Episode 19 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 19 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

لڑکا جلد ہی کام سیکھ گیا ۔۔۔کام مشکل بھی نہیں تھا۔۔۔اسکے کام کرنے کی رفتار بھی پہلے سے بہتر ہوگئی تھی۔اس کے ا با نے اسے اب ایک اور گھر میں بھی متعارف کروادیا تھا۔۔لڑکا سکول سے آتا،کھانا کھاتا،اپنا ہوم ورک مکمل کرتا اور کپڑے بدل کر کام پہ چلا جاتا۔ وہ ایک گھر کا کام مکمل کرتا، پھر بنگلے میں کام کے لئے چلا جاتا۔۔۔جہاں کبھی وہ کھیلنے جاتا تھا۔
۔۔لیکن اب وہ کھیلنے نہیں ،کام کرنے جاتا تھا۔۔۔
۔۔۔لیکن وہ کام اس لگن اورمحبت سے کرتاکہ وہ کام میں کھیلنے کا مزہ لے لیتا۔۔۔۔
وقت نے اسے سکھا دیا تھاکہ۔۔۔
کام میں دلچسپی اسے انجوائے منٹ( enjoyment ) بنا دیتی ہے۔۔
 جیسا کہ۔۔۔
Climbing of mountain is difficult, but is enjoyment.
۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے گھروں کی خواتین جس قدر مادی اشیاء میں گھری ہوتی ہیں،اسی قدر وہ ان بے جان چیزوں میں رہنے پر مجبور بھی ہوتی ہیں۔گھر کے ڈرائنگ روم میں ہونے والی اکٹیوٹی ( activities)کا علم ان کے پاس کم جبکہ گھر میں موجود سرونٹس( servants) کے پاس زیادہ ہوتا ہے۔اُنہیں،سرونٹس سے ہی ساری جانکاری حاصل ہوتی ہے۔ و ہی بڑے گھروں کا کیمونی کیشن نیٹ ورک( Communication network ) ہوتے ہیں۔
باتیں،میل سرونٹس سے فی میل سرونٹس اور وہاں سے گھر کی خواتین تک پہنچتی ہیں۔۔۔
ایک سہ پہر، جب نوکرانی مالکن کے لئے چائے لے کر گئی ۔۔۔ نوکروں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ گھر کے افراد کو ،ا ن کی خوشنودی کے لئے ،کوئی انفرمیشن( information ) دیتے رہتے ہیں تا کہ ان کی اہمیت بنی رہے ۔نوکرانی نے مالکن سے کہا:"بیچارہ فیقا مالی۔
۔۔! " 
"فوت ہوگیا ہے ۔۔۔؟"مالکن نے یکدم کہا۔
"نہیں۔۔۔!بیمار ہے" نوکرانی نے اضافہ کیا ،"اب وہ ڈیوٹی پر بھی نہیں آتا۔۔۔"
"مالی کا کام کون کرتا ہے۔۔۔؟"مالکن نے پوچھا۔
 "اس کا بیٹا "
 "بیٹا۔۔۔؟! "مالکن نے پوچھا " کتنا ہے۔۔۔؟"
" آٹھویں جماعت میں ہے ۔
۔۔بیچارہ ،پہلے سکول جاتا ہے۔۔۔بڑا ہوشیار ہے۔۔۔!"
مالکن چائے کے سپ لیتی رہی جبکہ نوکرانی وقفے وقفے سے بولتی رہی :"یہ چھوٹاسا تھا ۔۔۔ہمارے بنگلے میں آتا تھا۔۔۔کبھی اسی پارک میں کھیلتا تھا۔۔۔اب بیچارہ کام کرتا ہے۔۔۔! ۔۔۔ ماڑی قسمت !!"
مالکن کی لڑکی،جو اپنی امی کے پاس بیٹھی نوکرانی کی باتیں سن رہی تھی۔
اسے نوکرانی کی باتوں سے قطعن کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔۔اس جملے سے چونک گئی۔
"کبھی اسی پارک میں کھیلتا تھا ۔"
 کبھی اسی پارک میں کھیلتا تھا۔۔۔!!!!لڑکی نے حیران ہوتے ہوئے دل میں جملہ دھرایا۔
اس جملے نے لڑکی کو بچپن کی یادوں کی آغوش میں دھکیل دیا۔۔۔یادوں کی آغوش نے اپنی بانہیں کھول دیں۔
۔۔تصور کی دنیا آباد ہوگئی۔۔۔لڑکی مکمل طور پر یادوں کی اس وادی میں چلی گئی جسے بھلانے کی کوشش وہ کئی سال سے کر رہی تھی۔۔۔تصورات کی دنیا میں ، وہ لڑکے کے پاس کھڑی تھی۔لڑکا اس سے پوچھ رہا تھا:
"اسی گھر میں رہتی ہو۔۔۔؟"
"کھیلنے آئی ہو۔۔۔؟"
"تم بھاگو ۔۔! میں تمہیں پکڑتا ہوں! "
"روز کھیلنے آیا کرو گی۔
۔۔؟"
 اس کے سوالات میں نئے سوالات کا اضافہ ہوگیا تھا۔۔۔
 وہ بہت متجسس ہوگئی جاننے کے لئے:
"اب ،وہ کتنا بڑا ہوگیا ہوگا۔۔۔!!"
"کیسا دِکھتا ہے۔۔۔!!"
"پتہ نہیں اسے۔۔۔وہ یاد بھی ہے کہ نہیں جب میں اس کے پاس گئی تھی۔"
لڑکی نے خود کو سنبھالا۔
وہ خیالات کی دنیا سے باہر آئی۔۔۔ وہ وہاں سے اٹھی اور اسی کمرے میں گئی جس کمرے کی کھڑکی سے وہ لڑکے کو دیکھا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اسی کا کمرہ تھا۔۔۔اب نوکرانی اس کی نگرانی پر بھی مامور نہیں تھی۔۔۔وہ بڑی ہو گئی تھی۔۔۔سمجھدار بھی۔بلکہ نوکرانی کو اجازت لے کر اندر آنا پڑتا تھا۔۔۔۔وہ بغیر روک ٹوک لڑکے کو دیکھ سکتی تھی۔۔۔وہ دیکھ رہی تھی۔۔۔
آج وہ تتلیوں کے پیچھے بھاگ نہیں رہا تھابلکہ کام میں مگن تھا۔اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے جیسا کہ اسے اس وقت بھی علم نہیں ہوتا تھا۔۔۔ لڑکی اسے کافی دیر دیکھتی رہی۔۔۔اب بھی وہ اسے کام کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوئی۔۔۔
لڑکی کافی دیر دل میں سوچتی رہی:"اس کو کیا پتہ تھا کہ جہاں آج یہ کھیل رہا ہے کل یہیں کام بھی کرنا ہوگا۔
۔۔بیچارہ !۔۔۔"
وہ متجسس تھی ۔۔۔وہ اس کی شکل دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔لیکن وہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔وہ کھڑکی سے جس فاصلے پر تھا وہاں سے لڑکے کی قدو قامت کا تو اندا زہ ہوتا تھا ، نقوش واضح نہیں ہو رہے تھے۔۔۔اس نے لڑکے کو دیکھنے کا پروگرام کل پے موقوف کردیا۔۔۔ویسے بھی اسے روز ہی تو آنا تھا۔۔۔
اگلے روز وہ اپنے کمرے میں بیٹھی لڑکے کا انتطار کر رہی تھی۔
۔۔
اسے لڑکے کے آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔۔۔ وہ حیران رہ گئی ۔۔۔اس نے دیکھا ،لڑکا کھڑکی کے پاس ہی کام کر رہا ہے۔۔۔وہ اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔لڑکا کھڑکی کے بہت قریب تھا۔۔۔لڑکے کے نقوش واضح نظر آ رہے تھے۔۔۔لڑکی اس کے ،کام کے دوران،اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ انتہائی مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔
۔
وہ خود کلامی کرنے لگی:
"ہم سے تو کہیں اچھا ہے ۔۔۔پڑھائی بھی کرتا ہے اور گھر بھی چلاتا ہے۔۔۔ادھر ہم ،امیر والدین کے چشم و چراغ،نہ پڑھائی میں دلچسپی اور نہ ہی زندگی سے خوش ۔۔۔۔۔جتنے مادی چیزوں سے گھرے ہوئے ، اتنے ہی اندر سے کھوکھلے ۔۔۔!
 سب کچھ ہوتے ہوئے بھی، بھوکے۔۔۔!
 سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ،والدین سے کچھ نہ ہونے کی شکایت۔
۔۔ !
 شکایات سے بھرے دامن ۔۔۔!
اُدھر یہ ،کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ،زندگی سے مطمئن۔۔۔زندگی بِتانے کے انداز کوئی اس سے سیکھے۔۔۔ کیا دولت پائی ہے!!"
ہر دل میں اچھے لوگوں کے لئے بے پناہ جگہ ہوتی ہے۔۔۔اور لڑکے کی خوبیوں نے لڑکی کے دل میں احترام کی جگہ بنا لی تھی۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی رفتار کوئی وقت سے ہی پوچھے ۔
۔۔ دو سال کا عرصہ اتنی جلدی گزر گیا۔۔۔پتہ ہی نہ چلا ۔اس کا احساس اس وقت ہوا ،جب نوکرانی نے مالکن کوچائے دیتے وقت بتایا کہ مالی کے لڑکے نے 'مالی کا 'کام چھوڑ دیا ہے۔۔۔
"کیوں۔۔۔؟ "مالکن نے پوچھا۔
" اس نے میٹرک پاس کرلیاہے۔۔۔ کہتے ہیں، اسے وظیفہ ملے گا۔۔۔!"
لڑکی نے جا کر اسی کھڑکی میں سے دیکھا جس سے وہ ہمیشہ دیکھا کرتی تھی۔
۔۔
 بنگلے کا لان ویران لگ رہا تھا۔۔۔جیسے گھر والوں کے بغیر گھر۔۔۔
لان بھی اداس دِکھ رہا تھا۔۔۔
لڑکے کی جگہ نیا مالی بھی آ گیا تھا لیکن۔۔۔ لان ویران ہی لگ رہا تھا۔۔۔تتلیاں بھی پھولوں پر نہیں آئیں تھیں۔۔۔
اس لڑکے کے جانے سے لان میں کتنی تبدیلی آگئی تھی۔یہ لان جانتا تھا،یا لڑکی۔۔۔
لڑکی نے محسوس کیا:
"حسین لمحات کتنے مختصر ہوتے ہیں۔۔۔! !! "

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen