Episode 6 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 6 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

ڈئیر سٹوڈنٹس!۔۔۔
ہیلتھی کمپٹیشن ،ہم ایسے کمپٹیشن کو کہتے ہیں جس میں ہر فرد اپنی انفرادی جیت پرمتفقہ(ٹیم) کی جیت کو فوقیت دے۔حالانکہ ٹیم کی جیت کی صورت میں ٹیم کے ہر فرد کی انفرادی ترقی یعنی پرسنل گروتھ( personal growth) یقینی ہے۔
Actually, it is an attitude of everyone's win . 
ٹیم کی جیت ہی اپنی جیت سمجھی جاتی ہے۔
اِس قسم کے مقابلے کے رجحان میں سوسائٹیز میں تعاون، سینس آف سلف رسپکٹ(sense of self respect) ، اخوت، محبت، روشن خیالی ، اور پاور شئرنگ( power sharing)جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔جس معاشرے کی اساس ، ایسے جذبات کی بنیاد پرقائم ہو گی ڈیٹ ول بی مینٹلی اینڈ فزیکلی فٹ ۔۔ mentally and physically fit...super fit (That will be 
(society)۔

(جاری ہے)

روشن خیال معاشروں میں مجموعی فوائد ،ہمیشہ اپر لمٹ( upper limit )کو ٹچ (touch) کرتے ہیں۔

ڈئیر سٹوڈنٹس!۔۔۔
ہیلتھی کمپٹیشن کو اب کنسٹرکٹو( constructive)اوران ہیلتھی کمپٹیشن کو ڈسٹرکٹو 
 ( competition )سے منسوب کرتے ہیں۔کلاس میں جس قدر ہیلتھی کمپٹیشن ہو گا اسی قدر کلاس کا مجموعی اور انفرادی رزلٹ بہتر ہو گا۔۔۔۔۔آل سٹوڈنٹس وِل گرو ورٹیکلی اپ All students will grow vertically up))۔اِس میں بھی فسٹ ، سیکنڈ، اورتھرڈآٹو میٹیکلی ( Automatically )ہوں گے۔
صرف فرق یہ ہوگا کہ ٹاپ اور باٹم میں فرق بہت تھوڑا ہو گا۔یہی گروپ کی کامیابی ہوگی ؛یعنی
 Win -win situation; every one's win
ڈئیر سٹوڈنٹس!۔۔۔
آج کی کلاس تو کمپٹیشن کے ٹاپک پہ کافی وقت لے گئی ہے۔۔۔ہوپ فلی یو ہیو گا ٹ میhopefully,you have got me) )۔اب بیالوجی کے سوالات لیتے ہیں۔۔۔"
مناہل پھر اپنی نشست سے کھڑی ہوئی اور مسکراتے ہوئے سر سے بولی:
"سر! آپ ڈارون کی ایوولو شن تھیوری پر یقین رکھتے ہیں ؟۔
۔۔کیا یہ ثابت ہو چکی۔۔۔؟"
سر کافی کھل کھلا کر ہنسے ،پھر بولے: "مناہل ، آپ بڑی ہی۔۔۔۔۔مرجانی ہو۔۔"
"سر! کہتے ہیں۔۔۔سوال کرنے سے دماغ کھلتا ہے!"مناہل نے بات جاری رکھی
"ہاں بھئی! ۔۔۔ ایسے سوالوں سے کھلتا توہے۔۔۔۔پر ہسپتال جاکر۔۔۔"
سر کے اس جواب پر ساری کلاس جی بھر کے ہنسی۔
۔۔۔اور سبھی مزے میں آگئے۔
"بیالوجی پڑھنے کا مزہ آئے گا!"..۔۔۔انیقانے پرجوش ہوتے ہوئے اظہار کیا۔
 "سر بتائیں نا ! آپ ڈارون کی اویلوشن تھیوری پر یقین رکھتے ہیں ؟ مناہل نے اپناسوال دوھرایا ۔ 
 " وقت کم ہے ،یہ بڑا ٹاپک ہے، اس کی ڈسکشن کسی اور دن کریں گے۔۔۔اب تو پریڈ ختم ہونے کو ہے"
 "سر کہتے ہیں ٹیچر کی تیاری نہ ہو تو وہ ایسے ہی جواب دیتا ہے۔
"مناہل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
 سر سرمد اور کلاس ہنسنے لگی۔۔۔بیل نے سر سرمد کی کلاس کے اختتام کا اعلان کردیا۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تیسرا پیریڈ شروع ہو چکا تھا۔۔۔یہ اسلامیات کی کلاس تھی۔اس کلاس میں پرنسپل صاحب نے وزٹ کیا۔کالج کی پالیسی اوراصول و ضوابط پر روشنی ڈالی۔۔۔اور کالج کا سپر سیکشن ہونے پر سٹوڈنٹس کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔
 " پوزیشنز لینا ہمارے کالج کی روایت ہے۔۔۔جہاں پوزیشن لینا مشکل کام ہے اسے مین ٹین رکھنے کی زمہ داری اور بھی کٹھن ہے۔۔۔الحمدُللّٰلہ ،اللہ کے فضل سے ہم ایک عرصہ سے نہ صرف ریکارڈ مین ٹین کئے ہوئے ہیں بلکہ اسے امپروو improve))بھی کر رہے ہیں۔۔۔"
سر کی اس بات پر بچوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔۔۔تالیاں رکنے پر سر پھر بچوں سے مخاطب ہوئے۔
"میری آپ سے بہت امید یں وابستہ ہیں اور امید ہے آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے"
"انشا اللہ " ساری کلاس نے مل کر کہا۔
"اکسیلنٹ"
"سر اقرا نوید والا واقع آپ کو یاد ہے؟"۔ مناہل نے سر سے پوچھا۔
"یہ آپ کو سر حسن نے بتایا ہے نا!"
"جی سر " انیقا نے کہا۔
"وہ سٹوڈنٹس میں کمپیٹیشنل انوائر منٹ (copetitional environment)ڈویلپ کرتے رہتے ہیں۔۔۔ان کی بات کو میں بہت اہمیت دیتا ہوں۔۔۔ میں نے صرف ان کی خاطر میرٹ سے ہٹ کر کوئی داخلہ کیا تھا۔۔۔وہ آئیڈیل ٹیچر ہیں۔ ان کی باتوں میں بڑی گہرائی اور وسعت ہوتی ہے۔۔۔ان پر عمل کیجئیے گا۔۔۔اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں کہ سٹوڈنٹ بلیک ہارس کی طرح بہت پیچھے سے آگے آئے ۔
۔۔"
"سر کوئی بتائیں نا! "کنزہ وثیر نے التجا کی۔
بھئی یہ خوبی تو سر حسن کے پاس ہے۔نہ ہی میرے پاس ان جیسے الفاظ ہیں نہ ہی امپریشن۔۔۔ان کی بات نان سٹاپ دل میں اترتی ہے۔۔۔میں خود ان سے فیضیاب ہوتا ہوں۔۔۔"
سر پرنسپل سر حسن کے بارے بات کرتے ہوئے ایموشنل ہوگئے تھے۔
۔۔جس سے سر حسن کی طلسماتی شخصیت کا طلسم عیاں تھا۔۔۔
"آپ نے مجھے ڈی ٹریک کر دیا ہے۔۔۔بہت ہوشیار ہیں آپ "سر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پرنسپل صاحب نے دوبارہ بچوں سے کالج کی پالیسزپر سیرحاصل گفتگو کی۔بریک کے لیے بیل ہوگئی۔ بچے پرنسپل صاحب کے اس فرنڈلی ایٹی ٹیوڈ سے بہت متاثر ہوئے۔
 "آپ بریک انجوائے کریں" کہتے ہوئے پرنسپل صاحب بچوں کی تالیوں میں کلاس سے رخصت ہوئے۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریک کی بیل ہوتے ہی کچھ بچوں نے کنٹین کی راہ لی۔۔۔کچھ کلاس کے سامنے والے لان میں پڑے بنچوں پہ بیٹھ گئے۔ جبکہ سارا اور صبا کلاس میں ہی بیٹھ گئیں۔۔۔
سارہ گھر سے سینڈوچ لائی تھی۔۔۔سارا نے لنچ بکس کھولا۔۔ایک سینڈوچ اس نے صبا کو تھما دیا۔
سینڈوچ کھاتے ہوئے سارہ نے صبا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
"سر سرمدنے تو کمال کر دیا! کس خوبصورتی سے انہوں نے ہیلتھی کمپٹیشن پہ روشنی ڈالی ہے۔
"
"دیکھو ! سارہ!۔۔۔یہ ساری باتیں کتابی ہیں۔کوئی کمپٹیشن ہیلتھی کمپٹیشن نہیں ہوتا۔۔۔ کمپٹیشن صرف کمپٹیشن ہی ہوتا ہے۔"
"لگتا ہے ،تم نے لکچر توجہ سے نہیں سنا۔"
"سنا ہے ۔۔۔آل اِز بُکش" صبا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
" اس میں ہر فرد اپنی انفرادی جیت پرٹیم کی جیت کو فوقیت دیتا ہے۔
۔۔پھر بھی؟"
 "یہ کہنے کی حد تک ہے۔۔۔فوقیت دیتا کوئی نہیں۔۔۔"
 "تم اپنی بات کرو۔۔"
 "میں تو نہیں چاہتی ،میرے سے کوئی آگے نکلے۔۔"
 "یہ خود غرضی ہے۔۔۔"
 "نہیں یہ حقیقت ہے۔۔۔"
 "صبا یہ خود غرضی ہی ہے۔۔۔صرف اپنی ذات تک محدود رہنا۔' 
 " سچ بولنے کے لئے،جرأت چاہئے۔۔۔میں سچ بول رہی ہوں منافقت نہیں کر رہی ہوں ۔
۔۔ آپ لوگوں کی طرح۔۔۔سنو!
 جہاں سچائی کا فقدان ہوگا ؛ وہاں منافقت کا راج ہوگا ۔ کمپیٹیشن کو،آپ جو مرضی نام دے لیں ،ہے تو ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی تمنا نا!۔جہاں ذہن میں برتری کا تصور ہو،جہاں دوسرے کو پچھاڑنے کی تگ و دو ہو ، وہاں ہیلتھی کمپٹیشن کیسا۔۔۔؟ یہ ساری ،الفاظ کی گیم ہے ، پڑھے لکھوں کی خود فریبی۔۔۔۔۔!"
"سینڈ وچ بھی لے لو ۔
۔۔کہ باتیں ہی کرتی رہو گی!"سارہ نے صبا کا ذہن مبذول کرنے کی ناکام کوشش کی۔
"ہاں لیتی ہوں"
صبا نے سینڈوچ کی بائیٹ لی۔وہ سینڈ وچ چباتے ہوئے بول نہیں سکتی تھی ۔۔۔ اس کا مُنہ بھرا ہوا تھا۔ جونہی مُنہ میں تھوڑی جگہ بنی۔ لقمہ حلق سے نیچے اترا وہ گویا ہوئی:
"سارہ !۔
۔۔ہم ،اس سسٹم میں ،جتنا زیادہ پڑھتے ہیں ،ہم سدھرتے تھوڑی ہیں۔۔۔بلکہ منافقت میں، خود کفیل ہوتے جاتے ہیں۔سچ کو جھوٹ میں ٹرانسفام
( transform)کرنے میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔کسی کے پاس الفاظ کا ذخیرہ جتنازیادہ ہوتا ہے ؛اس کے پاس بات کا مفہوم بدلنے کے اینگلز( angles )اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ جتنے پائے کے پروفیشنل انٹلک چو ئل ( professional intellectuals ) ہیں،بکاؤ مال ہیں۔
ان کے الفاظ بکتے ہیں۔الفاظ کو توڑنا،ان میں نئے مفاہیم ڈالنا،پیسوں کے پروپوشنل(proportional) ہے۔۔۔یہ جتنے بڑے وکیل ہیں ،یہ انصاف دلوانے کی فیس تھوڑی لیتے ہیں۔۔۔سچ چھپانے کی فیس لیتے ہیں!
یہ ،وکیل،جو دن رات کتابوں کے بوجھ میں دبا رہتا ہے،وہ سچائی کا متلاشی نہیں ہے،بلکہ وہ الفاظ کی ایسی اینٹیں تراش رہا ہوتا ہے جو سچائی کی پگڈنڈی کو جھوٹ کی پختہ سڑک میں تبدیل کر سکے ۔
سارہ ۔۔۔!
کمپٹیشن کی عمارت ایگو ( ego) کی اینٹ اور سلفش نیس(selfishness) کے گارے سے تعمیر ہوتی ہے۔۔۔اس میں خیر کی توقع کیسی ۔۔۔؟؟"
"کہاں سے سیکھتی ہو ۔۔۔یہ فضول باتیں"۔سارہ نے استفسار کیا
"یہی حقیقت ہے۔۔۔جسے تم جیسے کم علم فضول سمجھتے ہیں"
 سارہ نے صبا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
"صبا،تمہارے بقول ہمارا تعلیمی نظام منافقین کی تعدادمیں اضافہ کر رہا ہے۔۔۔یو مین چرننگ آؤٹ ہپوکریٹس (you mean churning) out hypocrates ۔۔۔یہی مطلب ہے ناتمہارہ۔۔۔؟!
"آف کورس "صبا نے فوراََ جواب دیا۔
" صبا ،اگر ایسا سوچتی ہو تو خود کیوں اس سسٹم کا حصہ بنی ہوئی ہو؟۔۔۔پڑھائی چھوڑو،باہر نکلو ان منافقوں سے،۔
۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس تھالی میں کھاؤ اسی میں چھید کرو۔۔۔کیا تم خود منافقت نہیں کر رہی؟۔۔
"واہ ! ۔۔۔خوب!!"صبا نے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔
"فلیٹری ولیٹری چھوڑو،مجھے جواب دو"سارہ نے کندھے اٹھاتے ہوئے کہا۔
"میں سچ میں تمہاری تعریف کر رہی ہوں۔میں تمہیں طنز نہیں کر رہی۔حوصلہ رکھو ،تمہیں سیٹس فائی( satisfy )کروں گی۔
one: no doubt our education system is churning out hypocrates; more one learns becomes more hypocrates...what I said is, as it is .
?two: why don't I leave this system...

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen