Episode 9 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 9 - زنجیر - فاروق انجم

سہ پہر کی چائے کے بعد سحر بانو نے اپنی ساری شاپنگ ممتاز بیگم کو دکھادی۔ممتاز بیگم اس کی خریداری دیکھ کر خوش بھی ہوئی اور حیران بھی ۔جب ممتاز بیگم نے وہی سوال کیا تو سحر بانو نے اطمینان سے ڈاکٹر رفاقت کا جواب دہرا دیا۔ممتاز بیگم بولی۔
”تم نے کیوں اپنی کمیٹی اس شاپنگ میں لگا دی۔ثانیہ کے پاس کپڑوں کا ڈھیر ہے۔کچھ کپڑے تو ایسے ہیں جو اس نے ایک بار پہنے ہیں۔
میں وہ سارے کپڑے تمہیں دلا دیتی۔“
”اب میں اُترن پہنوں گی،ممتاز بیگم صاحبہ مجھ پر لٹانے والا موجود ہے ۔“دل میں آنے والی یہ بات سحر بانو نے زبان کی نوک پر نہیں آنے دی۔اور بات بدل کر بولی۔”میری خواہش تھی کہ میں ایسے کپڑے پہنوں۔اس لئے میں اپنے پیسے ساتھ ہی لے آئی تھی اور بازار جاکر خریداری کرلی۔

(جاری ہے)

مجھے پتہ ہوتا کہ ثنا کے کپڑے مجھے مل سکتے ہیں تو میں ایسا نہ کرتی۔

”چلو کوئی بات نہیں۔انسان کو موقعہ ملے تو اسے اپنے دل کی بات ضرور پوری کرنی چاہئے۔میں ثانیہ سے بھی تمہیں کپڑے لے دوں گی۔“ممتا ز بیگم نے کہا۔”تم بازار کس کے ساتھ گئی تھی۔؟“
ممتاز بیگم کا سوال سن کر سحر بانو چونکی اور سوچنے لگی کہ وہ کیا جواب دے۔” میں اکیلی ہی گئی تھی۔“
”اکیلی…؟“ممتاز بیگم کو کچھ حیرت سی ہوئی۔
”دراصل اس شاپنگ سنٹر میں میں پہلے بھی اپنی ایک کولیگ کے ساتھ گئی تھی۔اس نے اپنی شادی کی خریداری کرنی تھی۔تب میں نے سوچا تھا کہ مجھے موقعہ ملا تو میں اسی جگہ سے شاپنگ کروں گی۔اور کمیٹی ڈال لی تھی۔“سحر بانو کو جانے جھوٹ بولنا کیسے آگیا تھا۔
”کیا میری دوائی کا وقت ہوگیا ہے۔؟“
”میں ابھی آپ کو دوائی دیتی ہوں۔“سحر بانو اپنی جگہ سے اُٹھی اور ممتاز بیگم کو پانی کے ساتھ ایک گولی دے کر اس نے کپڑے شاپر بیگ میں ڈال کر ایک جوڑا نکال لیا۔
شام سے قبل اس نے نہانے کے بعد وہ جوڑا زیب تن کیا اور چہرے پر ہلکا میک اپ بھی کرلیا۔جب وہ آئینے کے سامنے اپنا جائزہ لے رہی تھی تو اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ سحر بانو ہی ہے جس نے کبھی زندگی میں ایسا لباس زیب تن نہیں کیا تھا۔وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ حسین لگ رہی تھی۔
جب سحر بانو ممتاز بیگم کے سامنے آئی تو وہ بھی ایک لمحے کے لئے سحر بانو کو پہچان نہیں سکی۔
”تم تو اور بھی خوبصورت ہوگئی ہو۔“
”کیا واقعی۔؟“سحر بانو ہنسی۔
”ہاں…“ممتاز بیگم کی نگاہیں اس کے سراپے پر تھیں۔سحر بانو سوچنے لگی کہ قیمتی لباس پہننا اور محل نما گھروں میں رہ کر زندگی گزارنا ہی زندگی ہے۔اس کی سوچ میں ایک دم تغیر آگیا تھا۔وہ بھول گئی کہ وہ ایک معمولی نرس ہے جو اس گھر میں امیر کبیر خاتون کی دیکھ بھال پر مامور ہے۔
 ###
ہاشم زبیری آفس جانے کی بجائے سیدھا اپنے گھر واپس آگیا۔رات کا اندھیرا چھا گیا تھا۔گھر آتے ہی اس نے ممتاز بیگم کے کمرے میں جانے کی بجائے ملازم سے ہی ممتاز بیگم کا حال پوچھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ہاشم زبیری نے راستے میں ہی جنید کو فون کردیا تھا کہ وہ بھی آفس سے گھر پہنچ جائے اور جو ریحان کے واجبات کی تفصیل بنائی ہے وہ ساتھ لے کر آئے۔
منہ ہاتھ دھونے اور کپڑے بدلنے کے بعد جب ہاشم زبیری اپنی بیوی ممتاز بیگم کی خیریت دریافت کرنے کے لئے اس کے کمرے میں چلا گیا۔اس وقت سحر بانو کچن میں اپنے لئے چائے بنانے کے لئے گئی تھی۔سحر بانو کو یہ اجازت ممتاز بیگم نے دی تھی کہ وہ جب چاہے کچھ بھی کھانے پینے کے لئے کچن کا رخ کرسکتی ہے۔
ہاشم زبیری نے ممتاز بیگم کی خیریت دریافت کی اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اس کے کمرے سے باہر آگیا۔
جاتے ہوئے ہاشم زبیری نے ملازم سے پوچھا۔
”جنید آگیا ہے۔؟“
”ابھی نہیں آیا صاحب۔“
”وہ جیسے ہی آئے اسے سٹڈی روم میں بھیج دینا۔میں وہاں ہوں۔“ہاشم زبیری کہہ کر چلا گیا۔
سحر بانو ہاتھ میں چائے کا کپ لئے کچن سے باہر نکلنے ہی والی تھی کہ اس کی نگاہ جنید پر پڑ گئی۔ وہ ہاتھ میں فائل پکڑے ابھی اندر آیا تھا۔ ملازم بھاگتا ہوا اس کے پاس گیا اور بولا۔
”جنید بھائی ،صاحب آپ کا سٹڈی روم انتظار کررہے ہیں۔“
”شکریہ۔“جنید نے کہا اور وہ سٹڈی روم کی طرف چل پڑا۔جبکہ سحربانو کی اس وقت تک اس کی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں جب تک جنید اس کی نگاہوں سے ہٹ نہیں گیا ۔ سحر بانو اسی جگہ کھڑی یہ بھول گئی کہ اسے واپس ممتاز بیگم کے کمر ے میں بھی جانا ہے۔
”کیا ہورہا ہے۔؟“اچانک آواز سن کر سحر بانو چونکی۔
اس کے سامنے ثانیہ کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر متانت تھی۔
”میں چائے بنانے آئی تھی۔“سحر بانو نے جواب دیا۔
ثانیہ نے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔”تم یہاں نرس ہو کہ مالکن ہو۔؟ تمہارے ٹھاٹ تو ہم سے بھی اچھے ہیں“ 
”کیا مطلب ہے آپ کا؟“ سحر بانو نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔
”اتنا قیمتی لباس پہن کر تم میری ماں کی خدمت کررہی ہو۔
؟اپنی اوقات میں رہ کر اپنا کام کرو۔“ثانیہ کو غصہ آگیا۔
”کیا میں قیمتی لباس نہیں پہن سکتی۔؟قیمتی لباس پہننے کا حق صر ف امیر لوگوں کو تو نہیں ہے۔“سحر بانو بولی۔
”کتنی تنخواہ ہے تمہاری…؟“ثانیہ بولی۔
سحر بانو کو اس کی بات سن کر غصہ آگیا۔اگر اسے کسی بات کی پرواہ نہ ہوتی تو وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا گرم چائے کا کپ ثانیہ کے چہرے پر اُلٹ دیتی۔
وہ اپنے اندر کے غصے کو ضبط کرکے بولی۔
”میں نے زندگی میں یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی مجھے بھی اس جیسے گھر میں کام کرنے کا موقعہ ملے گا۔ایسے گھرمیں نے دور سے کئی بار دیکھے تھے۔ایسے گھر کا میں محض خواب دیکھ سکتی تھی۔لیکن ایسا قیمتی لباس پہننا میرے اختیار میں تھا۔مجھے موقعہ ملا اور میں نے لباس خرید کر پہن لیا۔ایک ایک پیسہ جو ڑ کر میں نے اپنی خواہش پوری کی ہے۔
“سحر بانو نے اطمینان سے جواب دیا۔
ثانیہ کو سحر بانو کی اس گھر میں آمد ایک آنکھ بھی نہیں بھائی تھی۔وہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔اس کے دل میں سحر بانو کے لئے نرم گوشہ نہیں تھا۔سحر بانو کا جواب اسے اچھا نہیں لگا۔
”اپنی یہ خواہشیں اپنے گھر جاکر پوری کرنا۔اس گھر میں تم ایک معمولی نرس ہو اور نرس بن کر رہو۔اس کام کے تمہیں پیسے دیئے جائیں گے۔
“ثانیہ نے کہا۔
”میں آپ کی ماں کی نرس ہوں۔مجھے ڈاکٹر رفاقت یہاں لے کر آئے ہیں۔کوئی شکایت ہے تو ا ن سے بات کریں۔“سحر بانو کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔آج جو بات ڈاکٹر رفاقت نے اس کے ساتھ کی تھی ،وہ جانتی تھی کہ ڈاکٹر رفاقت کا ہاتھ اس کے کندھے پر ہے۔ اسے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
ثانیہ کو سحر بانو کی طرف سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔
بات بڑھانے کی بجائے اس نے کہا۔”میں مما کے کمرے میں جارہی ہوں۔جب تک میں کمرے سے باہر نہ آوٴں اندر نہ آنا۔“
”میں کہاں بیٹھوں۔“سحر بانو نے دائیں بائیں دیکھا۔
”کہیں بھی بیٹھ جاوٴ۔“ثانیہ کہہ کر ممتاز بیگم کے کمرے کی طرف چلی گئی۔سحر بانو نے چائے کا ایک گھونٹ لے کر ایک مسکراہٹ اپنے چہرے پر آویزاں کیں اور اطمینان سے چائے کے گھونٹ لینے لگی۔
###
ثانیہ جب کمرے میں پہنچی تو ممتاز بیگم بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تسبیح کررہی تھی۔ ثانیہ کو دیکھتے ہی اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ثانیہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
”کیا بات ہے اداس دکھائی دے رہی ہو۔؟“
”میرے چہرے سے ایسا لگ رہا ہے۔؟“
”ایسا لگ رہا ہے تو میں نے تم سے پوچھا۔“
”مما …سحر بانو اس گھر میں آپ کی خدمت کے لئے آئی ہے کہ اس کا ارادہ کچھ اور ہے۔
؟“ثانیہ اصل بات کی طرف آتی ہوئی بولی۔
”میں تمہاری بات سمجھی نہیں۔“
”کیا آپ کو ڈیڈی کا وہ واقعہ یاد ہے جب انہوں نے اسی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے کی کوشش کی تھی۔“
ممتاز بیگم کا چہرہ متانت میں ڈوب گیا۔”تم کہنا کیا چاہتی ہو۔؟“
”مجھے ایک بار پھر انکل رفاقت اور ڈیڈی کی یہ چال لگتی ہے۔آپ نے اس کا لباس دیکھا۔کیا ایک معمولی نرس کا ایسا لباس ہوتا ہے۔
آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ جو سوٹ اس نے پہنا ہوا ہے اس کی کم از کم کیا قیمت ہوگی۔“
”اس نے بتایا تھا کہ اس کی کمیٹی نکلی تھی اور اس نے شاپنگ کرلی۔“ حالانکہ ممتاز بیگم کو سحر بانو کی یہ بات سن کر بالکل بھی یقین نہیں تھا لیکن اس نے سحر بانو کے سامنے اپنی بے یقینی کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
”وہ بہت تیز دماغ ہے۔مجھے اس کا اس گھر میں رہنا پسند نہیں ہے۔
“ثانیہ ایک دم بولی ۔ اس کی بات سن کر ممتاز بیگم بھی سوچ میں پڑ گئی۔ممتاز بیگم کے دل و دماغ پر پہلے ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ثانیہ کی اس بات نے اسے بھی شکوک کی لہروں کے حوالے کردیا تھا۔وہ ہچکولے کھاتی ہوئی سوچنے لگی کہ وہ ثانیہ کی بات کا یقین کرے کہ اس کا شک سمجھ کر نظر انداز کردے۔پھر اس نے ثانیہ کی سوچ بدلنے کے لئے کہہ دیا۔
”ثانیہ مجھے نہیں لگتا ہے کہ ایسی کوئی بات ہے۔
تمہارے ڈیڈی نے ہم دونوں سے معذرت کرلی تھی۔“
”لیکن مجھے لگ رہا ہے۔“
”تم اتنا نہ سوچا کر۔اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔سحر اچھی لڑکی ہے۔“ممتاز بیگم بولی۔
”وہ ناگن ہے۔“
”وہ ایک غلام ہے جو نرس کی روپ میں میری خدمت کے لئے اس گھر میں موجود ہے۔“ ممتاز بیگم نے کہا۔
”میرے دل میں جو بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے۔اب آپ پر ہے کہ آپ سحر بانو پر کیسی نظر رکھتی ہیں۔“ثانیہ نے اُٹھنے سے قبل اپنی ماں کا ماتھا چوما اور شب بخیر کہہ کر کمرے سے چلی گئی۔اس کے جاتے ہی ممتاز بیگم کا چہرہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum