Episode 11 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 11 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری نے اپنی نگاہیں ڈاکٹر رفاقت کے چہرے پر جماتے ہوئے کہا۔”میں سحربانو سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“
ہاشم زبیری کی بات سنتے ہی ڈاکٹر رفاقت ایک دم چونکا۔”یہ تم کیا کہہ رہے ہو… “
”کیوں میں نے غلط بات کی ہے۔“
”میرا مطلب ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔وہ ثانیہ کی عمر کی ہے۔اور پھر تم ایسا تجربہ پہلے بھی کرچکے ہو۔“ڈاکٹر رفاقت کی تو سنتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
”تب میں بیٹی کے آگے ہار گیا تھا۔اب مجھے پرواہ نہیں ہے۔“ہاشم زبیری بولا۔
”تم بھول گئے ہو کہ اس وقت ثانیہ نے کیا کہا تھا۔“ڈاکٹر رفاقت نے یاد دلانا چاہا۔
”مجھے یاد ہے کہ اس نے کہا تھا،میری ماں کی زندگی میں کوئی دوسری عورت اس گھر میں نہیں آسکتی ہے۔“
”یاد ہے اور پھر بھی تم ایسا سوچ رہے ہو۔

(جاری ہے)

“ڈاکٹر رفاقت یہی بات اس کے منہ سے کہلوانا چاہتا تھا۔

ہاشم زبیری کرسی سے اُٹھا اور ڈاکٹر رفاقت کے پاس جاکر سانپ کی طرح پھنکارتی ہوئی آواز میں بولا۔”سحر بانو سے شادی کے لئے مجھے ممتاز کو مارنا بھی پڑا تو میں مار دوں گا۔“
جونہی یہ بات ڈاکٹر رفاقت نے سنی اس کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔زبان بولنا بھول گئی اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔وہ جانتا تھا کہ ہاشم زبیری کے لئے کسی کی جان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
وہ اپنی بیوی کی بھی جان لے سکتا ہے۔
ڈاکٹر رفاقت نے بمشکل تھوک حلق سے نیچے اتارا اور بولا۔”سحر بانو ایک معمولی لڑکی ہے،وہ اس ماحول سے نا آشنا ہے،وہ تمہارے لائق نہیں ہے۔کہاں تم اور کہاں سحر بانو اس کی محض خوبصورتی مت دیکھو۔اور تم اس لڑکی کے لئے اپنی بیوی کا خون بھی کردو گے۔“
”میں نے تم سے کوئی رائے نہیں مانگی ڈاکٹر رفاقت۔
ایک دوست ہونے کے ناطے میں نے تمہیں اپنے دل کی بات بتائی ہے۔“ہاشم زبیری بولا۔”یہ بات تم جانتے ہو کہ میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔“
”تمہاری ہنستی بستی زندگی میں بھونچال آجائے گا، تم سوچو جب ممتاز بھابی کو پتہ چلے گا تو کیا ہوگامیں پھر کہتا ہوں کہ یہ سوچ تم اپنے ذہن سے نکال دو ۔“ایک بار پھر ڈاکٹر رفاقت نے کوشش کہ کسی طرح سے وہ ہاشم زبیری کی سوچ کو بدل سکے۔
لیکن ہاشم زبیری حسن کا غلام تھا۔سحر بانو کو وہ کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔
ہاشم زبیری بولا۔”ڈاکٹر کہیں تمہاری نیت تو خرا ب نہیں ہے۔کہیں تم تو اس پر قربان نہیں ہو۔“
ہاشم زبیری کی بات سن کر ایک دم ڈاکٹر رفاقت ایک پھیکی سی ہنسی ہنسا۔ایسا صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ زبردستی ہنس رہا ہے۔
”بھلا میرا اس سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔
میں اپنی زندگی میں خوش ہوں اور پھر میرا معیار ایسا نہیں ہے۔“
میں نے تمہارے تعلق کی نہیں نیت کی بات کی تھی۔اگر دل میں کوئی بات ہے تو مجھے بتادو۔“ہاشم زبیری نے اس کے چہرے پر اپنی نگاہیں جماتے ہوئے کہا تو ایک دم ڈاکٹر رفاقت چونکا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔” 
”تم نے بات ہی ایسی کی ہے کہ ذہن منتشر ہوگیا ہے۔سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔
“ڈاکٹر رفاقت بولا۔
”تمہیں دیر تو نہیں ہورہی ڈاکٹر رفاقت۔؟“ہاشم زبیری کا یہ اشارہ تھا کہ وہ اب اس کمرے سے چلا جائے۔
”ہا…ہاں مجھے دیر توہورہی ہے۔“ڈاکٹر رفاقت کہہ کر جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا اور پھر رک کر اس نے ہاشم زبیری کی طرف دیکھا۔”مجھے ثانیہ بیٹی کا بہت خیال آرہا ہے۔اسے پتہ چلے گا تو وہ بہت ڈسٹرب ہوگی۔اس کے امتحان سر پر ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ پہلے بھی وہ بغاوت پر اُتر آئی تھی۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ بدتمیز نہ ہوجائے۔وہ بہت جذباتی ہوجاتی ہے۔“ ڈاکٹر رفاقت دراصل ہاشم زبیری کو ڈھکے چھپے الفاظ میں خبردار کررہا تھا۔
ہاشم زبیری نے اس کی ساری بات اطمینان سے سننے کے بعد کہا۔”اب طوفان آئے ، جائیداد کی تقسیم ہوجائے،کسی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں …سحر بانو میری بیوی بن کر رہے گی۔
”تم اس معمولی لڑکی کے لئے اتنے جذباتی ہوگئے ہو۔اس لڑکی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینا چاہتے ہو۔؟“ڈاکٹر رفاقت کو اس کی دیوانگی پر غصہ آرہا تھا۔
”ڈاکٹر رفاقت آئندہ تم اسے معمولی لڑکی مت کہنا۔دوسری بات یہ کہ محبت منہ زور گھوڑے کی طرح ہوتی ہے۔قابو میں نہیں آتی۔“ہاشم زبیری بولا۔
”معاف کرنا ہاشم زبیری یہ محبت نہیں پاگل پن ہے۔
“ڈاکٹر رفاقت کو تو اپنی فکر تھی۔” تم پاگل پن میں بہت کچھ بھول رہے ہو۔“
”اس بار بھی میرے پاگل پن کا علاج تمہارے ہاتھوں ہوگا۔میری شادی کا انتظام تم کرو گے۔“ہاشم زبیری نے اطمینان سے کہا۔
”دیکھو…“ڈاکٹر رفاقت نے کہنا چاہا۔
”ڈاکٹر رفاقت تمہیں دیر ہورہی ہے۔“ہاشم زبیری نے اسے کچھ کہنے سے قبل روک دیا۔ لاچار ڈاکٹر رفاقت کچھ دیر اپنے دوست ہاشم زبیری کا منہ تکتارہا جس نے اس کی چاہت پر حملہ کردیا تھا۔
پھر ڈاکٹر رفاقت کمرے سے باہر نکل گیا۔
ڈاکٹر رفاقت گیٹ کی طرف ایسے جارہا تھا جیسے جواری سب کچھ ہار کر اپنی راہ لے رہا ہو۔جس لڑکی کو وہ اپنے لئے لایا تھا،وہ اس کے ہاتھ سے نکل رہی تھی۔اس لڑکی کے لئے تو ہاشم زبیری نے اپنی بیوی کو جان سے بھی ماردینے کے لئے کہہ دیا تھا۔ 
ڈاکٹر رفاقت ہسپتال میں بھی چپ چپ رہا۔شام کو جب وہ گھر پہنچا تو وہ افسردہ اور رنجیدہ تھا۔
اُسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اس کی بیوی ڈاکٹر نادیہ کچھ دیر قبل ہی گھر آئی تھی۔ ڈاکٹر نادیہ پچاس سا ل سے زائد عمر کی عورت تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو کچھ ایسا رکھا تھا کہ اس کی عمر چالیس سال سے زیادہ نہیں لگتی تھی۔ڈاکٹر نادیہ بھی خوبصورت اور سمارٹ تھی۔ ایسی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کے بارے میں سوچنا پاگل پن ہی تھا۔جونہی اس نے ڈاکٹر رفاقت کی طرف دیکھا جو گھر آتے ہی ٹی وی الاوٴنج میں ایک صوفے پر ایسے بیٹھ گیا تھا جیسے اسٹیشن پر بیٹھا وہ تنہا مسافر ہو جس کی ٹرین نکل گئی ہو اور اس کے بعد کوئی ٹرین نہ آنے والی ہو۔
”کیا بات ہے۔بہت چپ ہو۔خیریت تو ہے۔“نادیہ نے پاس جاکر پوچھا۔
ڈاکٹر رفاقت ایک دم چونکا۔اپنی بیوی کو سامنے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے کمرے میں جانے کی بجائے اس جگہ بیٹھ گیا تھا۔
”کچھ نہیں …“ڈاکٹر رفاقت نے نفی میں گردن ہلائی۔
”تم بہت اُداس اور پریشان لگ رہے ہو۔“نادیہ پاس ہی بیٹھ گئی۔”کیا بات ہے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے۔
”آج میں تھک بہت گیا ہو۔“ڈاکٹر رفاقت نے بہانہ کیا۔
”کام تو تم روزانہ کرتے ہو۔پہلے تو میں نے تمہیں اتنی تھکن میں نہیں دیکھا۔“ نادیہ نے کی مشکوک نگاہیں اس کے چہرے پر دوڑ رہی تھیں۔
”کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے۔“ڈاکٹر رفاقت اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
”میں نے تم سے ایک بات پوچھنی تھی۔“نادیہ بولی۔
”ہاں پوچھو۔
“ڈاکٹر رفاقت صوفے سے اُٹھنے ہی والا تھا۔
”تم تو کہہ رہے تھے کہ سحر بانو نے ہماری نوکری چھوڑدی ہے ۔جبکہ مجھے آج پتہ چلا ہے کہ وہ تمہارے دوست ہاشم زبیری کے گھر میں اس کی بیوی کی ڈیوٹی دے رہی ہے۔“ نادیہ بولی۔
یہ بات ڈاکٹر رفاقت نے اپنی بیوی سے چھپائی تھی۔جانے اسے کس نے یہ بات بتادی تھی۔ ڈاکٹر رفاقت نے اپنے اندر کی بے چینی کو پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ اس نے ہمارے ہسپتال میں کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔وہ ہاشم زبیری کی بیوی کی دیکھ بھال پر مامور ہوگئی ہے۔“
”اسے وہاں تک کون لے کر گیا تھا۔؟“نادیہ نے سوال کیا۔
”میں لے کر گیا تھا۔“ڈاکٹر رفاقت کے پاس اس سچ کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
”تم نے مجھے پوری بات نہیں بتائی اور بس اتنا کہہ دیا کہ اس نے نوکری چھوڑ دی ہے۔
“ نادیہ کے چہرے پر متانت تھی۔
”اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔شاید میرا دماغ اس وقت کہیں اور مصروف ہوگا اور میں نے محض اتنی ہی بات بتادی ہوگی۔“ڈاکٹر رفاقت کھڑا ہوگیا۔
”فائدہ ہے کہ نہیں…میں یہ بات نہیں جانتی۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اس سحر بانو کے ساتھ شاپنگ پر بھی گئے تھے۔“نادیہ کے اس انکشاف نے ڈاکٹر رفاقت کو ہلا دیا تھا۔
اس نے خالی نگاہوں سے ایک نظر نادیہ کی طرف دیکھا ۔
ڈاکٹر رفاقت نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اپنا غصہ دکھاتے ہوئے کہا۔”میں اس کے ساتھ شاپنگ پر گیا تھا۔؟ مجھے کیا ضرورت ہے اس کے ساتھ شاپنگ پر جانے کی۔؟کون ہے وہ جو تمہیں ایسی گھٹیا خبریں دیتا ہے۔میرے سامنے لاوٴ اسے۔“
”زیادہ چیخنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں نے تم سے محض پوچھا ہے۔
اگر یہ حقیقت نہیں تھی تو تم مجھے آرام سے بھی جواب دے سکتے تھے۔“نادیہ بڑے ٹھنڈے مزاج کی خاتون تھی۔ وہ بات کی تہہ میں پہنچنا جانتی تھی۔
”مجھے جھوٹ سے نفرت ہے۔میں جھوٹ پسند نہیں کرتا۔“ڈاکٹر رفاقت ایک بار پھر چیخا۔ دراصل وہ اس شور میں اس حقیقت کو مسخ کرنا چاہتا تھا۔نادیہ بھی اس کی بیوی تھی۔جس نے بھی اسے یہ بتایا تھا اس کی بات کو بھی وہ جھوٹ نہیں کہہ سکتی تھی۔
بات کو ختم کرنے کے لئے وہ بولی۔
”اوکے…بات ختم۔“
”بات ختم نہیں ہوئی۔میرے سامنے اسے لے کر آوٴ جس نے یہ غلط بات تمہیں بتائی ہے۔“ڈاکٹر رفاقت اس کی طرف قہر آلو د نگاہوں سے دیکھتا ہوا چیخا۔
”بات ختم…اب اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوگی۔“نادیہ کہہ کر اس جگہ سے چلی گئی۔ اس نے بات ختم کا کہہ تو دیا تھا لیکن اس نے بات ختم نہیں کی تھی۔
ڈاکٹر رفاقت کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اس نے ایسا کہا تھا۔
اپنے کمرے میں جاکر ڈاکٹر رفاقت نے سوچا کہ وہ کون ہے جس نے یہ خبر اس کی بیوی کو دے دی۔اس نے سحر بانو کو شاپنگ بھی اس جگہ سے کرائی تھی جہاں وہ کبھی بھی اپنی بیوی کے ساتھ نہیں گیا تھا۔ فی الحال اس نے اس بات پر مذید سوچنا ترک کردیا۔اس وقت اس کے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس نے سحر بانو کو ہاشم زبیری سے کیسے بچانا ہے۔
لڑکی اور وہ بھی بہت ہی خوبصورت ہو تو پھر دل ہارنے والے کے اندر دیوانگی آہی جاتی ہے۔اس وقت ایسی ہی صورت حال کا سامنا ڈاکٹر رفاقت اور ہاشم زبیری کو تھا۔دونوں ہی سحر بانو کے حسن کے آگے اپنا اپنا دل ہا ر چکے تھے اور ڈاکٹر رفاقت اس لڑکی کے لئے پرانی دوستی قربان کرنے سے بھی گریز کرنے والا نہیں تھا۔وہ اس بارے میں سوچنے لگا کہ وہ سحر بانو کو کیسے ہاشم زبیری کے چنگل سے چھڑا کر کہیں اور منتقل کرسکے۔
سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر رفاقت نے سوچا کہ وہ ساری بات ثانیہ کو بتادے گا۔وہ یہ بات ثانیہ کے روبرو کرے گا۔اور ثانیہ کو یہ مشورہ دے گا کہ وہ سحر بانو کو اس بنگلے سے باہر نکال دے۔ سحر بانو کو جیسے ہی وہ بنگلے سے باہر نکالے گی،ڈاکٹرر فاقت اسے اپنے ساتھ اپنی دوسری کوٹھی میں لے جائے گا۔ڈاکٹر رفاقت کی دانست میں یہ بہترین حل تھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum