Episode 5 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 5 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

 سارہ اپنے گھر پہنچ چکی تھی۔۔۔
"ماما کچھ کھانے کو ہے؟" سویرہ نے اپنی امی سے پوچھا۔
"سکول والوں نے کچھ نہیں دیا؟"
"صبا بہت اپ سیٹ تھی ،ہم ریفریشمنٹ نہ کر سکے"
"صبا تو بورڈ میں سیکنڈ آئی ہے پھر بھی؟"
"آپ تو جانتی ہی ہیں،سکول کے ہر امتحان میں وہ ہمیشہ فسٹ آتی تھی۔
۔۔ اس کے سیکنڈ آنے سے اسے بمپر پرائز تو نہیں مل سکانا!۔۔۔اس بات پر وہ اپ سیٹ تھی۔۔۔"
 "آہا!۔۔۔بیچاری کے مقدر!"
 "ماما بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ "
 "بیٹھو۔۔۔کھانا دیتی ہوں"...
سارہ کھانا کھاتے ہوئے صبا کے بارے ہی سوچتی رہی۔اس نے صبا کا یہ روپ بھی پہلی بار دیکھا تھا۔

(جاری ہے)

صبا اسے اس کے حقیقی قد سے کہیں چھوٹادکھائی دی۔

صبا سے ہونے والی گفتگو نے اسے سوچوں میں الجھادیا۔وہ سوچنے لگی:"کیا پہلی پوزیشن پر صبا کا ہی حق ہے۔۔۔؟ وہ دوسری پوزیشن کی بے توقیری کر رہی ہے حالانکہ دوسری پوزیشن بھی بڑی آنرکی بات ہے۔"
 آج، اسے اپنے بابا جان کے الفا ظ رہ رہ کر یاد آ رہے تھے :" کسی کی شخصیت ،غصے کے وقت یا مصیبت میں ٹسٹ (test )ہوتی ہے "
اس نے کھانا ختم کر لیا۔۔
۔اپنی سوچ کوڈایئورٹ (divert )کرنے کے لئے اس نے اپنے بابا جان کا بک ریک کھولا اور کتابیں ٹٹولنے لگی ۔اس کی نظر اس کے بابا کی پسندیدہ کتاب ،جو اکثر ان کے مطالعہ میں رہتی ہے،پر پڑی۔ا س نے کتاب نکالی اور اس کا وہ حصہ جو پہلے سے ہائی لائیٹڈ (highlighted)تھا ،پڑھنا شروع کیا۔:
 "یہ خود سوزی ہے،کہ آدمی مثبت سوچ ہی نہ سکے۔آدمی کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہی بن جاتا ہے ؛جب وہ مثبت سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔
"
 "واؤ۔۔۔!" سارہ کو یہ لائن بہت اچھی لگی۔۔۔اگرچہ کتاب اسکے سامنے کھلی پڑی تھی لیکن وہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔
"اس کا مطلب ہے صبا اپنے اس رویے سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہی ماسوائے خود کو تکلیف دینے کے۔"
 چونکہ سارہ کوکتاب اچھی لگ رہی تھی۔اس نے کتاب کے ہائی لائٹڈحصے پڑھنا شروع کئے:
"اَنا انسان کی جبلی خاصیت ہے۔
انسان میں اس کا پایا جانا اس وقت تک فائدہ مند رہتا ہے ، جب تک آدمی اَنا کی دیوار کی اُونچائی اپنے شخصی قد سے بڑھنے نہ دے۔ لیکن یہ مہلک اس وقت ثابت ہوتی ہے۔ جب اس کی دیوار کی اونچائی آدمی کے شخصی قد سے بڑی ہو جائے۔تب یہ آدمی کے گردتنگ حصار کھینچ دیتی ہے اوراسے خود پرستی کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ایسے شخص کو اپنی ہی ذات محترم و مقدم ہو جاتی ہے ۔
وہ خود پرستی کا شکار،شخصی حصار کے کھوکھلے خول میں یوں جکڑاجاتا ہے کہ وہ کسی اور کو دیکھ ہی نہیں پاتا۔وہ کسی اور کو محسوس نہ کر سکنے کی کیفیت کی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔اس کی ذات یعنی' میں'۔۔۔یعنی سلف( 'self' )۔۔اِس کی شخصیت کے گرد ایسی فصیل قائم کرتی ہے جو اس کی ذات کی قید کا مستقل سامان مہیاکئے رکھتی ہے۔وہ اسی میں الجھا رہتا ہے۔"
سارہ نے کتاب کے اس صفحہ میں اُنگلی رکھ کر کتاب بند کردی اور جملوں پر غور کرنے لگی۔
"اس کا مطلب ہے صبا کوخود پرستی کا مرض لاحق ہے ۔۔۔اور خود پرست کسی کو دل سے پسند ہی نہیں کر سکتا۔۔۔تو پھر،کیا صبا سے دوستی رکھنی چایئے؟۔۔۔اس نے خود سے سوال کیا۔۔۔دوستی تو پہلے بھی اس سے اس درجے کی نہیں ،کہ رشک کیا جا سکے۔۔۔ اس سے دوستی تو نہیں کی جاسکتی لیکن پرانے تعلق کا بھرم تو رکھنا ہی پڑے گا ۔۔۔دنیاداری نبھانے کے لئے۔
"
سارہ کا صبا سے ایک بھرم کا رشتہ قائم رہا۔اگرچہ اندر سے اس کی روح ختم ہو چکی تھی کیونکہ سارہ اس کی اصلیت دیکھ چکی تھی۔سارہ نے وہی صفحہ دوبارہ کھولا جہاں سے چھوڑا تھا اور پھر پڑھنا شروع کیا:
"اَنا میں جکڑے شخص کی توجہ صرف اپنی ذات کی بقاء،ذاتی خوشی،دوسروں کو نظرانداز کرنے اور انتہائی خودغرضانہ خواہشات کی تکمیل کے طواف میں لگی رہتی ہے۔
اِرد گرد کے لوگوں کو وہ اپنی ضرورت کے مطابق انتہائی خود غرضی سے استعمال کرتا ہے۔ایسا شخص شکست کے خود ساختہ خوف کے گرد سیلف ڈیفنس سسٹم(self defence system)تیار کرنے میں ساری توانائیاں صرف کر دیتا ہے۔ حالانکہ یہی توانائی اسے اس کی منزل کے حصول کے لئے کافی تھی۔۔۔"
اس نے کتاب بند کی ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ سوچوں کی آغوش میں جاتی۔۔اس کے بابا جان اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔
سارہ نے کتاب بابا کی طر ف کرتے ہوئے کہا:
"بڑی دلچسپ کتاب ہے۔۔۔میں نے اس میں ہائی لائٹڈ لائنیں پڑھی ہیں ۔۔۔مزہ آگیا۔"
 " بیٹا ،کتابیں ہمیں پڑھنی چاہئیں۔۔۔یہ ہمیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔"
 "جی ،بابا جان۔" سارہ نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
 "گڈ بائے "کہتے ہوئے وہ اپنے روم کی طرف چل دیئے۔
میٹرک کلاس کی یادوں کی یہ فلم ختم ہو ئی۔۔۔جو سارہ خیالات کی وادی میں بیٹھ کر فل والیم کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔۔۔ 
سر سرمد ، کلاس میں داخل ہوئے،اٹینڈنس (attendance)مارک کی، مختصر تعارف کیا اور اسٹیج کے درمیانی حصہ میں آتے ہوے بولے:
"ڈیئرسٹوڈنٹس!۔۔۔ بیالوجی بہت دلچسپ مضمون ہے۔ میں اسے کمپری ہنڈ
 ( comprehend)کروانے کی مکمل کوشش کروں گا۔
آج ہم بیالوجی کے وہ سوال کریں گے جو میٹرک لیول کے ہوں۔اس طرح میں آپ کی علمی سطح کی بیس لائن( base line )جان سکوں گا۔ سو پٹ می کوئس چن(so put me question)"
سارہ اپنی نشست سے اٹھی اور بولی:
 "?Would you, please, elaborate healthy competition, first" 
سر سرمدنے مسکراتے ہوے سارہ کی طرف دیکھااور وہ بولے: 
 "Your name?" 
"Sir, Sara batool".
"?Sara ! is it a question from biology"
" سر ،آپ چاہتے ہیں نا کہ ہم اکسل( excel)کریں"
 "آف کورس ( of course )"
"سر کلاس میں ہیلتھی کمپٹیشن ہو گا توپڑھنے کا بہت مزا آئے گااور ہم اچھے رزلٹ بھی دیں گے، سر حسن بھی تو یہی کہتے ہیں۔
"
"یہ تو ہے۔۔۔!"سر نے گردن ہلاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
سٹوڈنٹس سارہ کے اس سوال کرنے کا سبب سمجھتے تھے۔۔۔صبا اور فاطمہ کے بیچ ہونے والی تلخ جملہ بازی کی روک تھام کی یہ ایک تدبیر تھی۔
 سر سرمدنے تھوڑا توقف کیا پھر کندھے اچکاتے ہوئے کہا:"کوشش کرتا ہوں،پہلے کمپٹیشن پہ بات کرتے ہیں ،میں اسے یوں ڈیفائن ( define )کرسکتا ہوں:
"Competitions naturally take place between living organisms which co-exist in same setting, to outshine in achieving most wanted result. 
انسانوں میں مقابلے کا رجحان عمومی اور خصوصی طور پر ان کوالٹیز( qualities )میں پایا جاتا ہے جو سوسائٹی کے نارمز (norms) میں آتی ہیں۔
مثلاََ،شہرت کا حصول،عزت و آبرو کی طلب،مرتبہ کی چاہت،اور سب سے بڑھ کر پاور کے حصول کی تمنا۔
عزیز بچو!۔۔۔۔۔۔مقابلے کا رجحان نہ صرف انسانوں،بلکہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔جانورں میں بھی یہ خاصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔وہ مقابلہ کرتے ہیں،خوراک کے حصول میں،علاقے قائم کرنے میں،اور مرتبہ بنائے رکھنے میں۔
۔۔ہم مختصراََیوں کہہ سکتے ہیں:
Competition is a challenge between organisms, individuals, and groups;for social status, identification, distinction, and rank or reward"
ماریہ نے سر کو انٹرپٹ( interrupt)کیا: "سر،کمپٹیشن کے لئے جیلسی
 ( jealousy ) کا فیکٹر ضروری ہے؟"
"بھئی،یہ فطری ہے لیکن اس میں احتیاط بہت ضروری ہے ۔
۔۔ہاں تو ہم بات کر رہے تھے کمپٹیشن کی ،یہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
 اَن ہیلتھی کمپٹیشن (unhealthy competition)
 اور، ہیلتھی کمپٹیشن (healthy competition )
اَن ہیلتھی کمپٹیشن ایسے کمپٹیشن (competition )کو کہتے ہیں جس میں جیت کی نوعیت ،انتہائی انفرادی ہو۔اِس طرح کے مقابلے، سوسائٹی میں فائدے کی بجائے نقصان بڑھاتے ہیں۔ایک فرد دوسرے فرد کی ناکامی کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔
اپنی کامیابی اور دوسرے کی ناکامی کے لئے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔
 جس سوسائٹی میں ایسے کمپٹیشن کی فضا ہو؛ وہاں۔۔۔غصہ، نفرت، خوف، ٹینشن (tension)، شکوک و شبہات ، مس ٹرسٹ ( mistrust )، ڈس آنسٹی (dishonesty)اور تنگ نظری جیسے جذبات جنم لیتے ہیں۔جس معاشرے کی اساس ایسے جذبات پر مبنی ہوگی ،وہاں سوسائٹی کے افراد فزیکلی اینڈ منٹلی سِک( physically and mentally sick )ہوں گے۔ایسے معاشرے میں مجموعی نقصانات۔۔۔ فوائد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔سٹوڈنٹس کو تو ایسے کمپٹیشن سے کوسوں دور رہنا چاہئے ۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen