Episode 3 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 3 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

" اقرا نوید"
اقرا نے ثابت کر دکھایا کہ ۔۔۔اسے غلطی کا مکمل احساس اور اس کا ادراک تھا۔
وہ لوگ جو اس راز کو پالیتے ہیں،منزل ان کے دو گام پر ہوتی ہے۔۔۔"
" سر اس کا مطلب ہے جن بچوں کے نمبر کم ہیں انہیں خود کو مقابلے سے باہر نہیں سمجھنا چاہئے۔۔۔یہی نا؟"
" بھئی واہ!۔
۔۔کیا نام بتایا تھا آپ نے ؟"
"سارہ۔۔۔سارہ بتول"
"سارہ ،آپ نے بالکل صحیح سمجھا ہے۔"سر نے پوچھا "آپ لوگ بور تو نہیں ہو رہے نا ؟" 
"نہیں سر۔۔۔!! "انیقاامجد نے اوور جوائیڈ ہوتے ہوئے کہا۔
"بوریت ہونے لگے تو کائنڈلی بتا دیجئے گا۔

(جاری ہے)

"سر آپ کی کلاس ہو ۔
۔۔اور بندہ بور ہو ۔۔۔ممکن ہی نہیں " 
"اچھا جی۔۔۔ ! کیسے پتہ چلا آپ کو؟ "
"میری بہن نے بتایا تھا۔۔۔"
"آپ مشال امجدکی بہن تو نہیں ؟۔"
"اگزیکٹ لی،سر"
" اقرا ء کے پرائز لینے کا سین بھی مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
۔۔واہ ! کیا سین تھا۔۔۔!!!
سننا چاہیں گے۔۔۔؟"
 "جی سر۔۔۔"بچوں نے یک زباں ہوتے ہوئے کہا۔
 " سنئیے!۔۔۔
میں دیکھ رہا تھا۔۔۔
 اقرا گولڈمیڈل پہنے،سٹیج کی دا ہنی طرف کے سٹیپس( steps)سے نیچے اتر رہی تھی ۔اس کا بھائی،جو عمر میں اس سے کوئی سال دو چھوٹا دِکھا ئی دے رہا تھا،بہن کی فوٹو ،کیمرے کی آنکھ میں بند کرنے کی کوشش میں تھا۔
بہن کو خوشی میں بھیگا ہوا کیا دیکھا،خود بھی خوشی میں یوں بھیگا کہ خوشی کے آ ٓنسوؤں نے اس کی آنکھوں میں بسیرا کرلیا۔۔۔آنسوؤں کی اس دھند میں اب اسے اپنی بہن واضح نظر نہیںآ رہی تھی۔اس نے بہن کو سٹیپس پر رکنے کو کہا۔۔۔اور خودقمیض کے کف سے آنکھیں صاف کرنے لگا۔۔۔
بہن، بھائی کو اس قدر پرجوش دیکھ کرآبدیدہ ہو گئی۔
۔۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ۔۔۔مگر آنسووٴں کی دھند میں ایک دوسرے کو صاف دیکھ نہیں پا رہے تھے۔۔۔
اس منظر پر،ہر دل رکھنے والا آدمی،جذبات کے سیلاب میں بہے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔ یہ کیمرے کے بس میں ہی نہ تھا کہ ،وہ دلی کیفیات کو کیچ کر سکے؛ا لبتہ ،یہ منظرہمیشہ کے لیے دلوں میں نقش ہو گیا۔میری آنکھیں بھی اس منظر کے ساتھ بھیگ گئیں،اس کا پتہ مجھے اس وقت ہوا جب برابر میں بیٹھے شخص نے مجھے ٹشو تھماتے ہوئے کہا:
”سر آنکھیں صاف کر لیں“
میں آنکھیں پونچھتا ہوا اقرا کی طرف بڑھا۔
۔۔وہ بھی میری طرف ہی آ رہی تھی۔
 " میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا سر"کہتے ہوئے میڈل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
"welldone " میرے عقب سے کسی نے میرے سے پہلے کہہ دیا۔
اقرا اس آواز کی طرف لپکی۔۔۔
اقرا پرنسپل صاحب کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔اس کی آنکھیں خوشی اور تشکر کی نمی سے تر تھیں۔
"سر آپ کی بدولت یہ ہوا "وہ بولی۔
"نہیں۔۔۔ یہ آپ کے رت جگو ں کا ثمر ہے "پرنسپل صاحب نے جواب دیا۔
"عزیز بچو۔۔۔!
کامیابی کے سفر کا آغاز،آپ کے دماغ کے اندر ،آپ کی سوچ سے شروع ہوتا ہے۔آپ وہی کرتے ہیں جو آپ سوچتے ہیں۔آدمی اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھلتا ہے یہی اس کی شخصیت کی تعمیرہے۔
اور۔۔۔
انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کے ارادے کی طاقت ہوتی ہے۔ ۔۔جب کوئی شخص مصمم ارادے سے کسی کام کے کرنے کا ارادہ باندھ لیتاہے،قدرت اس کا استقبال کرتی ہے، اپنی عنایات اس کو پیش کرتی ہے ،اس کی منزل کے سبھی راستے اس کی رہنمائی کرنے لگتے ہیں اور اس کا اٹھنے والا ہر قدم اس کا ، اس کی منزل سے فاصلہ کم کر رہا ہوتا ہے۔
 
ڈئر سٹوڈنٹس۔۔۔!
یہ ضروری نہیں کہ جن بچوں کے نمبر کم ہیں وہ نالائق ہیں،ہر گز نہیں۔۔۔وہ خود کو مقابلے کی دوڑ سے باہر نہ سمجھیں ۔۔۔اچھے نمبر نہ آسکنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
 یاد رکھیں!۔۔۔کامیابی کے دروازے ،کبھی کسی پر بند نہیں ہوتے، یہ تو ا نسانوں کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔
۔۔
مجھے اُمیدِواثق ہے کہ آپ کلاس میں ہیلتھی کمپٹیشن ( (healthy competition کی فضا نہ صرف ڈیولپ کریں گے ،بلکہ اسے بہتر بھی بنائیں گے۔
and.... 
 let us see who wins the car " 
کہہ کر کلاس سے چلے گئے۔
" پوزیشن کی کار تو ہماری ہوئی۔۔۔"!فاطمہ بڑے تفا خر سے بولی۔
"بھئی یہ فیصلہ تو وقت کو کرنا ہے"سارہ بتول نے سرحسن کا جملہ دہریا ۔
"فیصلہ تو وقت ہی کرے گا ۔۔۔۔پر، میرے لئے"فاطمہ نے جواب دیا۔
"barking dog seldom bite" صبا نے دھیمی ٹون میں انتہائی لا پرواہی سے کہا۔
 سارہ نے منہ کا زاویہ تبدیل کرتے ہوئے کہا:
" صبا،زبان کی بے احتیاطی انسان کے لئے مصیبتوں کو دعوت دیتی ہی۔"
"اور اس کا گھاؤبہت گہرا ہوتا ہے۔
۔۔ " ماریہ نے لقمہ دیا 
"بہرکیف ، احتیاط ضروری ہے۔"مناہل بولی
صبا کے لہجے اور اس کے جملے نے ،فاطمہ کو کنٹرول سے باہر کر دیا۔دکھائی دے رہا تھا کہ فاطمہ،صبا کے جملے کا فوری جوا ب دے گی۔ایسا ہی ہوا۔۔۔فاطمہ نے خود کلامی کرتے ہوئے انتہائی فلمی انداز میں ہوا کو گھورتے ہوئے کہا :
" ہم سے دشمنی۔
۔۔مہنگی پڑے گی۔ 
اور۔۔۔
 ہم تو دشمنی میں ،دشمن کو دوست سے عزیز سمجھتے ہیں!۔" 
"سارے شوق پورے کردوں گی۔۔۔کرکے دیکھ لو دشمنی " صبا نے فاطمہ کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا 
"دیکھ چکی ۔۔۔ تم کتنے پانی میں ہو!"
"تمہاری یہی غلط فہمی تمہیں ڈبونے کے لئے کافی ہے" 
فاطمہ اور صباآہستہ آہستہ ایک دوسرے کی طرف دیکھے بغیر جملہ سنج تھیں۔
ویسے بھی ان کے درمیان ایک ہی لائن( row )کا فرق تھا۔
"اپنی شکست کا زخم یونہی چاٹتی رہو گی۔۔۔اس با ر کا زخم اور بھی گہرا ہوگا۔"فاطمہ نے تفخرانہ انداز میں کہا۔
"خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔۔۔بیوقوف خوابوں میں ہی رہتے ہیں۔ "صبا نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
"جو خواب دیکھتے ہیں ۔
۔۔وہ تعبیر بھی کرنا جانتے ہیں۔" 
فاطمہ نے یہ کہا ہی تھا کہ لمبے قدوالی سمارٹ لڑکی،ماریہ نے اپنے بال، جو اس کا چہرہ چھپا ئے ہوئے تھے ، ایک جنبش سے پیچھے ہٹاتے ہوئے ، التجائیہ لہجے میں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا:
 " فار گا ڈ سیک ،کار جو بھی جیتے۔۔۔۔کلاس کا ماحول خراب نہ کریں۔
It's our 1st day in college... 
there must be harmony amongst us rather than these idiotic, insensibl and impolite sentences......please....please...please!" 
ممتاز ہونے کی تمناکا ہونا قدرتی عمل ہے ۔
یہ زندگی کی علامت ہے۔یہ کسی میں کم کسی میں زیادہ۔۔۔مگر ہوتی سبھی میں ہے۔۔۔ اسی لئے ہر کوئی اپنا تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
مناہل کوبھی اپنی قابلیت ظاہر کرنے کا اچھا موقع ملا اور اس نے اپنی قابلیت کا بوجھ کلاس کے کندھوں پر ڈالنے کا اچھا موقع جانا،اس نے اضافہ کیا :
 "جس کسی کوبھی کار حاصل کرنا ہے اسے دو سال انتظار کرنا ہوگا۔
"
 " جلدی بھی مل سکتی ہے ۔۔۔" فریحہ نے کہا۔ 
" کیسے جناب ۔۔۔؟"مناہل نے پوچھا 
 " شو روم سے " فریحہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
َََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََِصبا اور فاطمہ ایک ہی سکول سے تھیں۔صبا کا رول نمبر 13اور فاطمہ کا 14 تھا۔ دونوں کے درمیان سخت مقابلہ بھی تھا۔ فا طمہ،جس کی کلاس میں ٹاپ کرنے کی بہت خواہش تھی۔
و ہ سخت محنت بھی کرتی لیکن اس کا کلاس میں ٹاپ کرنے کا خواب ادھورا ہی رہا۔صبا کلاس میں ہمیشہ فسٹ آتی۔
صباکلاس میں بے تاج بادشاہ تھی۔۔۔
صبا اور فاطمہ کے درمیان تعلق انتہائی واجبی تھا۔۔۔۔جیساکہ ، کمپیٹیٹرز
( competitors)کبھی بھی بیسٹ فرینڈز(best friends)نہیں ہوا کرتے۔صبا اور فاطمہ بھی کمپیٹیٹرزہی تھیں۔
ایک ہی کلاس میں ہونے کے باوجود رسماََ ہیلو ہائے بھی کبھی کبھا رہی ہوتی تھی۔
عصر حاضر میں کسی ادار ہ کی تعلیمی حالت پرکھنے کا واحد طریقہ ،اس ادارے کے،بورڈ کے امتحان کے رزلٹ تک موقوف ہوگیا ہے۔پوزیشن حاصل کرنے والا ادارہ ہی بہتر تصور ہوتا ہے۔ہر ادارہ اپنے رزلٹ کو بہتر کرنے کے لئے پوزیشن کی دوڑ میں لگا ہوا ہے ۔
۔۔اس پوزیشن کے حصول میں سٹوڈنٹ، سٹوڈنٹ کا بیری ہو گیا ہے۔ 
سکول انتظامیہ نے اپنے رزلٹ کو شاندار بنانے کے لئے ،بچوں کو ترغیب دی۔۔۔ اوریہ اعلان کردیا کہ جوسٹوڈنٹ بورڈ کے امتحان میں فسٹ پوزیشن لے گا سکول انتظامیہ اسے ایک لاکھ روپے نقد کا انعام دے گی۔
 یہ ادارے کی انویسٹمنٹ (investment ) تھی۔۔۔
اس اناؤنسمنٹ پر صبا بہت خوش تھی۔
۔۔اس نے اس اناؤنسمنٹ کے اشتہارکو فریم کروا کر اپنے سٹڈی روم میں بھی لگا لیا تھا۔وہ اس انعام کے حصول کے لیے بہت پرعزم تھی۔۔۔سکول کے ہر امتحان میں وہی اول آتی تھی۔۔۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔۔۔
میٹرک بورڈ کا رزلٹ آ گیا۔۔۔
انسانی تدبیریں قدرت کے فیصلوں سے متصادم ہوتیں دکھائی دیں۔۔۔
میٹرک کے رزلٹ میں صبا سیکنڈ اور ایک نمبر کے فرق سے فاطمہ فسٹ تھی۔
بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن کے باوجود ،صبا کے لئے یہ خبر تکلیف سے خالی نہ تھی جبکہ سکول انتظامیہ کی خو شی کی کوئی حد نہ تھی ۔۔۔ہر کسی کو اپنی خوشی سب سے عزیز ہوتی ہے۔ویسے بھی انتظامیہ کے لئے دونوں سٹوڈنٹس ایک سی تھیں۔
دو پوزیشنز۔۔۔!!
پوزیشن تو ایک بھی مان نہیں ہوتی یہاں توپھر۔۔۔ دو تھیں۔۔۔۔خوشی تو بنتی تھی!۔
یہ سکول انتظامیہ کی طویل محنت،سخت کاوش،اور دعاؤں کا ثمر تھا۔
۔۔
سکول والوں نے پورے شہر کو بینرز سے سجا دیا۔ ۔۔شہر بھر میں بینروں کی بہار آگئی۔۔۔آئی کیچنگ پلیسز( eye catching places )پر ہورڈنگ بورڈ( hoarding boards) پر بڑی بڑی فلیکسزچپکا دی گئی تھیں ۔ سکول کے ماتھے پر لگی بڑی فلیکس پر تو باقاعدہ لائٹس بھی لگائی گئی تھیں۔۔۔جیسے دلہن کو نئے پرہن سے سجایا جاتا ہے ،سکول کوبھی نیا پینٹ کروا دیا گیا۔۔۔پوزیشز کیش کرناتھیں،ان کا حق بھی تھا ۔
سکول انتظامیہ نے شاندار فنکشن کا پرگرام بنایا۔۔۔
سکول والوں نے معززینِ علاقہ، 10thکلاس کے بچوں کے پیرنٹس(parents)اور اہم شخصیات کو دعوت نامے ارسال کر دئیے۔
 2 -اگست ، فنکشن کی تاریخ مقرر ہوئی۔۔۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen