Episode 3 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 3 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری کے اُصولوں میں اپنے دشمن اور اسے نقصان پہنچانے والے کے لئے معافی کا لفظ ہی نہیں تھا۔سارا دن وہ اپنے کام کاج میں مصروف رہا اور یہ انتظار بھی کرتا رہا کہ کب جنیداس کو یہ خبر لا کر دیتا ہے کہ ریحان نے کس کمپنی کو جوائن کیا ہے۔
جنید کو ہاشم زبیری کے ساتھ رہتے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا تھا۔ہاشم زبیری کے ساتھ رہتے ہوئے وہ ہوشیاری سیکھ گیا تھا۔
اپنے دماغ کو کیسے استعمال کرنا ہے وہ یہ بات بھی جان گیا تھا۔کس بات کا کیسے پتہ چلانا ہے وہ کئی راستے نکال لیتا تھا۔جو آدمی جنید کو ریحان کا ریزائن دینے کے لئے آیا تھا،جنید نے باتوں باتوں میں اس سے یہ دریافت کرلیا تھاکہ وہ کون ہے۔اس آدمی نے اپنا تعارف ایک اسٹور کے سیل مین کی حیثیت سے کرایا تھا۔ اس اسٹور کا نام اس نے نوٹ کرلیا تھا۔

(جاری ہے)

جنید سیدھا اس اسٹور پر چلا گیا ۔ایک کاوٴنٹر کے پیچھے وہ شخص جنید کو کھڑا نظر آگیا۔ وہ سیدھا اس کے سامنے جاکر کھڑا ہوا۔ایک دم جنید کو اپنے سامنے دیکھ کر پہلے تو چونکا اور پھر وہ مسکرایا ۔
”آپ یہاں۔؟“
”اس اسٹور میں آیا تو کچھ خریداری کے لئے تھا لیکن آپ کو دیکھ کر آپ سے ملنے کے لئے آگیا۔“جنید بولا۔
”میں کیا خدمت کرسکتا ہوں آپ کی۔
؟“اس آدمی کا لہجہ سیل مین کی طرح تھا۔
جنید نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا۔”ریحان صاحب بھی آپ کے ساتھ ہی یہاں کام کرتے ہیں۔“
”وہ یہاں کیوں کام کریں گے جناب۔وہ جس کمپنی میں کام کرتے ہیں اس کا آفس تو اوپر دوسری منزل پر ہے۔“
”آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے۔“
”بس وہ یہاں سے خریداری کرتے ہیں۔روزانہ ہیلو ہائے کرتے ہیں اور پھر آج انہوں نے مجھے کہا کہ میں وہ لفافہ آپ کو پہنچا دوں۔
“اُس نے بتایا۔
”اچھا اب یہاں تک آیا ہوں تو ان سے بھی مل لیتا ہوں۔“جنید نے کہا اور اس سے مصافحہ کرکے اوپر چلا گیا۔آدھے گھنٹے کے بعد جب جنید اس عمارت سے باہر نکل رہا تھا تو اس کے پاس ریحان کے بارے میں تمام معلومات تھی۔
وہ کمپنی حال ہی میں وجود میں آئی تھی۔اس سے قبل وہ کمپنی کچھ دوسرے کاروبار کرتی تھی۔ ریحان کو اس کمپنی کے مالکان نے بھاری مراعات کے ساتھ نوکری دی تھی۔
ریحان پر ان کی کئی ہفتوں سے نگاہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کمپنی بھی وہی کچھ تیار کرکے مارکیٹ میں دینے والی تھی جو ہاشم زبیری کی کمپنی کام کرتی تھی۔اس کمپنی کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کمپنی کے مالکان نے ریحان کومہرہ چن کر اپنے گروپ میں شامل کرلیا تھا۔جنید نے سب کچھ ہاشم زبیری کو بتادیا ۔ہاشم زبیری نے اطمینان سے سننے کے بعد کہا۔
”تمہارا کیا خیال ہے،ریحان نے ایسا کرکے اچھا کیا ہے۔
؟“
”میرا نہیں خیال کہ ریحان نے یہ آپ کے احسانات کا اچھا بدلہ دیا ہے۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔“جنید نے جواب دیا۔
”میں نے اسے مارکیٹ کے لئے اختیارات دیئے،میری کمپنی میں بیٹھ کر اس نے مارکیٹ میں نام بنایا،تجربہ حاصل کیا اور صلے میں اس نے مراعات کا انبار دیکھ کر یہ بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ خود آکر ریزائن پیش کرتا۔اس نے ایک معمولی سیل مین کو اس کام کے لئے منتخب کرکے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس کی نظروں میں ہماری یہ حیثیت ہے کہ نوکری ملتے ہی وہ اس آفس میں قدم رکھنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔
“ہاشم زبیری کا لہجہ پرسکون تھا۔ اس کے اندر کا غصہ اس کے چہرے پر براجمان بناوٹی سکون میں مخفی تھا۔
”کیا میں اس سے بات کروں۔؟“کچھ ثانئے کی خاموشی کے بعد جنید نے پوچھا۔
”کیا بات کرو گے۔؟“ہاشم زبیری نے اس کی طرف دیکھا۔
”یہ کہ وہ ایسا کرکے غلطی کررہا ہے۔“جنید بولا۔
”جو غلطی کرچکا ہو پھر اس سے بات نہیں کی جاتی۔
“ہاشم زبیری معنی خیز انداز میں بولا۔
”وہ ہماری مارکیٹ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ہمارے ڈسٹری بیوٹرز وہ اپنی پروڈاکٹ کی سیل کے لئے رضا مند کرسکتا ہے۔اسے ہماری مارکیٹ کی ایک ایک چیز کا علم ہے۔“جنید نے کہا۔
”کیا اس کمپنی نے کام شروع کردیا ہے۔“ہاشم زبیری نے سوال کیا۔
”پندرہ بیس دنوں کے بعد ان کی کمپنی پروڈکشن میں آجائے گی۔
“جنید نے جواب دیا۔
”اس کا مطلب ہے کہ پندرہ بیس دن ریحان پروڈکشن کی تیاری میں مصروف رہے گا۔“ ہاشم زبیری کا لہجہ اور بھی گہرا ہوگیا تھا۔
”یس سر۔“
”بھول جاوٴ اس بات کواور ریحان کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔“ہاشم زبیری نے ایسے کہا جیسے اس نے اپنی سگریٹ سے راکھ جھاڑ دی ہو۔ہاشم زبیری نے جنید کوجانے کا کہہ کر اپنے آگے ایک فائل کھول لی۔
جنید کے وہم و گھمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہاشم زبیری اس غلطی کی ریحان کے لئے کیا سزا تجویز کر چکا ہے۔
### 
ہاشم زبیری کی بیوی ممتاز بیگم پچھلے چند سالوں سے شوگر اور دل کی مریضہ بن کر ہسپتال اور گھر میں معلق ہو کر رہ گئی تھی۔بار بار ہسپتال میں رہنے سے وہ اکتا گئی تھی اور چاہتی تھی کہ اب کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں اپنے گھر میں ہی لے۔
چند دن قبل بھی وہ ہسپتال میں ہی داخل تھی۔اپنی ضد سے ممتاز بیگم نے ہسپتال سے چھٹی لی اور گھر آگئی جہاں اس کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے اور بھی خراب ہوگئی،اس کے باوجود وہ ہسپتال جانے کے لئے رضا مند نہیں تھی۔
ہاشم زبیری کا دوست ڈاکٹر رفاقت صبح اور شام کو خود ہی ممتاز بیگم کو دیکھنے کے لئے گھر آجاتا تھا۔اس کے علاج سے ممتاز بیگم کی طبیعت کچھ بہتر ہوگئی تھی۔
اس وقت جب ہاشم زبیری گھر پہنچا تو ڈاکٹر رفاقت کمرے میں موجود ممتاز بیگم کوچیک کرکے کچھ دوائیاں لکھ رہا تھا۔اس وقت اس کے پاس ایک ملازم بھی کھڑا تھا۔ممتاز بیگم جاگ رہی تھی۔
”کیسی طبیعت ہے ڈاکٹر میری ضدی بیوی کی۔“ہاشم زبیری پاس ہی بیٹھ گیا۔
”ان کی ضد کا ایک حل نکالا ہے میں نے۔“ڈاکٹر رفاقت نے لکھتے ہوئے بغیر اس کی طرف دیکھے کہا۔
”وہ کیا حل ہے۔“
”اب یہ ہسپتال میں رہنا نہیں چاہتی ہیں۔ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس کا ان کے پاس ہونا بہت ضرروی ہے۔جو ان کو انجکشن لگا سکے،وقت پر دوائی دے سکے اور جیسے ایک نرس مریض کی دیکھ بھال کرتی ہے ویسے ان کی دیکھ بھال ہو۔“ڈاکٹر رفاقت نے بتایا۔
”یہ تو بہت اچھی تجویز ہے۔میری مشکل بھی حل ہوجائے گی اور میں بھی کسی حد تک بے فکر ہوجاوٴں گا۔
“ہاشم زبیری نے ممتاز بیگم کی طرف دیکھا۔
”آپ میری فکر کیوں کرتے ہیں۔؟“ممتاز بیگم نے ہاشم زبیری کی طرف دیکھا۔
”تو کیا اس ڈاکٹر کی فکر کروں۔“ہاشم زبیری زیر لب مسکرایا۔
”میں ٹھیک ہوں۔“ممتاز بیگم نے اس جملے کو اپنی عادت بنا لیا تھا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہیں کیونکہ ان کا بلڈ پریشر اس حد کو چھو رہا ہے جو خطرناک ہے۔“ ڈاکٹر رفاقت بول پڑا۔
”ان کے پاس ایک نرس کا ہونا بہت ضروری ہے یا پھر یہ ہسپتال میں داخل ہوجائیں۔“
”تم کیوں اپنے آپ سے دشمنی کررہی ہو۔جس ہسپتال میں تم داخل ہوتی ہو وہ اس شہر کا سب سے بہترین ہسپتال ہے۔تمہارے اس کمرے جیسا وہاں کمرا ہوتا ہے۔ہر سہولت تمہیں ملتی ہے۔اور پھر وہ ہسپتال کسی اور کا نہیں ڈاکٹر رفاقت کا ہے۔“ہاشم زبیری نے کہا۔
”لیکن مجھے سکون اس گھر میں ملتا ہے۔
“ممتاز بیگم اطمینان سے بولی۔ 
”جب صحت ہی نہیں رہے گی تو سکون کہاں سے ملے گا۔“ہاشم زبیری کھڑا ہوگیا۔
”میں اس حال میں بھی اپنے گھر میں خوش ہوتی ہوں۔اور پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ اب میری دیکھ بھال کے لئے نرس آجائے گی۔وہاں بھی تو نرس ہی مجھے دیکھتی ہے۔ان کے چیک کرنے کا وقت تو صبح شام ہی ہوتا تھا۔مجھے ان کی یہ تجویز منظور ہے۔
”تم سے بات کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔“ہاشم زبیری پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
”آپ اطمینان رکھیں مجھے گھر میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔“ممتاز بیگم نے مسکر اکر اپنی نحیف آواز میں کہا۔
”یہ دوائیاں منگوا لیں میں ایک گھنٹے کے اندر تمہیں فون کرتا ہوں۔تم اپنا ڈرائیور بھیج کر نرس کو اپنے گھر لے آنا۔وہ چوبیس گھنٹے اس گھر میں ان کے پاس رہے گی۔
“ڈاکٹر رفاقت اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
”نرس سے بول دینا کہ وہ پیسے کی پرواہ نہ کرے۔جو فیس مانگے گی وہ اسے ملے گی۔لیکن وہ چوبیس گھنٹے یہاں رہے گی اور خدمت میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے۔“
ڈاکٹر رفاقت نے ہاشم زبیری کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لے جاکر دھیمے لہجے میں بولا۔” میری نظر میں جو نرس ہے وہ مجبور لڑکی ہے۔میرے ہسپتال میں کام کرتی ہے اور اس نے مجھ اپنے گھر کے حالات بتائے ہیں۔مجبوری اسے زیادہ منہ کھولنے نہیں دے گی۔وہ اپنے گھر سے چھٹکارہ چاہتی ہے۔“
”یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ،و ہ اپنا کام پوری توجہ سے کرے گی۔“ہاشم زبیری خوش ہوگیا۔کچھ دیرے کے بعد ڈاکٹر رفاقت اجازت لے کر چلا گیا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum