Episode 7 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 7 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری نے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی جنید کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔جونہی ملازم نے ہاشم زبیری کا پیغام دیا،جنید فوراً ہاشم زبیری سے ملاقات کے لئے اپنے کواٹر سے نکل کر بنگلے کی طرف چل پڑا۔وہ آفس جانے کے لئے تیار تھا
بنگلے میں داخل ہوتے ہی جنید نے سیدھے ہاشم زبیری کے کمرے کی طرف قدم بڑھا دیئے۔اس کے آگے ہاشم زبیری کا حکم سب سے اہم تھا۔
وہ ہاشم زبیری سے ملنے سے پہلے کسی اور سے نہیں ملنا چاہتا تھا۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جنید نے ہاشم زبیری کے حکم کی تعمیل میں تغافل سے کام لیا ہو۔ جب جنید کمرے کی طرف جارہا تھا تواس وقت سحر بانو کمرے سے باہر نکل رہی تھی جونہی اس کی نگاہ جنید پر پڑی جو اپنے دھیان چل رہا تھا،اس نے ایک دم دروازہ بند کیا اور دروازے میں رخنہ بنا کراس کی طرف دیکھنے لگی۔

(جاری ہے)

سحر بانو کی نگاہیں جنید کے چہرے پر مرکوز تھیں ۔وہ مردانہ چال سے آگے بڑھ رہا تھا۔ سحر بانو اس کی متاثر کن شخصیت کے حصار میں قید ہورہی تھی۔ہاشم زبیری کا کمرا برابر میں ہی تھا۔جنید نے دروازے پر ہلکی دستک دی اور اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ تب سحربانو نے بھی دروازہ بند کردیا۔
ہاشم زبیری قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا۔
جنید ایک طرف کسی غلام کی طرح کھڑا ہوگیا۔
”میں شہر سے باہر جارہا ہوں۔شام تک واپسی ہوگی۔آفس میں خیال رکھنا اور آج کی تمام میٹنگز کینسل کردینا۔“ہاشم زبیری نے بتایا۔
”آپ اچانک جارہے ہیں۔“جنید نے پوچھا۔
”ہاں…دراصل جانا تو کل تھا لیکن وکیل کا آج ہی فون آگیا۔اس لئے میں ابھی جارہا ہوں۔ریحان جس کمپنی میں گیا ہے اس کمپنی نے کام شروع کردیا ہے۔
؟“ ہاشم زبیری ٹائی باندھ چکا تھا اور وہ آئینے سے ایک طرف ہٹ گیا۔
”اس کمپنی پر میری پوری نگاہ ہے۔ابھی اس کمپنی نے کام شروع نہیں کیا ہے۔“ جنید نے جواب دیا۔
”مجھے اس کمپنی کے ساتھ دلچسپی ہے۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا پرڈاکٹ لانچ کررہے ہیں۔“ہاشم زبیری بولا۔
”جیسے ہی انہوں نے کام شروع کیا میں آپ کو اطلاع کردوں گا۔
“جنید نے کہا۔” میں پوری طرح سے ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔“
”تم آج ایک کام کرنا ۔ ریحان کے تمام واجبات کی تفصیل تیار کردینا۔میں چاہتا ہوں کہ ریحان کے واجبات ادا ہوجائیں۔میں نے کبھی کسی کا قرض اپنے سر پر نہیں رکھا۔ ریحان کا حساب بھی میں چکتا کردینا چاہتا ہوں۔“ہاشم زبیری کے لہجے میں عجیب سی بات تھی جسے جنید سمجھ نہیں سکا ۔
”جو آپ کا حکم۔
“جنید نے اپنے سر کو تھوڑا سا خم کیا۔”میں اس کے واجبات کی تفصیل تیار کردوں گا۔“
”ناشتہ کرنا چاہتے ہو تو ڈائینگ ٹیبل پر چلے جاوٴ۔“ہاشم زبیری کی اس بات کا مطلب تھا کہ وہ اپنی بات ختم کرچکا ہے اور اب وہ اس کے کمرے سے چلا جائے۔
”میں ناشتہ کرچکا ہوں سر۔“جنید جانے کے لئے مڑا۔
”اگر ہوسکے تو جس کمپنی میں ریحان گیا ہے وہاں کسی ملازم کو اپنے ہاتھ میں کرلو۔
اندر کی بات کا پتہ چلتا رہے گا۔“ہاشم زبیری نے الماری کھولی اور اپنا کوٹ نکالنے لگا۔
جنید رک کر گھوما۔”میری یہ کوشش بھی جاری ہے۔“
”ویسے تم بہت سمجھ دار ہوگئے ہو۔میری طرح سوچنے لگے ہو۔“ہاشم زبیری نے کہا۔” اب تم جاوٴ۔“
جنید کمرے سے باہر نکل گیا۔جونہی جنید، ممتاز بیگم کے کمرے کے سامنے سے گزرنے لگا اسی اثنا میں درواز ہ کھلا اور سحر بانو باہر نکلی۔
ایک دم دونوں آمنے سامنے آگئے۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ایک اجنبی لڑکی کو اس گھر میں دیکھ کر جنید کو حیرت ہورہی تھی۔سحر بانو کی خوبصورتی سے جنید کو لگ رہا تھا جیسے کوئی حور زمین پر اُتر آئی ہو۔جنید نے کوئی بات کئے بغیر نگاہیں دوسری طرف کیں اور ایک طرف ہوکر وہاں سے چلا گیا۔اس کے جاتے ہی سحر بانوکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور وہ مسکراتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔
جنید یہ سوچتا ہوا جارہا تھا کہ وہ لڑکی کون ہے۔راہداری سے گزرتے ہوئے اس کی ملاقات ثانیہ سے ہوگئی۔ثانیہ تیار ہوکر یونیورسٹی جارہی تھی اور جانے سے قبل وہ اپنی ماں سے ملنا چاہتی تھی۔
”ڈیڈی سے مل کر آرہے ہیں آپ۔؟“ثانیہ اسے دیکھتے ہی بولی۔
”جی انہوں نے ہی بلایا تھا۔“جنید رک گیا۔
”مما سے نہیں ملے۔؟“ثانیہ نے اچانک سوال کیا۔
”وہ شاید آرام کررہی ہیں۔“جنید بولا۔
”مما کے کمرے میں آپ کی ملاقات کسی اور سے بھی ہوسکتی تھی۔“ ثانیہ نے معنی خیز انداز میں کہا۔
”کس سے ملاقات ہوسکتی تھی۔؟“جنید نے سوال کیا۔
”ملنا ہے تو میرے ساتھ آجائیں۔“ثانیہ نے کہا۔
”ابھی ابھی …ملاقات ہوئی ہے ان سے۔“جنید نے چند ثانئے توقف کے بعد کہہ ہی دیا۔
”ملاقات ہوگئی ہے۔
؟آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ مما سے ملنے ان کے کمرے میں نہیں گئے۔“ثانیہ نے متحیر نگاہوں سے جنید کی طرف دیکھا۔
”میں سر سے مل کر ان کے کمرے سے نکل رہا تھا اور اچانک وہ لڑکی بیگم صاحبہ کے کمرے سے نکلی اور سامنا ہوگیا۔میں حیران ہوں کہ وہ لڑکی کون ہے۔“جنید نے بتایا۔
”آپ نے اس لڑکی سے پوچھا نہیں کہ تم کون ہو۔؟“
”میں بھلا کیسے پوچھ سکتا تھا۔
ثانیہ نے مسکر اکر جنید کی طرف دیکھا۔”اچھا یہ بتائیں کہ کیسی ہے وہ۔؟؟“
”کیا مطلب۔؟“
”میرا مطلب ہے کہ کیسی لگی۔؟خوبصورت ہے ناں۔؟ انکل رفاقت انہیں امی کی دیکھ بھال کے لئے اس گھر میں لے کر آئے ہیں۔ڈیڈی اور انکل رفاقت کی دوستی ماضی میں کیا رنگ دکھا چکی ہے ہم دونوں اس سے باخبر ہیں۔مجھے تو کم از کم یہ لگ رہا ہے کہ …میری بیمار ماں کی جگہ پُر ہونے والی ہے۔
“ثانیہ کا لہجہ متانت سے لبریز تھا۔
”آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں۔“جنید نے کہا۔
”مجھے اپنے ڈیڈی پر یقین نہیں ہے۔وہ ماضی میں پہلے بھی گل کھلانے کی کوشش کرچکے ہیں۔“ثانیہ کا لہجہ تلخ ہوگیا تھا۔
”وہ بیگم صاحبہ کی دیکھ بھال کے لئے اس گھر میں آئی ہے…“جنید بولا۔” آپ ماضی کے تناظر میں اسے مت دیکھیں۔“
”یہ ایک بہانہ ہے اس لڑکی کو اس گھر تک لانے کا۔
یہ ڈیڈی کی چال ہے۔“ ثانیہ کا لہجہ ٹھوس تھا۔
”آپ خوامخواہ شک کررہی ہیں۔“جنید یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس سے قبل بھی ہاشم زبیری ایک بیس سال کی خوبصورت لڑکی کے ساتھ شادی کرنے والا تھا کہ عین وقت پر ثانیہ کی شدید مداخلت اور احتجاج پر ہاشم زبیری کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا تھا۔اس وقت بھی ڈاکٹر رفاقت پوری طرح سے ہاشم زبیری کا ساتھ دے رہا تھا۔
”یہ میرا شک نہیں یقین ہے۔آپ دیکھ لیں گے کہ کس طرح سے یہ لڑکی اس گھر کی مالکن بنتی ہے۔“ثانیہ کا لہجہ پر اعتماد تھا۔
”لیکن میرا دل نہیں مان رہا ہے۔“سب کچھ جانتے ہوئے بھی جنید نے اس کا دل رکھنے کے لئے کہا۔
”وقت آنے پر سب پتا چل جائے گا۔“ثانیہ جانے لگی تو وہ ایک دم رک کر بولی۔” آپ کا اس شہر میں کوئی دوست بھی ہے۔؟“
”میں سمجھا نہیں۔
“جنید چونکا۔
”میں تو یہ سمجھتی تھی کہ آپ کام کے بعد اپنے کمرے میں بند ہوجاتے ہیں اور دنیا کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن دو دن پہلے میں نے آپ کو کسی کے ساتھ سڑک کنارے ہنستے اور باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے حیرت ہوئی۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ کوئی آپ کا دوست بھی ہے۔“ ثانیہ مسکرا بھی رہی تھی۔
جنید کو یاد آگیا اور وہ بھی مسکرایا۔
”ہاں…وہ ہی میرا ایک دوست ہے۔یہ دوستی آٹھ،دس ماہ پرانی ہے۔ہم دونوں میں دوستی ہوئی اور پھر بے تکلفی بھی ہوگئی۔وہ دل کا بہت اچھا ہے۔اس سے گپ شپ کرکے دن بھر کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔“ 
”یہیں کہیں رہتے ہیں وہ۔؟“ثانیہ زیرلب مسکرا رہی تھی۔
”نہیں اس علاقے سے دور رہتے ہیں۔ایک کمپنی میں ملازم ہے۔اچھا دوست ہے ظفر۔“ایک بار پھر اس نے اپنے دوست کی تعریف کی۔
ثانیہ متانت سے بولی۔”اچھا تو ان کا نام ظفر ہے۔؟“
”جی…“جنید نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اچھی بات ہے کہ آپ نے بھی کوئی دوست بنایا۔“
”اچھی بات ہوگئی ہے۔اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔“ جنید بولا۔
”اوکے۔“ثانیہ کہہ کر اپنی ماں کے کمرے کی طرف چل دی۔جنید نہیں جانتا تھا کہ جس نوجوان کے ساتھ اس کی دوستی ہے وہ وہی ظفر ہے جس کی محبت میں ثانیہ گرفتار ہے۔ثانیہ نے گاڑی میں جاتے ہوئے اچانک دونوں کو دیکھا تھا۔اس بات کی تصدیق ثنا نے اسی رات ظفر کو فون کرکے کرلی تھی۔اسے پتہ چل گیا تھا کہ جنید اور ظفر آپس میں دوست ہیں،جان بوجھ کر اس نے جنید سے یہ بات دریافت کی تھی۔ثانیہ نے ظفر کو بھی اس بات پر پابند کردیا تھا کہ وہ اس بات کا ذکر جنید سے نہ کرے۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum