Last Episode - Tum Mere Ho By NayaB JilaNi

آخری قسط - تم میرے ہو - نایاب جیلانی

عمر کی اس وضاحت سے بھی پہلے عشوہ پھول کی طرح… ہلکی پھلکی ہو چکی تھی۔ تمام تر بدگمانی کے بادل چھٹ گئے تھے۔ وہ جو زندگی سے ہی مایوس ہو چلی تھی‘اپنی زہریلی سوچوں سے نجات پاکر پھر سے گویا ترو تازہ ہو گئی۔
”آپ اگر مجھے بھی عروسہ اور عمر کا معاملہ بتا دیتے تو میں اتنے دن انگاروں پر تو نہ سوتی۔“
”اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے؟“ عمر نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
”میری محبت پر شک ہے؟“
”اب تو بالکل بھی نہیں۔“ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”آپ نے کبھی مجھ پر اعتبار کیا ہی نہیں۔ اپنا سمجھا ہی نہیں۔ نہ عزت دی ہے‘نہ محبت… اگر ہمارے درمیان اتنے فاصلے نہ ہوتے تو عروسہ اور عمر کی بات آپ کے توسط سے ہی سہی‘مجھ تک ضرور پہنچتی۔“ وہ شکوہ کئے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔

(جاری ہے)

”یہ ایک الزام ہے مجھ پر… محبت اور عزت کے بغیر پندرہ سال گزار دیئے ہیں کیا؟ پاگل! محبت محبت۔
الاپنے سے محبت زیادہ ہو جاتی ہے کیا؟ رویہ‘احساس‘خیال اور پیار کا رشتہ محبت کو واضح نہیں کرتا؟ میرا تم سے ایک مضبوط تعلق ہے۔ میری اوائل عمری کے دنوں کی ساتھی ہو۔ میرے بچوں کی ماں ہو۔ پہلی اور آخری بیوی ہو۔ اس کے علاوہ محبت کے کون کون سے ثبوت چاہتی ہو؟“ وہ اس کے ہاتھ نرمی سے تھپتھپا کر بولا۔
”مجھے خوشی ہے کہ تم اپنی بھڑاس مجھ پر نکال کر اپنا دل صاف کر چکی ہو۔
اگر عروسہ تک تمہارے خیالات کی ذرا بھی بھنک پڑ جاتی تو پھر تم نے میرے اس قدر قریب ہرگز نہیں بیٹھے ہونا تھا۔“
”تو پھر میں نے کہاں جانا تھا؟“ وہ جان بوجھ کر اسے چھیڑنے لگی۔
”رہنا تو پاس ہی تھا‘مگر دور‘دور… یعنی میں اپنا بیڈ روم الگ کر لیتا۔“
”کیا سچی؟“ وہ حیران ہوئی۔
”ہاں… میں عروسہ سے کبھی تمام عمر نظر نہیں ملا سکتا تھا۔
وہ میری بہن ہی نہیں‘مجھے اولاد سے بڑھ کر عزیز ہے اور میں شرمندگی کے اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہو جاتا۔ اب تمہارے چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑ رہی ہیں۔ ایسا کچھ ہوا تو نہیں‘سو غم نہ کھاؤ‘بلکہ خوشی مناؤ۔ اللہ نے تمہارے من کی مراد پوری کی ہے۔ ارے! وہ ہے کہاں؟ یہ ایمن اور عروسہ اس کا کچومر نکال دیں گی۔ میں اسے لے کر آتا ہوں۔ تم اتنے میں نام سوچ رکھو۔
عمر گویا سر پر ہاتھ رکھ کر بھاگا تھا۔ عروسہ اور ایمن کی لڑائی ہو رہی تھی۔ دونوں ہی ایک ساتھ بچے کو اٹھانا چاہتی تھی اور بھابھی بیگم ان دونوں کو بچہ نہیں دے رہی تھیں۔
عشوہ ان کی کھٹی میٹھی لڑائی سن کر مسکرا رہی تھی۔ اس کے دل کے سارے بوجھ خود بخود ہٹ گئے تھے اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ عمر جیسے انا پرست نے عشوہ کی گفتگو بلکہ نازیبا ترین لڑائی کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔
شاید اتنی بڑی خوشی کے طفیل اس کی ہر غلطی کو وہ درگزر کر گیا تھا۔ جو بھی تھا‘عشوہ کا دل اور گھر ٹوٹنے سے بچ گیا تھا۔ وہ جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا۔ اس کے دل کی ہر پھانس نکل گئی تھی اور اس نے سوچا تھا کہ وہ غوثیہ باجی اور بھابھی بیگم کے دل کی چبھن بھی دور کر دے گی۔
اسی شام برابر والے گھر سے مٹھائی کے ٹوکروں سمیت بھابھی بیگم اور غوثیہ باجی آئی تھیں‘عمر کیلئے عروسہ کا ہاتھ مانگنے۔
عشوہ نے غور کیا تو اسے احساس ہوا‘بظاہر غوثیہ باجی عمر کے مجبور نے پر آ تو گئی تھیں‘مگر نوری کے حوالے سے ان کے تفکرات ہنوز قائم تھے۔ شاید وہ اس بات سے خوف زدہ تھیں کہ کماؤ بیٹے کی شادی ہو گئی تو ان کی بیٹیوں کا بھلا کیا بنے گا؟
سو عشوہ نے ان کی پریشانی کو دور کرنے کیلئے ایک فیصلہ کر لیا تھا اور اب وہ بھابھی بیگم سے بڑی محبت سے کہہ رہی تھی۔
”میں فائق کیلئے نوری کا رشتہ باقاعدہ طور پر مانگنے کیلئے آؤں گی‘مگر ابھی آپ اگر چاہیں تو ہاں کر دیں… تاکہ میں بے قرار بیٹھے اپنے پردیسی بھائی کو خوش خبری سنا دوں۔ وہ بس کل کی فلائٹ سے پاکستان پہنچ رہا ہے۔“
ادھر غوثیہ باجی اور بھابھی بیگم کے منہ حیرت سے کھل گئے تھے۔ مارے خوشی کے ان سے بولا نہیں گیا۔ نوری کے رشتے کی بات طے ہوتے ہی ان کا رویہ عروسہ سے بے حد اچھا ہو گیا تھا۔
ادھر عمر بھابھی بیگم سے نہ جانے کس بحث میں مصروف تھا۔
”بھابھی بیگم! کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ اس گاؤدی کا نام آپ کچھ اور رکھ لیتیں۔ یہاں تو اس گھونچو کے نام کی وجہ سے بڑے بڑے فساد اور طوفان اٹھتے اٹھتے رہ گئے ہیں۔“ بھابھی بیگم ایک جیسے نام رکھنے کی وجہ تسمیہ بتانے لگیں۔
”ہم نے سوچا نام کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ کلثوم کا بھانجا خوب صورت بھی ہے اور لائق بھی۔
پوتے کی پیدائش سے پہلے ہی عمر امان نام میں نے سوچ لیا تھا۔ تاکہ یہ کچھ نہ کچھ تو کلثوم کے بھانجے پر پڑے۔ شکل نہ سہی‘دماغ تو اس نے تمہارے جیسا ہی لیا ہے۔“ انہوں نے پرجوش انداز میں کہا۔
”پاپا! تو پھر ہم بھائی کا نام بھی عمر جونیئر رکھ لیتے ہیں۔“ ایمن نے بہت پتے کی بات کی تھی۔ عروسہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر چلا اٹھیی۔
”عمر‘عمر اور عمر کی گردان ہم سے نہیں ہوتی‘خبر دار! جو کسی نے عمر نام رکھنے کی کوشش کی۔
عمر فاروق اور عمر امان ہی ہمارے لئے کافی ہیں۔“ عشوہ نے بھی ہنستے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا تھا۔ سب سے زیادہ تائیدی انداز میں عروسہ نے سر ہلایا۔
”یہ ننھا شہزادہ ہماری خوشیوں کو مکمل کرنے آیا ہے۔ سو اس کا نام ہوا مبشر کسی کو اعتراض تو نہیں؟“ عروسہ نے کھڑے ہو کر گویا اعلان کیا تھا۔
”بالکل بھی نہیں۔ اعتراض کیوں ہونے لگا۔
بچے کی اکلوتی پھوپھی ہو‘پہلا حق تمہارا ہے۔“ غوثیہ باجی نے دلار سے ہونے والی بہو کا ہاتھ تھپتھپا کر کہا تھا۔ سب ہی کو یہ نام پسند آیا تھا۔ اب عروسہ نہ جانے کون کون سے لطیفے سنا کر انہیں ہنسا رہی تھی۔ لاؤنج میں سے قہقہوں کی جھنکاریں سنائی دے رہی تھیں۔ عشوہ ذرا دیر کو کچن کا انتظام دیکھنے اٹھ گئی۔ کھانا ہوٹل سے منگوایا تھا۔ تاہم وہ پلیٹوں میں خود ہی نکالنے لگی۔ بچیوں کی شگفتہ ہنسی کو دل سے محسو کرتے ہوئے وہ ایک دفعہ پھر مہربان رب کا شکر ادا کر رہی تھی۔
######

Chapters / Baab of Tum Mere Ho By NayaB JilaNi