اٹس او کے عشوہ! اب رونا دھونا چھوڑو۔ تمہاری صحت کیلئے بہتر بھی نہیں۔ دکھ تو مجھے بہت ہوا تھا۔ عروسہ جو میرے لئے عمیمہ کی طرح ہے‘بلکہ میں عمیمہ سے بھی زیادہ اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس کی ماں کی محبتوں کا قرض ہے‘جسے میں نے ایک فرض کی طرح نبھانا ہے اور پھر عروسہ کا میرے علاوہ ہے ہی کون؟ اگر میں بھی اسے پیاردینے کی کوشش نہ کروں تو پھر میکے اور ماں‘باپ کے نام پر اس کے پاس کیا بچے گا؟ وقتی طور پر شدید غصہ آیا تھا۔
مگر پھر دھیرے دھیرے خود بخود اتر گیا۔“ عمر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کئے۔
”میں نے تمہارے لفظوں میں اور لہجے میں چھپی محبت کو محسوس کیا تو تمہارا غصہ حق بجانب لگا۔ بات دراصل یہ ہے کہ عمرنے عروسہ کو پروپوز کیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے‘مگر غوثیہ بھابھی نوری کی وجہ سے ٹال مٹول سے کام لے رہی تھیں۔ عمر کی پسندیدگی جان کر ان کا رویہ عروسہ سے بھی بدل گیا تھا۔
عروسہ ایک‘دو مرتبہ عمر کے مجبور کرنے پر اس کی بات سننے کیلئے باہر گئی تھی۔ تاہم میں اس بات سے واقف تھا۔ شاید عروسہ بھی اس کی محبت سے متاثر ہو گئی تھی۔ تاہم عمر بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ گھر والے مان نہیں رہے تھے… اور میری یہ خواہش تھی کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں۔ عمر اور عروسہ کا معاملہ سیدھا کرتے کرتے میری اپنی ناؤ ڈوبنے لگی تھی۔ میں اس بات سے قطعاً ناواقف تھا۔ نام کی مماثلت نے جہاں تمہیں ایک ان دیکھی آگ میں جلایا ہے۔ وہیں مجھے بھی خبر ہو چکی ہے کہ مجھے سنبھل کر ہی رہنا پڑے گا۔ کبھی دوسری شادی کے بارے میں ہرگز بھی نہ سوچوں‘ورنہ تم میری اور اپنی جان ایک کر دو گی۔“ عمر نے شرارت سے اسے دیکھا۔

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi