Episode 2 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 2 - زنجیر - فاروق انجم

شہر کی معروف شاہراہ پر واقع پانچ منزلہ عمارت کے سامنے سیار رنگ کی قیمتی کار رُکی تو ڈرائیور نے مستعدی سے اپنی سیٹ چھوڑ کر کار کا پچھلا دروازہ کھولا ،چہر ے پر تمکنت لئے ہاشم زبیری کار سے باہر نکلا۔ہاشم زبیری کا قد چھ فٹ کے لگ بھگ تھا۔جسم بھرا ہوا،پیٹ نکلا ہوا ، آنکھوں پر سیاہ قیمتی عینک،تراش خراش کی ہوئی مونچھیں،نفیس پینٹ کوٹ خوبصورت ٹائی اس کے اچھے ذوق کی عکاس تھی ،اس کی شخصیت میں ایک رعب اور دبدبہ تھا۔

ہاشم زبیری اپنی مخصوص چال کے ساتھ عمارت کے داخلی دروازے کی طرف چل پڑا۔ پانچ منزلہ اس عمارت کا مالک ہاشم زبیری ہی تھا۔ اس کے پہلے فلور پر اس کی کمپنی کا آفس تھا جبکہ باقی حصہ مختلف کمپنیوں کو اس نے کرائے پر دیا ہوا تھا۔وہ محض اس عمارت سے ہر ماہ لاکھوں کا کرایہ وصول کرتا تھا۔

(جاری ہے)

بزنس کی دنیا میں ہاشم زبیری کا ایک نام تھا۔
اس کے انتہائی قریب رہنے والے جانتے تھے کہ وہ کتنا بڑا بزنس مین اور سرمایہ کار ہے۔دور سے جاننے والے تو محض اس کو ایک امیر ترین بزنس مین کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے۔ملک کے اندر اس کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی بھی تھی۔ اس کے اپنے ذاتی کئی ٹرالے چلتے تھے۔
شہر میں ایک بزنس مین کی پہچان رکھنے والا ہاشم زبیری کا دوسرا چہرہ سب سے مخفی تھا۔
اس کی حقیقت اس کی بیوی بھی نہیں جانتی تھی کہ ہاشم زبیری ایک ’معزز‘ جرائم پیشہ بھی ہے۔ جو اپنی کالی دولت کو بزنس کی چکی میں گھما کر سفید کرنے کے لئے دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔اس کے کالے دھندوں کے بارے میں وہی جانتے تھے جو اس کے بہت ہی قریب تھے اور اس کے ساتھ اس کام میں شامل تھے۔ہاشم زبیری کے سینے میں دھڑکنے والا دل ایسا سنگلاخ پتھر تھا کہ اس حقیقت کا اسی کو پتہ چلتا تھا جس کو اس پتھر سے گہری چوٹ پہنچتی تھی ۔
ہاشم زبیری کے بہت ہی قریب ترین رہنے والوں میں ایک نام جنید حبیب کا تھا۔کئی سال پہلے جب آسمان خوب بارش برسا رہا تھا تو ہاشم زبیری کا ڈرائیور نور خان اس بچے کو اپنے ساتھ لے آیا تھا۔نور خان کسی کام سے واپس گاڑی میں آرہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ سڑک کنارے کھڑے اس معصوم بچے پر پڑی تو نرم دل نور احمد نے کار روک لی ۔وہ حیران تھا کہ رات کے اس وقت برستی ہوئی بارش میں یہ بچہ کس کا ہے۔
نور احمد نے اس بچے کو پیار سے اپنی کار میں بیٹھایا اور پوچھا کہ اسے کہاں جانا ہے،کیا وہ راستہ بھول گیا ہے۔؟تب بچے نے بتایا تھا کہ وہ راستہ نہیں بھولا ہے،بلکہ وہ اس دنیا میں اکیلا ہے۔اس کے ماں باپ نہیں ہیں،جس رشتے دار کے پاس وہ رہتا تھا انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا ہے۔
واپسی پر جب ہاشم زبیری نے نور خان کے ساتھ بچہ دیکھا تو اس کے بارے میں دریافت کیا۔
نور خان نے ساری بات بتادی۔جانے وہ کونسی گھڑی تھی جب ہاشم زبیری کے دل میں رحم کی بوند پھوٹی ،یا پھر اپنا کوئی فائدہ سوچ کر اس نے بچے کی اچھی پرورش اور تعلیم کا حکم دے دیا۔
نور احمد دنیا سے چلا گیا اور جنید جوان ہوگیا۔وہ پڑھ لکھ گیا تھا۔اس کے پاس بزنس کی ڈگری تھی۔وہ خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا کہ کوئی بھی لڑکی اس کی طرف ایک بار دیکھ کر اپنا دل ہار سکتی تھی۔
جنیدنے یہ بات اپنے دل و دماغ میں زندہ رکھی ہوئی تھی کہ ہاشم زبیری کا اس کی زندگی پر بہت بڑا احسان ہے۔جس نے اس کو نئی زندگی دی،اسے پڑھایا لکھایا اور اچھا انسان بنایا۔وہ نور احمد کے احسان کو بھی فراموش نہیں کرسکا تھا۔
جب جنیدکی تعلیم ختم ہوگئی تو ہاشم زبیری اسے اپنے ساتھ رکھنے لگا ۔جنید واحد نوجوان تھا جو ہاشم زبیری کے گھر جاسکتا تھا۔
اس کی بیوی،اور بچوں کے ساتھ بات کرسکتا تھا۔ وہ بھی جب چاہتے تھے اپنے بنگلے سے ملحق سرونٹ کواٹر سے جنیدکو بلا لیتے تھے۔
جنید کو دو سال ہوگئے تھے ہاشم زبیری کے ساتھ اس کے دفتر میں آتے ہوئے۔بہت سے کام اس کے ذمے ہوتے تھے۔جو کام ہاشم زبیری کسی کو نہیں کہتا تھا وہ کام وہ جنید سے کہہ دیتا تھا اور جنید اس کام کی گہرائی میں جائے بغیر محض یہ خیال کئے کہ یہ اس کے مالک کا حکم ہے ،فوراً وہ کام کرنے کے لئے دوڑ پڑتا تھا۔
وہ اپنی وفاداری اور ذمہ داری سے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے مالک کا حکم بجا لانے میں کسی تغافل سے کام نہیں لیتا ہے۔اس کے کام اور سعادتمندی سے ہاشم زبیری خوش تھا اور اکثر وہ اس بات پر خود ہی فخر کیا کرتا تھاکہ اس نے صحیح جگہ وقت اور پیسہ لگایا ہے۔مستقبل میں وہ جنید سے اور بھی فائدہ لے سکتا ہے۔ 
جب جنید اپنی تعلیم مکمل کرچکا تھاتو پہلی بار ہاشم زبیری نے اسے اپنے پاس بلا کر کہا تھا۔
”میں چاہتا ہوں کہ اب تم عملی زندگی میں قدم رکھ لو۔“
اس کے بعد جنید کوہاشم زبیری اپنی ٹرانسپورٹ کمپنی کے آفس میں لے گیا ۔شہر کی بڑی سڑک پر اور بھی کئی کمپنیوں کے ٹرانسپورٹ گودام اور دفاتر تھے،لیکن ہاشم زبیری کا گودام سب سے بڑا اور منفرد تھا۔ایک بڑا بورڈ آویزاں تھا جس پر ’ہاشم ٹرانسپورٹ کمپنی‘ لکھا دور سے دکھائی دیتا تھا۔
اس گودام کے ساتھ ہی ایک دفتر بنا ہوا تھا،وہاں اس کمپنی کا منشی بیٹھتا تھا جو آنے والے مال کی بکنگ اور ڈلیوری کا کام کرتا تھا،رات کو اس کی جگہ دوسرا آدمی آجاتا تھا۔اس جگہ رات دن کام ہوتا تھا۔چار ٹرک آرہے ہیں تو پانچ ٹرک مال سے لوڈ ہوکر روانہ ہورہے ہیں۔ اس دفتر کے پیچھے ایک اور دفتر تھا،اور پھر ایک راہداری آتی تھی اور پھر سامنے ایک کمرہ دکھائی دیتا تھا۔
اس کمرے میں ہاشم زبیری کا خاص آدمی بیٹھتا تھا جو اس ٹرانسپورٹ کمپنی کی پوری طرح سے دیکھ بھال کرتا تھا۔اس کا نام اخترخان تھا۔
جنید نے جب پہلی بار اس شخص کو دیکھا تو اس کے جسم میں عجیب سی سنسنی سی پھیل گئی تھی۔اس کا پانچ فٹ دس انچ کا قد تھا،جسم صحت مند اور چہرہ پٹھانوں کی طرح سرخ و سفید تھا۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی۔مونچھوں کو تاوٴ دیا ہوا تھا اور چھوٹی چھوٹی داڑھی ایسی تھی جیسے کئی دن کی شیو بڑھی ہو،حقیقت میں اس کے چہرے پر ایسی ہی داڑھی رہتی تھی۔
اس کے اندر کی کرختگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
جونہی ہاشم زبیری اس کمرے میں داخل ہوا ،اختر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ دونوں نے کچھ باتیں کیں اور پھر ہاشم زبیری نے جنید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا۔
”اس سے ملو یہ جنیدہے۔“
اختر نے جنید کی طرف غور سے دیکھا اور بولا۔”یہ وہی جنید تو نہیں ہے جو ہوسٹل میں پڑھائی کررہا تھا۔
اختر کا لب ولہجہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ کوئی پٹھان ہے۔
ہاشم زبیری مسکرایا۔”ہاں یہ وہی ہے۔تعلیم مکمل کرچکا ہے۔اب یہ میرے ساتھ کام کرے گا۔تمہارے پاس آتا جاتا رہے گا۔جو کہے اسے غور سے سننا اور پھر اس پر ایسے ہی عمل کرنا جیسے میں نے ہی کہا ہو…کیا سمجھے۔؟“
”سب سمجھ گیا۔“اختر نے سر ہلایا۔
”ہم چلتے ہیں۔
بس یہی بتانا تھا۔“ہاشم زبیری نے کہا اور جنید کو لے کر اس کمرے سے باہر نکل گیا ۔ 
جنید کی اختر کے ساتھ وہ پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد ہاشم زبیری کا پیغام لے کر جنیدکئی بار اختر کے پاس گیا تھا۔کبھی کوئی لفافہ جنید کے ہاتھ میں ہوتا تھا،اور کبھی وہ جاکر محض اتنا ہی کہتا تھا۔
”افضل کو گاڑی میں بیٹھا دو۔اُسے آج رات ہی جانا ہے۔
اختر اس کی بات غور سے سنتا اور اثبات میں سر ہلاکر جواب دیتا۔” آج ہی بیٹھ جائے گا۔“
جنید کے لئے آفس میں الگ کمرا تھا۔جہاں وہ چند مخصوص فائیلیں چیک کرتا تھا اور جو بات اسے ہاشم زبیری تک پہنچانی ہوتی تھی وہ اس تک پہنچا دیتا تھا۔ہاشم زبیری کے ساتھ کسی بھی اہم معاملے پربات کرنے کی اجازت صرف جنید کو ہی تھی اور اس کے بعد اگر ہاشم زبیری چاہتا تھا تو وہ متعلقہ آدمی سے بات کرلیتا تھا۔
ہاشم زبیری اپنی مخصوص تمکنت سے بھری چال کے ساتھ اپنے آفس روم میں پہنچا تو کچھ دیر کے بعد ہی جنید نے کمرے میں جھانک کر دھیمے لہجے میں کہا۔
”کیا میں اندر آسکتا ہوں سر۔؟“
”ہاں آجاوٴ۔“ہاشم زبیری نے اجازت دی۔
جنید نے دروازہ بند کیا اور اجازت ملتے ہی سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہی اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل ہاشم زبیری کے سامنے رکھ دی۔
”کیا ہے یہ۔؟“ہاشم زبیری نے ایک نظر فائل کی طرف دیکھا۔
”ریزائن ہے سر۔“جنید نے جواب دیا۔
”تمہارا…؟“غیر متوقع طور پر ہاشم زبیری کے ہونٹوں پر ہلکی تبسم کی لیکر نمودار ہوگئی۔
”میری زندگی آپ کے احسانوں تلے سانس لے رہی ہے۔میں آپ کا غلام ہوں ۔ میں ایسا کرنے کی بجائے موت کو منہ سے لگا سکتا ہوں۔یہ ریحان احمدکا ریزائن ہے۔
“جنید نے کہا۔
ایک دم ہاشم زبیری چونکا۔”ریحان احمد کا ریزائن ہے۔کہاں ہے وہ۔؟“
”وہ تو نہیں آیا۔“
”تو پھر یہ ریزائن تم تک کیسے پہنچا۔؟“
”آپ کے آنے سے دس منٹ پہلے ایک آدمی آیا تھا وہ ریحان احمد کا ریزائن دے کر چلا گیا۔“جنید نے بتایا۔
ہاشم زبیری نے اپنی نگاہیں کاغذ پر جما دیں۔بظاہر وہ اس کا ریزائن پڑھ رہا تھا لیکن اس کے دل و دماغ میں ایک لاوا اُبل رہا تھا۔
جس کی اس نے اپنے ماتھے پر ایک شکن بھی ابھرنے نہیں دی تھی۔جنید کو لگ رہا تھا ہاشم زبیری پرسکون ہے۔
”ریحان نے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ ایک دوسری کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے کی وجہ سے یہ نوکری چھوڑ رہا ہے۔ہم نے کیونکہ اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اس لئے وہ ہماری کسی شرط کا پابند نہیں ہے۔“ہاشم زبیری نے ایک دم جنید کی طرف دیکھا۔
”تم پتہ کرو ریحان نے کونسی کمپنی جوائن کی ہے۔“
”ٹھیک ہے سر۔“جنید نے سر ہلایا۔
”اب تم جاوٴ۔“ہاشم زبیری نے لاپروائی سے وہ کاغذ ایک طرف رکھ دیا۔جونہی جنید کمرے سے باہر نکلا،ہاشم زبیری کے اندر ابلنے والا لاوا اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگا۔اس کے کرخت چہرے پر چنگاڑیاں برسنے لگیں۔آنکھوں میں سرخی اُتر آئی اور وہ دانت پیس کر بولا۔
”کل کا مجبور لاچار بے بس روٹی سے تنگ ریحان احمد میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا کہ مجھے نوکری دے دو۔وہ ا س کمپنی کے لئے اپنا تن من لگا دے گا۔آج میری کمپنی سے حاصل کیا ہوا تجربہ اور مارکیٹ میں جان پہچان دوسری کمپنی کے لئے استعمال کرے گا۔ میرے مد مقابل کھڑا ہوگا۔ تمہاری یہ جرأت تجھے بہت مہنگی پڑے گی ریحان احمد تم کو پچھتانے کا بھی موقعہ نہیں ملے گا۔“ ہاشم زبیری نے غصے اور جنون میں وہ کاغذ اس طرح سے مروڑ کر سامنے پھینک دیا جیسے وہ ریحان احمد کے سر پر بھاری پتھر مار رہا ہو۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum