Episode 10 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 10 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری نے فائل پڑھنے کے بعد اپنے سامنے کھڑے جنید کی طرف دیکھا اور بولا۔” کل چیک بنا لینا میں سائن کردوں گا۔“
”ٹھیک ہے سر۔“جنید نے کہا۔
”میں نے کچھ گھوڑے خریدے ہیں۔دو،چار دن میں وہ فارم ہاوس پہنچ جائیں گے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے مجھے گھوڑوں کی رکھوالی میں ماہر آدمی درکار ہے۔“ ہاشم زبیری بولا۔
”میں آج سے ہی ایسے آدمی کی تلاش شروع کردیتا ہوں۔
“جنید نے فوراً کہا۔
ہاشم زبیری نے سگریٹ نکال کر اُسے سوچتے ہوئے اپنی اُنگلیوں میں گھمایا ۔” تم ریحان سے بات کرو۔اُسے آفر کرو کہ اسے جتنی تنخواہ مل رہی ہے وہ اس سے بھی زیادہ تنخواہ پر میرے فارم ہاوس میں آجائے۔اس کا کام صرف نسلی گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنا ہوگا۔“
جنید کو پہلی بار محسوس ہوا کہ ہاشم زبیری کے اندر ریحان کے لئے کیسی نفرت ہے۔

(جاری ہے)

وہ چونک گیا۔”کیا میں واقعی ریحان سے یہ بات کروں۔“
”ہاں میں بات کرنے کے لئے ہی کہہ رہا ہوں۔میں نے یہ بات مذاق میں نہیں کہی ہے۔“ ہاشم زبیری کا لہجہ متانت عیاں کررہا تھا۔
”اوکے سر…میں ریحان سے مل لوں گا۔“
”تم اس کا گھر تو جانتے ہی ہو۔کل اس کا چیک بھی لے جانا اور بات بھی کرلینا۔تم جاوٴ۔“ہاشم زبیری نے فائل اس کی طرف بڑھا دی۔
جنید نے فائل لی اور کمرے سے نکل گیا۔ جو بات ہاشم زبیری نے کی تھی ریحان سے وہ بات کرنے کا کیا ردعمل ہوسکتا ہے جنید یہ جانتا تھا لیکن ہاشم زبیری کی بات نہ ماننا جنید نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
نشست گاہ سے گزرتے ہوئے اس کی نگاہ سحر بانو پر چلی گئی۔سحر بانو دوسری طرف منہ کئے چائے کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں لے رہی تھی۔خوبصورت لباس میں سحر بانو کی خوبصورتی جادو جیسی تھی۔
ہاشم زبیری نے جو ابھی اس بات کی تھی سحر بانو کو دیکھتے ہی اس کے ذہن سے ہر بات نکل گئی۔ایک دم سحر بانو نے گھوم کر جنید کی طرف دیکھا اور جنید جو اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا ،اس کے دیکھتے ہی گڑ بڑا گیا۔
سحر بانو مسکرائی ۔”چائے بناوٴں آپ کے لئے۔؟“
”شکریہ۔“جنید بولا۔
”میں چائے بہت اچھی بناتی ہوں۔میری بنائی ہوئی چائے آپ کو پسند آئے گی۔
“ سحر بانو نے اپنی تعریف کی۔
”پھر کبھی سہی۔“جنید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے۔
”آج کیوں نہیں۔“سحر بانو اس موقعے کو ضائع کرنے کی بجائے جنید سے بات کرکے بات چیت کا راستہ ہموار کرنا چاہتی تھی۔
”مجھے جلدی ہے۔“جنید نے بہانہ کیا۔
”یہاں جلدی کس کو نہیں ہے۔ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔لگتا ہے سب اپنے اپنے انجام کی طرف عجلت میں بھاگ رہے ہیں۔
“سحر بانو کی نگاہیں جنید کے چہرے پر تھیں۔
”آپ نرس ہیں کہ فلاسفر۔؟“جنید بولا۔
”دنیا انسان کو کچھ بھی بنا دیتی ہے۔“سحر بانو مسکرائی۔”جانے کب کیا انسان میں تبدیلی آجائے۔کب سوچ بدل جائے۔“
”آج آپ اس گھر کی مالکن لگ رہی ہیں۔“جنید کو لگا کہ اس کے بارے میں ثانیہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔
”نوکر کبھی گھر کا مالک نہیں بن سکتا۔
اچھا لباس پہن لینے سے غربت چھپ ضرور جاتی ہے،ختم نہیں ہوجاتی۔“سحر بانو نے متانت سے کہا ۔
”باتیں تو آپ اچھی کرتی ہیں۔“
”مجھے بھی تو آپ موقع دیں کہ میں بھی آپ کی باتیں سنوں اور پھر کہوں کہ آپ بہت اچھا بولتے ہیں۔“
”مجھے بولنا نہیں آتا۔“جنید مسکرایا۔
”محض مسکراتے ہی رہا کیجئے،آپ کی مسکراہٹ بھی بے مثال ہے۔“سحر بانو نے راہداری کی طرف سے ثانیہ کو آتی ہوئی دیکھ لیا تھا۔
وہ جلدی سے ایک طرف چل پڑی۔جنید کو اس کو اس سے بات کرنا اچھا لگا۔اس کی خوبصورتی میں ہی نہیں بلکہ باتوں میں بھی جادو تھا۔ ثانیہ کا موڈ بنا ہوا تھا وہ جنید کی طرف دیکھے بغیر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
 ###
جنید اپنے کواٹر کی طرف جانے کی بجائے چہل قدمی کرتا ہوا کچھ آگے نکل گیا۔اس کی سوچ میں سحر بانو تھی۔جس کے حسن نے جنید کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی لڑکی نے جنید کو اس طرح سے متاثر کی تھا۔
چلتے چلتے جنید اس علاقے کے غیر ملکی ریسٹورنٹ کے پاس پہنچ گیا۔جنید اپنے خیالوں میں گم اس جگہ تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے واپسی کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اس کے پاس ایک قیمتی کار آکر رکی اور دوسرے ہی لمحے بہترین لباس میں ملبوس خوش باش ریحان باہر نکلتے ہی بولا۔
”ہیلو…جنید مجھے اُمید نہیں کہ تم مجھے اچانک اس طرح سے یہاں مل جاوٴ گے۔
کیا حال ہے۔“ریحان نے گر م جوشی سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔جبکہ جنید اس کا جائزہ لے رہا تھا۔اس سے قبل کبھی بھی ریحان نے اسے ’تم‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔“
”دیکھو میری اس کار کی طرف ۔اس کار کی قیمت کا اندازہ تو ہوگا تمہیں۔مجھے کمپنی جو سیلری دے رہی اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ہو۔رہنے کے لئے مجھے گھر بھی دیا گیا ہے۔
میرے ٹھاٹ ہوگئے ہیں۔“ریحان خوشی سے بتانے لگا۔
”اچھی بات ہے۔“
”تم بھی سمجھو اور ہاشم زبیری کو چھوڑ دو۔“ریحان نے کہا۔
”مجھ سے آئندہ ایسی بات مت کرنا۔“جنید ایک دم بولا۔
”دیکھو میں تمہارے بھلے کی بات کررہا ہوں۔تم بہت اچھے ہو۔تم ہاشم زبیری کے احسانوں تلے دبے ایک زر خرید غلام کی طرح زندگی گزار رہے ہو۔تم نے کبھی ہاشم زبیری کی حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔
لیکن میں جان گیا ہوں کہ وہ ایک فرعون ہے…“ ریحان نے کہا۔
”شٹ اپ۔“جنید نے اسے ڈانٹ دیا۔
”میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔میں نے کیوں نوکری چھوڑی اور اس طرح سے اچانک کیوں چلا گیا تم جاننا چاہو گے تو میں تمہیں بتاتا ہوں…“
”کیا تم مجھے کل مل سکتے ہو۔؟“جنید نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
”ہاں کیوں نہیں۔“ریحان نے اپنا کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
” جب چاہو مجھے فون کرکے آجانا۔“
”کل ملاقات ہوگی۔“جنید نے کارڈ لیا اور ایک طرف چل پڑا۔وہ غصے میں تھا اور اس کے لئے یہ برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا کہ ریحان نے ہاشم زبیری کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال نہیں کئے تھے۔
 ###
ہاشم زبیری کچھ دیر ممتا ز بیگم کے پاس گزارنا چاہتا تھا۔وہ جونہی اس کے کمرے میں گیا، کمرے کی ہلکی روشنی میں اپنے سامنے اپسرا کو دیکھ کر وہ ٹھٹک کر اسی جگہ رک گیا۔
ممتاز بیگم دوسری طرف منہ کئے لیٹی ہوئی تھی۔جبکہ سحر بانو کمرے میں ٹہل رہی تھی۔جب اس نے ہاشم زبیری کو دیکھا تو وہ اپنی جگہ رک گئی۔ہاشم زبیری کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی نرس ہے جسے اس کا دوست ڈاکٹر رفاقت چھوڑ کر گیا تھا۔ہاشم زبیری کا اس طرح سے دیکھنا سحر بانو کو عجیب سا لگا ۔”بیگم صاحبہ سو رہی ہیں۔“
ہاشم زبیری نے سحر بانو سے نظر یں ہٹا کر ممتاز بیگم کی طرف دیکھا اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔
ہاشم زبیری اس کمرے سے آ تو گیا تھا لیکن اس کے اندر ایک طوفان تلاطم مچا رہا تھا۔سحر بانو کا چہرہ نگاہوں کے آگے ایسا منجمد ہوا تھا کہ وہ ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔ہاشم زبیری نے ایسا حسن ایک عرصے کے بعد دیکھا تھا۔
چند ماہ قبل ہاشم زبیری کو ایک لڑکی ایسی پسند آئی تھی کہ اس نے اس لڑکی سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔نکاح سے ایک دن قبل ثانیہ،باپ کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تھی اور اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جب تک اس کی ماں زندہ ہے وہ سوتیلی ماں کا وجود اس گھر میں برداشت نہیں کرے گی۔
ثانیہ کا احتجاج اس قدر بڑھا کہ ہاشم زبیری جیسے مضبوط شخص کو اپنی بیٹی کے آگے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھاجب ہاشم زبیری نے اپنا ارادہ بدلا تھا ورنہ ہاشم زبیری اپنے منہ سے کوئی بات نکالے اور اسے پور ی نہ کرے،ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔
ہاشم زبیری اپنے بنگلے کے وسیع لان میں ٹہل رہا تھا اور ممتاز بیگم کے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی سحر بانو اُسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی ،کیا واقعی اس کا حسن ایسا ہے کہ کوئی بھی اس کے حصار میں قید ہوکر اپنے آپ کو بھول سکتا ہے۔
؟وہ اپنی خوبصورتی سے کسی کو بھی غلام بنا سکتی ہے۔؟اگر ایسا ہے تو وہ اپنا غلام جنید کو بنانا چاہے گی کیونکہ ایسی مردانہ وجاہت کا حامل نوجوان اس سے قبل اس کی نگاہوں میں نہیں آیا تھا۔
لان میں ہاشم زبیری ٹہلتے ہوئے سوچ رہا تھاکہ وہ سحر بانو کو اپنی زندگی کی ہمسفر بنا کر اسے ہمیشہ کے لئے اس محل کی دیواروں میں قید کرلے گا۔جبکہ کمرے میں سحر بانو دل دہی دل میں اپنے سے کہہ رہی تھی کہ ڈاکٹر رفاقت اس کے چکر میں اُسے ایک نئی دنیا سے آشنا کرچکا ہے، اگر ہاشم زبیری بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اس پر کچھ لٹانا چاہے گا تو وہ سمیٹنے کے لئے تیار ہوگی۔
جب سے وہ اس بنگلے میں آئی تھی ایسے ٹھاٹ دیکھ کراُس کے دل میں بھی دولت مند بننے کی خواہش نے شدت سے جنم لے لیا تھا۔جس گھر میں،جس گلی میں،جس خاندان میں ،اور جس ماحول میں اس نے سانسیں لی تھیں،وہ اس زندگی کو ایک خواب کی طرح بھول جانا چاہتی تھی۔
###
صبح ڈاکٹر رفاقت وقت پر ممتاز بیگم کو چیک کرنے کے لئے آگیا۔چیک اپ کے بعد ڈاکٹر رفاقت نے سحر بانو کو کچھ ہدایات کیں اور پھر اُس سے بولا۔
”سحر تم کچھ دیر کے لئے اپنے گھر چلی جانا۔“
”کیوں۔؟“سحر بانو چونکی۔
”مجھے کسی نے یہ اطلاع دی تھی تمہارے باپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔تم مل آوٴ۔“ ڈاکٹر رفاقت نے بتایا۔
”یہ اطلاع آپ کو کس نے دی تھی۔؟“سحر بانو نے پوچھا۔
”بس میرے موبائل فون پر کال آئی تھی۔کوئی مرد تھا۔اس نے بتایا کہ سحر کے والد کی طبیعت سیریس ہے وہ اس سے آکر مل جائے۔
”ٹھیک میں چلی جاوٴں گی۔“سحر بانو نے کہا۔ڈاکٹر رفاقت نے ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا۔
”ٹیکسی پر چلی جانا۔میں نے ایک ہزار کا نوٹ تمہارے میڈیسن بکس کے پاس رکھ دیا ہے۔“
”شکریہ۔“سحر بانو بولی۔
”کوئی سیریس بات ہو ئی تو مجھے بتادینا۔“
”ٹھیک ہے۔“
ڈاکٹر رفاقت کمرے سے باہر نکلا تو پہلے سے موجود دروازے کے پاس ملازم نے ڈاکٹر رفاقت کو اطلاع دی کہ ہاشم زبیری اس کا اپنے کمرے میں انتظار کررہا ہے۔
ڈاکٹر رفاقت اس کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
ہاشم زبیری اپنے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھا سگریٹ کے کش لیتے ہوئے آہستہ آہستہ جھول رہا تھا۔
”تم نے مجھے بلایا۔“ڈاکٹر رفاقت جاتے ہی بے تکلفی سے بولا۔
”ہاں۔“ہاشم زبیری نے اثبات میں گردن ہلائی۔
”تمہارا بلڈ پریشر چیک کروں۔جو اکثر بڑھ جاتا ہے۔“ڈاکٹر رفاقت مسکرایا۔
”ڈاکٹر …میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“
”تمہاری بات سننے کے لئے ہی تو آیا ہوں۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum