Episode 2 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 2 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

لڑکی نے التجا کی۔ "سر آپ کی مہربانی ہو گی"
" مہربانی ہو گی۔۔۔"
"جی سر۔۔۔"
"میرٹ چلتا ہے،بیٹا۔۔۔ مہربانی 
 do not mend the way"
 "! ۔۔۔ سر پلیز " 
 " I have to obey college policy" 
 پرنسپل صاحب نے جواباََ کہااور اپنے کام میں لگ گئے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے۔کام نہیں ہوگا اور اب آپ جاؤ۔
لیکن وہ لڑکی وہیں خاموش کھڑی رہی اوراپنی ہمت سمیٹ کر بولی: "سر!۔
۔۔ ․" 
 اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی۔۔۔
 " بیٹا سر نے کہا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔اب آپ جاؤ سر کو کام کرنے دو "میں نے لڑکی سے کہا۔
 لڑکی پتھر کے بت کی طرح وہیں کھڑی رہی ۔۔۔وہ دفتر چھوڑنے کو تیار نہ تھی ۔اس کے چہرے پر پریشانی کے گہرے بادل آنسووٴں کی صورت آنکھوں سے برسنے کوتیار دِکھ رہے تھے ، وہ آنسووٴں کے سامنے ضبط کا بند باندھنے کی ناکام کوشش کر تورہی تھی لیکن لڑکی کی پلکیں آنسوؤں کے بوجھ کو سہار نہ سکیں۔

(جاری ہے)

۔۔آنسو ؤں کی دو لڑیاں اس کی آنکھوں سے نکل کررخساروں سے رستہ بناتی ہوئیں زمیں بوس ہو گئیں۔۔۔اب وہ بولنے کی کوشش توکر رہی تھی مگر اسے الفاظ نہیں پڑ رہے تھے۔ گلے میں کچھ اٹک سا گیا تھا۔وہ دُکھ کی اِک مکمل تصویر تھی ۔۔۔مگر پرنسپل صاحب اس کی اس کیفیت سے بے خبر تھے.۔۔۔وہ فائل میں مصروف تھے۔ البتہ اس لڑکی کی یہ حالت مجھ سے پوشیدہ نہ تھی۔
 لڑکی نے ہمت نہ ہاری، وہ آہستہ آہستہ بولتی رہی :"سر۔۔۔! مجھے اپنی غلطی کا پورا احساس ہے ۔۔۔مجھے اپنی لاپرواہی کی بہت سزا مل چکی ۔۔۔میرا یقین کریں۔۔۔میں آپ کو بہت اچھا رزلٹ دوں گی"
"سبھی سٹودنٹس اسی طرح کہتے ہیں۔۔۔ "پرنسپل صاحب نے فائل سے توجہ ہٹائے بغیر جواب دیا۔
 پرنسپل صاحب،جو کسی فائل میں محو تھے ۔ ۔ ۔لڑکی کے کرب کی کیفیت سے بے خبر بے توجہی سے صرف اس کے الفاظ سن رہے تھے۔
لڑکی کے جملے میں چھپی بے بسی کی تکلیف انہیں محسوس نہ ہوئی ۔۔۔ان کے لئے یہ روٹین میَٹر تھا۔۔۔
میں ٹیچر ہوں۔۔۔ٹیچر کسی سٹوڈنٹ کی باتوں کی صداقت ،اس کے چہرے سے پڑھ سکتا ہے ۔ لڑکی لائق تھی۔۔۔لیکن لاپرواہی تو ہو چکی تھی۔۔۔ لڑکی کو اپنی لاپرواہی کا جس قدر پچھتاوا تھا۔۔۔میں تو کیا ۔۔۔، کوئی بھی اس کے چہرے سے با آسانی پڑھ سکتا تھا ۔
میرا ایمان ہے کہ اپنی غلطی کا احساس رکھنے والے لوگ ہی عظمت کی بلندیوں کو سر کرتے ہیں۔۔۔اور جس کوغلطی تسلیم کرنے کی توفیق نہیں ہوتی،کامیابی وکامرانی کے خواب دیکھنا اس کے مقدر میں نہیں ہوتا۔۔۔"
سٹوڈنٹس سر حسن کی باتیں بڑے ہی انہماک اور توجہ سے سن رہے تھے۔ان کی باتوں کی انڈکشن ہورہی تھی۔۔۔سر حسن خود بھی مسحور ہو رہے تھے۔
سامعین کا اچھا رسپانس مقرر کوآکسیجن مہیا کرتا ہے اورمقرر میں بات کرنے کا جذبہ بڑھ جاتا ہے۔۔۔یہ وہی گھڑی ہوتی ہے جب وقت بہت تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ ۔۔
 " بڑے لوگوں کی زندگی کی عمارت اپنی غلطی کے احساس،اس کے اقبال۔۔اِدراک۔۔۔اوراس کی سعی سے تعمیر ہوتی ہے ۔۔۔ اور اسی احساس کے ڈھا نچے کی اسا س پر یہ عمارت قائم رہتی ہے۔نہ صرف وہ غلطی تسلیم کرنے کی جرأت رکھتے ہیں بلکہ اس پہ نادم ہونے کے ساتھ وہ اس کے از الہ کا سامان بھی کرتے ہیں۔
۔۔ 
ڈیئرسٹوڈنٹس!۔۔۔۔۔مجھے اس لڑکی کے اس جملے"کہ اسے اپنی غلطی کا پورا احساس ہے"نے اس کی طر ف د اری پر مجبور کر دیا۔مجھے اس کے الفاظ پر پورا یقین تھااور مجھ سے اس لڑکی کی کیفیت بھی برداشت نہ ہوئی ۔۔۔
 میں نے پرنسپل صاحب سے اس کے داخلہ کی ریکوئسٹ کردی۔۔۔
پرنسپل صاحب نے آنکھوں سے عینک اتارتے ہوئے بڑے تعجب سے میری طرف دیکھا ۔
۔۔جیسا کہ کہہ رہے ہوں"طبیعت تو ٹھیک ہے نا!"۔۔۔
 وہ کچھ دیر خاموش رہے ، مجھ پر نظریں ڈالیں اور پھر ہوا میں گھورنے لگے۔۔۔ وہ کچھ سوچ رہے تھے ۔۔۔
انہوں نے عینک دوبارہ آنکھوں پر رکھ لی۔۔۔
اب وہ عینک کے شیشوں کے اوپر ی خالی جگہ سے ،پوری آنکھیں کھولتے ہوے ،میری طرف کچھ د یردیکھتے رہے ۔۔وہ تذبذب کی کیفیت میں دکھائی دے رہے تھے۔
۔۔ میں اور لڑکی التجا بھری نگاہوں سے انہیں فوکس کئے ، ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کے منتظر تھے۔۔۔ مجھے بہت امید تھی کہ سر میری ر یکوئسٹ کو ضرور کونسیڈر کریں گے۔۔۔۔ کافی سوچ بچار کے بعد پرنسپل صاحب بولے "آپ کے کہنے پر میں اس لڑکی کا کیس ۔۔۔ہیڈ آفس بھیج رہا ہوں۔" 
لڑکی نے اور میں نے دفعتاََپرنسپل صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ لڑکی خوشی سے کھل اُ ٹھی،اس کے چہرے سے مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور چہرے پر شادمانی رقص کر نے لگی۔
ہا تھ کی ہتھیلی سے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ بہت پرجوش ہوکر بولی:۔
 'Sir, thank you...Thank you very much....  
 I would always keep in mind the favour you 
 honoured me and I promise ,I'll work hard.' 
خوشی نے اس کا انداز بدل دیا۔۔۔اسی لیے اس نے انگلش میں شکریہ ادا کیا۔
وہ دفتر سے خوش خوش چلی گئی۔۔۔
جیسا کہ، آپ نے اپنی فزکس کی کتاب میں پڑھا ہوگا، ٹائم آزاد متغیر indipendent variable) )ہے۔
اس کی رفتار سے کوئی واقف ہی نہیں۔ویسے بھی ہر کوئی اس قدر مصروف ہے کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا، سال کے بعد اگلا سال کب آیا ،اس کا پتہ ہی نہ چلا۔۔۔
 ہر سال کی طرح اس سال بھی پرنسپل صاحب ،سنیئر اساتذہ کرام اورمیرے سمیت ہمارے کالج کے سٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد ، بورڈ کے رزلٹ کی اینول پرائز سیریمنی ( prize distribution ceremony annual )میں شامل تھی۔
۔۔ اپنے کالج کے سٹوڈنٹس لے جانے کے دو واضح مقاصد ہوتے ہیں۔ایک تو انہیں انسپر یشن ملتی ہے اور دوسرا پوزیشن پر تالیوں میں ان کا شور زیادہ ہوتا ہے۔یہ تالیوں کا شور ہی توفنکشن کی رونق کو دوبالا کرتا ہے۔
 سرمنی شروع ہو چکی تھی ۔ کمپئرنے خوبصورت سماں باندھ رکھا تھا۔۔۔ سامعین کی سماعتیں مقید تھیں۔۔۔ وہ پوزیشنز اناؤنس کرنے جا رہا تھا۔
۔۔ پوزیشنز کی اناؤنسمنٹ (Announcement) کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ گروپ کا نام لیا جاتا۔۔۔ پھر پوزیشن بتائی جاتی ،سٹوڈنٹ کے نمبر، نام او ر ۔۔۔آخر میں کالج کا نام۔
حسبِ روایت، اناؤنسر نے، میڈیکل گروپ۔۔تھرڈ پوزیشن کی اناؤنسمنٹ
 (Announcemen) سے رزلٹ کا آغاز کیا۔۔۔اس اناؤنسمنٹ میں ہماری دلچسپی اس وقت یک دم ختم ہو گئی جب ہم نے اپنے کالج کی بجائے کسی اورکالج کا نام سنا۔
پوزیشن لینے والے سٹوڈنٹ کے لئے تالیاں بجیں ،ہمیں بالکل اچھی نہ لگیں۔یہ تالیاں صرف پوزیشن ہولڈرکے کالج کے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ایک کالج کے لوگ دوسرے کالج کی پوزیشن پر تالیاں نہیں بجاتے بلکہ "اور یہ پوزیشن بھی گئی" کہتے ہوئے مغموم ہو جاتے۔۔۔ہم بھی تھے۔"
 "سر یہ بری بات ہے"فاطمہ نے خود کو پرامیننٹ کرتے ہوئے کہا۔
 "یہ انتہائی فطری ہے کہ انسان کو اپنا مفاد ہی عزیز ہوتا ہے۔
۔۔اور کمپیٹیٹرکی خوشی کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔ہاں اس کی تو رسوائی ہی اچھی لگتی ہے۔۔۔"
 سر حسن نے جواب دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ 
"اب میڈیکل گروپ۔۔ سیکنڈ پوزیشن کی اناؤنسمنٹ ہونے کو تھی۔ہمارے دلوں کی دھڑکن کافی تیز ہو چکی تھی۔۔۔اناؤنسمنٹ میں اس بار بھی کالج کا نام،جو ہم سننا چاہتے تھے۔۔۔ وہ نہیں تھا۔
 اب آپ خود ہی سمجھیں ۔
۔۔ہماری کیفیت ۔۔۔!
ہم ، سہمے سہمے ، ہمہ تن گوش ،دبکے بیٹھے تھے۔۔۔ جن سٹوڈنٹس کو ہم تالیوں کی غرض سے اپنے ساتھ لائے تھے وہ بھی بجھے بجھے تھے۔۔۔ہم امید اور بے امیدی کی ملی جلی کیفیت میں تھے ۔۔۔میڈیکل گروپ میں ہی پوزیشن کا چانس تھا ۔۔۔"اگر اس بار ہمارے کالج کا نام نہ آیا تو ۔۔۔!"میرے دل میں خیال آیا۔۔۔ڈر سے لا شعوری طور میرے منہ سے نکلا " اے میرے مالک عزت رکھنا ۔
۔۔!"
 اب باری تھی میڈیکل گروپ۔۔۔ فرسٹ پوزیشن کی اناؤنسمنٹ کی ۔۔۔اور ہم مسلسل دعا کر رہے تھے اپنی پوزیشن کی ۔۔
 اناؤنسمنٹ شروع ہوئی۔۔۔
گروپ ۔۔۔میڈیکل۔۔
پوزیشن۔۔۔ فرسٹ۔۔۔
سٹوڈنٹ کا نام۔۔۔اقرا نوید
اور۔۔۔
اس لفظ" اور"پہ ہمارے کان اناؤنسر کی طرف تھے اور منہ کھلا ہوا ۔۔۔کیونکہ کالج کا نام اناؤنس ہونے جا رہا تھا۔
ہم پہلے ہی امید اور نا امیدی کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔
 کالج کا نام اناؤنس ہوا۔۔۔
 نام ہمارے کالج کا تھا۔۔۔
 اپنے کالج کا نام سنتے ہی سٹوڈنٹس دیوانہ وار اپنی سیٹس سے اُٹھ کھڑے ہو ئے۔اتنے پرجوش کہ کنٹرول میں رہنا مشکل ہو گیا۔۔۔ جوسٹوڈنٹس ہمارے ساتھ آئے تھے اور ہم ان سے آنکھیں چار نہیں کر پا رہے تھے ۔۔۔ اب تالیوں میں مگن تھے۔
۔۔
ڈیئر سٹوڈنٹس!۔۔۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں آ پ کو یہ بات بتاتے ہوئے کس قدرپرجوش ہوں ۔۔۔ اس وقت کا عالم ۔۔۔!!اُف الفاظ ہی نہیں!۔۔۔اور۔۔۔جب میں نے پوزیشن لینے والی سٹوڈنٹ کی طرف دیکھا ۔۔۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔۔۔ حیرانی کے عالم میں، غیرارادی طور پر، میرے منہ سے بلند آواز میں نکلا۔۔ 
یہ تو وہی لڑکی ہے۔۔۔!!!!!!!!!
یہ کہتے ہوئے میری نظریں خودبخود پرنسپل صاحب کی طرف اٹھیں ،وہ میری ہی طرف دیکھ رہے تھے۔میری آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔۔۔اور وہ آنکھوں سے ہی سب کچھ کہہ گئے جن کی ادائیگی الفاظ سے ممکن نہ تھی۔۔۔ 
 دو سال کا وقت کیسے گزرا ،احساس تک نہ ہوا۔۔۔آج مجھے ا س لڑکی کا نام ہمیشہ کے لئے یاد ہوگیا۔۔۔نہیں۔۔۔ اس نے کروا دیا۔۔۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen