Episode 4 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 4 - زنجیر - فاروق انجم

ڈاکٹر رفاقت کی کار کا رخ اس محلے کی طرف تھا جہاں وہ نرس رہتی تھی۔ڈاکٹر رفاقت اس معاملے میں ذاتی دلچسپی اس لئے بھی لے رہا تھا کہ ایک دن اس نرس نے جب اپنے گھر کے حالات بتائے تھے تو ڈاکٹر رفاقت کی سوچ نے ایک دم پلٹا کھایا تھا۔
اس نرس کا نام سحر بانو تھا۔وہ بہت خوبصورت تھی۔اس کی خوبصورتی کسی کو بھی اپنے سحر میں قید کرسکتی تھی۔جب ڈاکٹر رفاقت نے پہلی بار سحر بانو کو دیکھا تو حسن پرست ڈاکٹر رفاقت دل ہی دل میں اس پر فدا ہوگیا تھا۔
سحر بانو نے بتایا تھا کہ اس کا باپ نشہ کرتا ہے،وہ اس کی ماں کو مارتا ہے،اور جب وہ اپنے باپ کو پیسے نہیں دیتی تو اس کا باپ اسے بھی مارنے سے گریز نہیں کرتا ہے۔اس کا ایک بھائی ہے جو ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔وہ اس معاملے سے ہمیشہ لا تعلق ہی رہتا تھا۔

(جاری ہے)

سحر بانو کے باپ نے ایک دو بار یہ کوشش بھی کہ تھی کہ وہ سحر بانو کی شادی کردے۔اور جو رشتے وہ اپنے گھر لے کر آیا تھا وہ اچھے لوگ نہیں تھے۔
سحر بانو کے باپ کو پیسوں سے مطلب تھا،وہ اپنی بیٹی کی شادی کرکے اپنی جیب گرم کرنے کے چکر میں تھا۔ اس کی ماں اسے کئی بار کہہ چکی تھی کہ وہ یہ شہر چھوڑ کر کسی اور جگہ چلی جائے اور وہاں نوکری کرلے۔جب تک اس گھر میں رہے گی اس کے لئے جہنم میں رہنے کے مترادف ہوگا۔
ڈاکٹر رفاقت کی بیوی اور بچے تھے۔اس کی بیوی بھی ڈاکٹر تھی۔جب اس نے سحر سے اس کے حالات جانے تو ایک دم اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ سحر بانو سے شادی کرلے۔
دونوں کی عمر میں بہت فر ق تھا۔سحر بانو کی عمر اس کی بڑی بیٹی جتنی تھی،لیکن سحر بانو کی خوبصورتی ایسی نہیں تھی کہ وہ اسے نظر اندا ز کرسکتا۔ایک طرح سے اس نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ سحر بانو سے شادی کرے گا۔اس کا بہترین حل یہ تھا کہ وہ سحر بانو کو اس گھر سے کسی طرح سے نکال کر کہیں اور لے جاتا۔ممتاز بیگم کے پاس نرس کے طور پر سحر بانو کو رکھنے کا خیال آتے ہی ڈاکٹر رفاقت نے سوچا کہ وہ اس طرح سے اس کے اور بھی قریب ہوجائے گا۔
ڈاکٹر رفاقت اسے اُس ماحول سے نکال کر اپنی کلاس کے لوگوں میں شامل کرکے اس کا رہن سہن میں تغیر بھی لانا چاہتا تھا تاکہ وہ اس کی بیوی بن کر اس کے گھر آئے تو وہ اس ماحول سے مکمل طور پر آشنا ہو۔سحر بانو کی زندگی تو تنگ گلیوں والے ایک محلے میں گزررہی تھی اسے کیا پتہ تھا کہ اونچی سوسائٹی کے لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں۔اس کے لئے ضروری تھا کہ سحربانو کو وہ ماحول دیا جاتا۔
اور ڈاکٹر رفاقت اسے وہ ماحول دے رہا تھا۔
کار جب سحر بانو کے محلے میں پہنچی تو بادل نخواستہ ڈاکٹر رفاقت پیدل گلیاں عبور کرتا ہوا، لوگوں سے پوچھتا ہوا۔ ایک مکان کے پاس پہنچا اور اس نے دروازہ بجایا۔کچھ دیر کے بعد دروازہ سحر بانو کی ماں نے کھولا اور ڈاکٹر رفاقت کو دیکھتے ہی بولی۔
”جی…“
”میرا نام ڈاکٹر رفاقت ہے اور سحر بانو میرے ہسپتال میں کام کرتی ہے۔
مجھے اس سے ملنا ہے۔“
”آپ ڈاکٹر رفاقت ہیں۔مجھے سحر نے بتایا تھا آپ کے بارے میں۔آپ اندر آجائیں۔میں سحر کو بلاتی ہوں۔“سحر کی ماں کے اندر بے چینی دوڑ گئی۔ڈاکٹر رفاقت اندر چلا گیا۔سحر بانو بھی کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔سحر بانو ایک کرسی اُٹھا لائی۔ڈاکٹر رفاقت کی حریص نگاہیں سحر بانو کے چہرے پر مرکوز تھیں۔
”مجھے ذرا جلدی ہے۔
میں بس تمہیں یہ بتانے کے لئے آیا ہوں کہ میرے ایک دوست ہیں ان کی بیوی ممتاز بیگم بیمار ہیں اور وہ ہسپتال میں رہنا نہیں چاہتی ہیں۔ تم کو چند دن اس کے پاس اس کی دیکھ بھال کے لئے رہنا ہوگا۔“ڈاکٹر رفاقت مطلب کی بات کی طرف بڑھا۔
سحر بانو کی ماں یہ سنتے ہی بولی۔”ڈاکٹر صاحب یہ تو آپ کا ہم پر احسان ہے۔ابھی کچھ دیر پہلے جوان بیٹی کو اس کا باپ پیٹ کر باہر نکلا ہے۔
آپ اسے چند دنوں کے لئے نہیں ہمیشہ کے لئے اس جہنم سے لے جائیں۔“
ڈاکٹر رفاقت نے اس کی ماں کی بات سن کر سحر بانو کے جھکے ہوئے سر کی طرف دیکھا۔اس کا چہرہ ایسا ہی تھا جیسے کنول کا پھول کھلا ہو۔”میں سحر بانو کو ہمیشہ کے لئے لے جاوٴں گا۔“ڈاکٹر رفاقت نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔
”مجھے آپ پراعتماد ہے۔آپ سحر بانو کو لے جائیں۔
“اس کی ماں مضطرب ہوگئی۔” اس کا باپ اسے جان سے مار دے گا۔اس کی زندگی برباد ہوجائے گی۔“
”تم ایسا کرو تیاری کرو میں تمہیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔“ڈاکٹر رفاقت کو لگا کہ اس کا کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ سحر بانو سے شادی کے لئے کوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔
”میں کپڑے لے لیتی ہوں۔“
”تم بس اپنا منہ ہاتھ دھو لو۔کپڑے تمہیں وہاں مل جائیں گے۔
“ڈاکٹر رفاقت جلدی سے بولا۔”اس کام کے تمہیں اچھے پیسے بھی ملیں گے۔تم جہاں جارہی ہو ان کے ساتھ میرا پچیس سال کا تعلق ہے۔“
”ہم نے آپ کے تعلق کو دیکھنا ہے ڈاکٹر صاحب۔“سحر بانو کی ماں نے کہا۔سحر بانو منہ ہاتھ دھونے کے لئے چلی گئی تھی۔
”سحر بانو کی کہیں کوئی منگنی وغیرہ بھی ہوئی ہے۔“ڈاکٹر رفاقت نے کچھ دیر اس سوال کو دانتوں میں چبانے کے بعد اگل ہی دیا۔
”اس کے باپ کی وجہ سے ہمارے رشتے دار ہم سے نہیں ملتے،کوئی غیر اس دہلیز پر کیا قدم رکھے گا۔اور اس کا باپ جو رشتے اس کے لئے لے آیا تھا وہ …بس کیا بتاوٴں۔“سحر کی ماں نے آہ بھری۔
”کل کو اگر کوئی مناسب رشتہ مل جاتا ہے تو…“ڈاکٹر رفاقت نے جان بوجھ کر سوال اُدھورا چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر رفاقت کی بات سنتے ہی سحر بانو کی ماں جلدی سے بولی۔
”میری طرف سے اجازت ہے کہ آپ اس کا گھر جہاں چاہیں بسا دیں۔مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا جب اس کا باپ اسے بری طرح سے مارتا ہے۔اس کی شادی کے لئے آپ مجھ سے بھی نہ پوچھیں بس بتادیں کہ اس کی شادی کہیں ہوگئی ہے۔“
”اب جب میں اسے اس گھر سے لے جاوٴں گا تو اس کا باپ تو اعتراض کرے گا۔“ ڈاکٹر رفاقت نے پوچھا۔
”اسے پیسہ چاہئے۔وہ جاتے ہوئے کہہ گیا ہے کہ اس کی طرف سے سحر بانو جہنم میں رہے اسے پیسے چاہئیں۔
”کتنے پیسے لے کر چپ ہوجاتا ہے۔“
”جو بھی اسے مل جائے۔پھر چند دن سکون سے نکل جاتے ہیں۔“
اسی اثنا میں سحر بانو آگئی۔اس نے منہ ہاتھ دھو کر ہلکا میک اپ بھی کیا تھا جس سے اس کا حسن اور بھی کھل گیا تھا۔ڈاکٹر رفاقت کا دل چاہا کہ وہ سحر بانو کو ہاشم زبیری کے گھر کی بجائے نکاح خواں کے پاس لے جائے۔لیکن وہ ابھی اتنی جلدی نہیں کرسکتا تھا۔
اسے اپنی بیوی اور بچوں کا بھی ڈر تھا۔اس کام کے لئے پہلے اسے راستہ بنانا تھا اور پھر سحر بانو سے نکاح کرنا تھا۔ وہ جلدی کرکے کام خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”چلیں۔؟“ڈاکٹر رفاقت نے پوچھا۔
”جی۔“سحر بانو نے اثبات میں گردن ہلائی۔
جونہی ڈاکٹر رفاقت گھوما عین اسی وقت سحر بانو کا باپ گھر میں داخل ہوگیا۔سحر بانو کے باپ کا نام فضل تھا۔
اس نے ڈاکٹر رفاقت کی طرف گھو ر کر دیکھا اور بولا۔”کیا بات ہے۔؟“
”میرا نام ڈاکٹر رفاقت ہے۔میں سحر بانو کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں اس کی چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی شروع ہورہی ہے۔اب یہ میرے پاس ہی رہے گی۔“ڈاکٹر رفاقت نے کہا۔
”کام چوبیس گھنٹے کاہوجائے گا کہ تنخواہ بھی بڑے گی کہ وہ آٹھ گھنٹے کی ہی رہے گی۔“ فضل کا لہجہ تلخ تھا۔
”اس کی تنخواہ بھی بڑھ گئی ہے۔“ڈاکٹر رفاقت نے اطمینان سے جواب دیا۔
”کتنی…؟“فضل کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی اور اس نے جلدی سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
ڈاکٹر رفاقت نے فضل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے ایک طرف لے جاکر دھیمے لہجے میں بولا۔”آپ کو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس گھر میں آپ سکون سے رہیں اور سحر بانو کو بھی سکون سے کام کرنے دیں۔
ہر مہینے آپ کو الگ خرچہ مل جایا کرے گا۔“
”کتنا خرچہ مل جایا کرے گا۔“فضل یہ سنتے ہی خوشی سے چہکا۔
”پہلے آپ یہ وعدہ کریں کہ آپ گھر میں کوئی ہنگامہ نہیں کریں گے اور کسی معاملے میں کوئی ٹانگ نہیں اٹکائیں گے۔“ڈاکٹر رفاقت نے لگے ہاتھ اپنا راستہ مذید صاف کرنا شروع کردیا۔
فضل نے جلدی سے کہا۔”مجھے کیا ضروت ہے کہ میں ایسا کروں۔
مجھے خرچہ کیا ملے گا۔“
ڈاکٹر رفاقت نے ہزار ہزار کے تین نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دے دیئے۔فضل کو تو ایسے لگا جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔اس کی پھٹی ہوئی آنکھیں ان نوٹوں کو دیکھے جارہی تھیں۔نوٹ اس کے ہاتھ میں کیا آئے وہ سب کچھ ہی بھول گیا۔
”یہ میرے نوٹ ہیں۔“فضل کا لہجہ شائستہ ہوگیا تھا۔
”ہاں اور آئندہ تم اپنے گھر والوں سے کچھ نہیں مانگوں گے۔اتنا خرچہ ہر ماہ تجھے مل جایا کرے گا۔“
”کہاں ملا کرے گا۔“فضل نے پوچھا۔
”اسی جگہ تمہارے گھر میں۔لیکن تم کبھی کسی معاملے نہیں بولو گے۔میں کچھ بھی کروں کچھ بھی کہوں تم میری بات کی مخالفت نہیں کرو گے۔“ڈاکٹر رفاقت نے اُسے مذید اپنی مٹھی میں کرنا چاہا۔”پیسے کی تم پرواہ نہ کرنا۔
”ڈاکٹر صاحب میں کیوں بولوں گا۔آپ تو میرے مائی باپ بن گئے ہو۔“ فضل کو کیا چاہئے تھا۔
”میں سحر بانو کو ہسپتال لے جارہا ہوں۔“ڈاکٹر رفاقت نے کہا اور فضل ایک دم ایک طرف ہوگیا۔وہ ابھی تک نوٹوں کو دیکھ رہا تھا۔ڈاکٹر رفاقت نے سحر بانو کو اشارہ کیا اور اسے لے کر گھر سے باہر نکل گیا۔ڈاکٹر رفاقت دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اس نے پیسوں کی تپش سے اپنا راستہ مزید صاف اور سہل کرلیا تھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum