Episode 13 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 13 - زنجیر - فاروق انجم

سحر بانو نے اپنے گھر کا دروازہ بجایا تو کچھ ہی دیر کے بعد اس کی سوتیلی ماں نے دروازہ کھولا اور سحر بانو کی طرف دیکھتے ہی وہ ایک طرف ہٹتے ہوئے بولی۔”آنے کا وقت مل گیا تمہیں ۔“
سحر بانو نے اندرقدم رکھ کر کہا۔”بڑا اکھڑا ہوا لہجہ ہے۔“
”اکھڑا ہوا لہجہ نہ ہو تو پھر کیا ہو۔کتنے فون کئے،کتنے پیغام بھیجے لیکن مجال ہے کہ تم نے پلٹ کر جواب دیاہو۔
ہم نے بھی پھر سوچا کہ ٹھیک ہے،اگر بیٹی نہیں آنا چاہتی تو نہ آئے،اور کتنا انتظار کریں۔مرنے والا تو مر گیا ہے۔“
سحر بانو چونکی۔”کون مر گیا ہے۔؟“
”کون مر گیا ہے۔؟ میں تمہارے باپ کی بات کررہی ہوں۔“اس کی سوتیلی ماں نے اور بھی حیرت کا اظہار کیا۔
”ابا مر گئے ہیں۔؟؟“سحر بانو کو لگا جیسے زمین گھوم لگی ہو۔

(جاری ہے)

”لو بتاوٴ…کتنے بھولے پن سے پوچھ رہی ہو کہ ابا مر گئے ہیں جیسے اس کی تمہیں اطلاع ہی نہ ہو۔
“سحر بانو نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر اس کی طرف تمسخر سے کہا۔”تم مجھ سے مذاق کررہی ہوکہ یہ تمہاری لاپروائی ہے۔“
”مجھے کسی نے اطلاع نہیں دی۔“سحر بانو اس کی طرف حیران کن نگاہوں سے رہی تھی۔
”اب یہ بات مت کہو کہ تمہیں کسی نے اطلاع نہیں دی۔تمہارے جانے کے دو گھنٹے بعد ہی وہ گھر آئے،نشے میں دھت تھے۔ڈاکٹر صاحب نے ان کو ہزار ہزار کے نوٹ جو دے دیئے تھے۔
جاکر خوب چڑھا لی۔چھت پر گئے اور سیڑھیوں سے گر گئے۔“سحر بانو کی سوتیلی ماں نے بتایا۔
سحر بانو اپنی سوتیلی ماں کی طرف خیرہ نگاہوں سے دیکھے جارہی تھی۔اس کا باپ کیسا بھی تھا آخر وہ سحر بانو کا باپ تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔اس کی سوتیلی ماں اسے کیا کہتی رہی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ سامنے والے کمرے میں چلی گئی اور ایک طرف بیٹھ کر رونے لگی۔
سحر بانو روتی رہی اور اس کی ماں کچھ نہ کچھ بولتی رہی۔پھر اس کی ماں خود ہی چپ گئی۔ سحر بانو نے بھی آنسو بہا لئے تھے۔اس نے اپنا چہرہ صاف کیا اور بولی۔
”مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی۔مجھے کل ڈاکٹر صاحب نے بس اتنا کہا تھا کہ میرے ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں مل آوٴں۔آج آئی تو مجھے پتہ چلا کہ ابا تو میرے جاتے ہی دنیا سے چلے گئے تھے۔
”خیر جو ہوا وہ تو ہوگیا۔میں اب بات کروں گی سیدھی ۔میں تمہاری سگی ماں تو ہوں نہیں۔تمہارے باپ سے میرا نکاح ہوا اور میں اس گھر میں آئی تم بھی جانتی ہو اور یہ محلہ بھی جانتا ہے کہ مجھے کوئی سکھ نہیں ملا۔دیکھو سحر بانوہم دونوں کا جو رشتہ تیرے ابا کی وجہ سے بنا تھا وہ اب ختم ہوچکا ہے۔اب تم اپنی زندگی جیو اور ہمیں اپنی زندگی گزارنے دو۔
یہ اچھا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے غلام بن کر جینے کی بجائے اپنی مرضی کی زندگی جئیں۔“سحر بانو کی سوتیلی ماں نے دو ٹوک بات ختم کردی۔
سحر بانو نے جب اپنی سوتیلی ماں کے تیور دیکھتے ہوئے اس کے دل کی بات سنی تو اس نے کہا۔”ٹھیک ہے۔مجھے بھی اس رشتے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔آپ کب جارہی ہیں اس گھر سے۔؟“
سحر بانو کی ماں اس کی بات سنتے ہی اس کی طرف آنکھیں نکال کر بولی۔
”میں ا س گھر سے کیوں جاوٴں۔؟“
”کیونکہ یہ گھر میرے باپ کا تھا۔اب اس گھر کی میں وارث ہوں۔ رشتہ ختم تو ایک ساتھ رہنا بھی ختم۔“سحر بانو نے وضاحت کی۔
”تمہارے ابا نے تجھے کچھ بتایا نہیں تھا کہ اس نے حق مہر میں یہ گھر میرے نام کردیا تھا۔ “سحر بانو کی مان نے انکشاف کیا۔
”آپ کے نام کردیا تھا۔؟؟“سحر بانو چونکی۔
”ہر بات میں اتنی تو بھولی نہ بنو سحر۔
تمہارا باپ مجھے یہ بات بتاچکا تھا کہ اس نے گھر والی بات تمہارے علم میں لادی ہے۔“سحر بانو بھی شاطر عورت تھی۔
”یہ میرے باپ کا گھر ہے۔ابا نے یہ گھر حق مہر میں تجھے نہیں دیا ہے۔“سحر بانو اکڑ گئی۔
”کاغذات دکھاوٴں جو میرے نام ہیں۔میرے نام کے کاغذات میرے پاس موجود ہیں۔ان سے بڑھ کر کوئی ثبوت نہیں ہوسکتا ہے۔“سحر بانو کی سوتیلی ماں بھی کب ڈرنے والی تھی۔
تنک کر بولی۔
”دکھاوٴ…میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ کونسے اس گھر کے کاغذات ابا نے تیرے نام کردیئے تھے۔“
”میری عدت پوری ہو جائے پھر تمہیں اس گھر کی ملکیت کے کاغذات بھی دکھا دوں گی۔ اب تم جاوٴ۔میرا بیٹا آنے والا ہے۔غلط لوگوں میں بیٹھنے لگا ہے۔بہت آوارہ ہوگیا ہے۔تم لڑکی ہو اس لئے میں چاہتی ہوں کہ تم اس کے آنے سے پہلے چلی جاوٴ۔
میں اس کی حرکتوں سے زچ ہوں۔پتا نہیں کس حالت میں وہ گھر میں آجائے اور پھر…۔“سحر بانو کی سوتیلی ماں کے الفاظ میں ایک عجیب طرح کی دھمکی تھی۔حالانکہ اس کا بیٹا دوسرے کمرے میں دروازہ بند کئے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
سحر بانو سوچنے لگی کہ وہ کیا کرے۔پھر اس نے گھر کی طرف نظر دوڑائی اورفی الحال اس گھر سے چلے جانا ہی مناسب سمجھا ۔”میں جارہی ہوں لیکن اپنا حق آسانی کے ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔
“سحر بانو کہہ کر باہر نکل گئی اور اس کی سوتیلی ماں نے دروازہ بند کرکے کمرے سے نکلتے ہوئے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔
###
سحر بانو گلی میں تیز تیز قدم اُٹھاتی جارہی تھی۔اُس کے چہرے پر دکھ اور غصہ ایک ساتھ دکھائی دے رہا تھا۔دروازے میں کھڑی خالہ جمیلہ نے اسے آواز دے کر روک لیا۔خالہ جمیلہ نے سحر بانو کو اسی وقت دیکھ لیا تھا جب وہ اپنے گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔
وہ اس کے انتظارمیں کھڑی تھی۔
”اندر آجاوٴ۔“خالہ جمیلہ نے کہا تو سحر بانو اس کا دروازہ پار کرگئی۔خالہ جمیلہ اسے اسی جگہ لے کر کھڑی ہوگئی۔
”اپنی ماں سے مل کر آرہی ہو۔؟“خالہ جمیلہ نے پوچھا۔
”ہاں۔“سحر بانو نے اُداس لہجے میں جواب دیا۔
”کہہ رہی ہو گی کہ تم کو اطلاع بھی دی اور تم نہیں آئی۔“خالہ جمیلہ نے کہا۔
”وہ ایسا ہی بول رہی تھی۔
“سحر بانو نے نظریں جھکا لی تھیں۔
”بہت تیز عورت ہے۔ساری گلی جانتی ہے لیکن چپ ہے ۔تیرے ابا کو اس کے بیٹے نے سیڑھیوں سے دھکا دیا تھا۔“ایک دم یہ بات منکشف کرکے خالہ جمیلہ نے سحر بانو کو چونکا دیا۔
”میرے ابا کو اس کے بیٹے نے سیڑھیوں سے دھکا دیاتھا۔؟“ سحر بانو متحیر ہوگئی۔
”ہاں ایسا ہی ہوا تھا۔“خالہ جمیلہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
”یہ بات پوری گلی جانتی ہے تو میں ان کے خلاف رپورٹ درج کراوٴں گی۔آپ لوگ اس بات کی گواہی دیں گے۔“
”یہ بات میں تجھے بتارہی ہوں سحر۔کیونکہ تیری سگی ماں میری بہن بنی ہوئی تھی۔محلے والا کوئی نہیں بولے گا۔اور پھر تھانہ کچہری میں جائے گی تو خجل ہوجائے گی۔پولیس کے منہ حرام کھانے کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔جو پیسے کی ہڈی ان کے آگے ڈالتا ہے اسی کی سنتے ہیں۔
اور یہ کالے کوٹوں والے صحیح بات نہیں بتاتے۔بس وہ راستہ بتاتے ہیں جہاں سے ان کی فیس بنے۔تھانہ کچہری بندے کو کسی جوگا نہیں چھوڑتا۔خد ا بچائے ان لوگوں سے ۔ یہاں انصاف ڈھونڈنے نکلو گی تو خود گواچ جاوٴ گی۔جو ہوگیا بس بھول جاوٴ۔اور خدا پر چھوڑ دو۔“ 
خالہ جمیلہ کا کرب اس کے چہرے سے عیاں تھا۔کئی سال پہلے اس کے شوہر کو محلے کے بدمعاش نے معمولی بات پر قتل کردیا تھا۔
کئی سال گذر گئے تھے،خالہ جمیلہ انصاف کے لئے در بدر ٹھوکریں کھا رہی تھی اور وہ بدمعاش آج بھی دندناتا پھر رہا تھا۔انصاف کی متلاشی خالہ جمیلہ کے اندر تلخی تھی اور سچ انگار بن کر منہ سے نکل رہا تھا۔
”تو پھر بھول جاوٴں سب کچھ۔؟“
”بھول جاوٴ بیٹی…کیس لڑنے کے لئے ثبوت اہم نہیں ہوتے،پیسہ اہم ہوتا ہے۔اور پیسہ تمہارے پاس ہے نہیں۔
کون تمہاری بات سنے گا۔رشوت کے غلام سچائی کی سوا( راکھ) بنا کر اُڑا دیتے ہیں۔“خالہ جمیلہ کے اندر تلخی تھی۔ اپنے شوہر کے انصاف کے لئے بھاگ دوڑ میں جو زخم اسے ملے تھے ان زخموں کا خون ابھی تک رَس رہا تھا۔
سحر بانو اور بھی رنجیدہ ہوگئی۔اس نے سوچا کہ اس کے پاس واقعی پیسہ نہیں ہے۔ پیسہ دنیا میں بہت بڑی طاقت اور ضرورت بن گیا ہے۔وہ دنیا میں اکیلی ہوگئی تھی۔
”میں چلتی ہوں۔“سحر بانوکہہ کر باہر نکل گئی۔جو قدم تیز تیز اُٹھ رہے تھے ،وہ بے جان سے ہوگئے تھے۔وہ گم صم جنید کی گاڑی کے پا س پہنچی اور کار کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔جنید نے اس کا افسردہ چہرہ دیکھا اور اُسے حیرت ہوئی کہ جو لڑکی اس کے برابر بیٹھ گئی تھی اور اس کی زبان خاموش نہیں ہوئی تھی وہ اتنی چپ اور گم صم کیسے ہوگئی۔
جنید نے گاڑی اسٹارٹ کرکے واپس جانے کے لئے گھما دی۔
”کیا ہوا…؟“جنید نے پوچھ ہی لیا۔
”سب ختم ہوگیا۔“سحر بانو نے ٹھنڈی آہ بھر کو جواب دیا۔
”کیا ختم ہوگیا۔“جنید نے پھر سوال کیا۔
”میں دنیا میں اکیلی رہ گئی ہوں۔میرا باپ بھی اب دنیا میں نہیں رہا۔سر سے چھت ایسے ہٹ گئی ہے جیسے چند لمحوں کے لئے صحرا کی تپتی ریت پر بادل کا ٹکڑا آیا ہو اور پھر غائب ہوجائے ۔“ سحر بانو نے کہہ کر اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا اور باہر کی طرف دیکھنے لگی۔اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ جنید نے مذید سوال کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرلی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum