Episode 15 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 15 - زنجیر - فاروق انجم

ڈاکٹر رفاقت کو بھی کب چین تھا۔وہ ثانیہ سے ملنے کے لئے مضطرب تھا۔جب کوئی صورت دکھائی نہ دی تو اس نے ثانیہ کو فون کرکے باہر بلا لیا۔ثانیہ سے اس نے بات ایسے انداز میں کی تھی جیسے وہ کوئی بہت بڑا راز اپنے سینے میں دبائے پھر رہا ہے اور ثانیہ کو بتانے کے لئے وہ بے چین ہے۔ثانیہ اُس ریسٹورنٹ میں پہنچ گئی جہاں ڈاکٹر رفاقت پہلے ہی موجود اس کا انتظار کررہا تھا۔

”خیریت تو ہے انکل۔؟“ثانیہ نے جاتے ہی سوال کیا۔
”خیریت ہی تو نہیں ہے بیٹی۔اس لئے تو تمہیں یہاں بلایا ہے۔“ڈاکٹر رفاقت نے کہا۔اسی اثنا میں ویٹر آگیا۔ڈاکٹر رفاقت نے ہلکا پھلکا آرڈر دے دیا۔
”میں آپ کا فون سنتے ہی بے چین ہوگئی تھی۔“ثانیہ کے لہجے سے اس کے اندر کی بے چینی عیاں ہورہی تھی۔

(جاری ہے)

”آپ مجھ سے کیا اہم بات کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے آپ نے گھر آنے کی بجائے مجھے یہاں بلا لیا۔

”دراصل بات ہی ایسی تھی جو میں فون پر نہیں کرسکتا تھا۔اس لئے تمہیں یہاں آنے کے لئے کہا۔میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ہماری ملاقات کا ہاشم کو پتہ چلے۔“ڈاکٹر رفاقت نے کہا۔” میں بہت پریشان ہوں۔“
”بات کیا ہے انکل۔؟“ثانیہ جاننے کے لئے بے چین تھی۔”میرے دل کی دھڑکن کی تیز ہورہی ہے۔“
”تمہاری امی کی طبیعت اب ٹھیک ہے۔انہیں دیکھ بھال کے لئے ایک نرس کی ضرورت تھی۔
وقت پر دوائی لینے سے اب وہ بہتر ہوگئی ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ اب یہ ذمہ داری تم لے لو اور سحر بانو کو اس کام سے فارغ کردو۔“ڈاکٹر رفاقت بولا۔
ثانیہ کے چہرے پر تشویش ابھر آئی۔”یہ بات تو آپ ڈیڈی سے بھی کہہ سکتے تھے۔ وہ نرس کو فارغ کردیتے۔“
”یہی تو مسئلہ ہے کہ ہاشم ،سحر بانو کو چھٹی دینا نہیں چاہتا۔“ڈاکٹر رفاقت نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
”وہ ایسا کیوں نہیں چاہتے۔“ثانیہ کا دل زور سے دھڑکا۔اسے لگا وہی بات ہورہی ہے جس کا اس کو ڈر تھا۔
”کیونکہ وہ ایک بار پھر وہی کہانی دہرانا چاہتے ہیں جو وہ پہلے بھی دہرا چکے ہیں۔“ ڈاکٹر رفاقت نے کہا۔
”یعنی…“ثانیہ نے وضاحت طلب نگاہوں سے دیکھا۔
”یعنی یہ کہ وہ سحر بانو کو تمہاری سوتیلی ماں بنانا چاہتے ہیں۔“ڈاکٹر رفاقت نے بتایا۔
” وہ فیصلہ کرچکے ہیں۔“
ثانیہ کا شک درست نکلا۔”کیا یہ سچ ہے۔؟اور سحر بانو کو اس گھر میں لانے کی پلاننگ کس کی تھی۔آپ بھی ڈیڈی کی اس منصوبہ بندی میں شامل تھے۔؟“
”اگر میں شامل ہوتا تو تمہیں کیوں بتاتا۔میں ایک بار اس کا ساتھ دینے کی غلطی کرچکا ہوں۔بار بار تمہارا دل نہیں دکھا سکتا۔مجھے ہاشم نے کہا تھا کہ بھابی کی دیکھ بھال کے لئے نرس کا انتظام کردو۔
مجھے اس کی نیت کا کیا پتہ تھا۔ میں نرس لے گیا۔وہ بھی بے چاری مجبور تھی۔ میں نے سوچا اس کے چار پیسے بن جائیں گے۔مجھے کیا پتہ تھا کہ ہاشم کی نیت میں کچھ اور ہی ہے۔“ڈاکٹر رفاقت نے لگتے ہاتھ اپنے آپ کو اس بات سے ایسے نکال لیا جیسے وہ نیت کا بالکل صاف ہو۔
ثانیہ کو غصہ آگیا۔”ڈیڈی ایسا کیوں کرتے ہیں۔“
”میں اس بات کی گہرائی میں تو نہیں جاسکتا۔
تم کو میں نے بتادیا ہے۔اب یہ تم پر ہے کہ تم ممتاز بھابی کا گھر کیسے بچا سکتی ہو۔وہ تو اس خبر کو سنتے ہی …“ڈاکٹر رفاقت نے جان بوجھ کر بات اُدھوری چھوڑ دی۔
ثانیہ نے مصمم ارادے سے کہا۔”میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔“
”اس بار ہاشم سرعام کچھ نہیں کرنے والا۔اس کا ارادہ ہے کہ چپ چاپ نکاح ہوجائے اور وہ نئی دلہن کو اپنے دوسرے بنگلے میں رکھ لے۔
اس نے ساری منصوبہ بندی کرلی ہے۔“ ڈاکٹر رفاقت نے کہا۔
”میں ابھی سحر کو بالوں سے پکڑ کر گھر سے نکال باہر کرتی ہوں۔؟“ثانیہ نے اپنے دانت پیسے۔
”ایسا مت کرنا ۔“
”تو پھر کیا کروں۔انتظار کروں کہ کیا ہونے والا ہے۔چپ چاپ بیٹھ جاوٴں۔“ ثانیہ نے کہا۔
”سیدھا سا اس کا حل یہ ہے کہ تم سحر بانو کو کچھ شاپنگ کے بہانے گھر سے باہر لے آوٴ۔
تم ایسا کرنا کہ اسے جے جے شاپنگ سنٹر میں لے جانا ۔وہاں میں بھی پہنچ جاوٴں گا۔اور سحر بانو کو اس کے گھر چھوڑ دوں گا۔“ڈاکٹر رفاقت نے اسے حل بتایا۔
”ڈیڈی اس کے گھر پہنچ جائیں گے۔“
”ہاشم کو سحر بانو کے گھر کا نہیں پتا۔اس لئے تم بے فکر رہو۔“ڈاکٹر رفاقت نے کہا۔
”سحر بانو چاند پر نہیں رہتی اسی دنیا میں رہتی ہے۔ڈیڈی اس کو ڈھونڈ سکتے ہیں یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔
”چلو اس بات کا بھی حل میرے پاس ہے۔“
”وہ کیا ہے۔؟“
”بس تم سحر بانو کو جہاں میں نے کہا ہے وہاں تک لے آوٴ۔سحر بانو کو میں دور دوسرے شہر میں نوکری دلا دوں گا۔وہ ہاشم زبیری کو تلاش کرنے پر بھی نہیں ملے گی۔“ڈاکٹر رفاقت بس یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سے ثانیہ ایک بار سحر بانو کو گھر سے باہر لاکر اس کے حوالے کردے۔
”میں سحر بانو کو اپنے ساتھ شاپنگ پر کیسے لے جاسکتی ہوں۔
میں نے کبھی اس کے ساتھ سیدھے منہ بات ہی نہیں کی۔“
”تم اس کے ساتھ دوستی کرلینا اور اس دوستی کی خوشی میں اسے باہر لے آنا۔“ڈاکٹر رفاقت نے راستہ بھی بتادیا۔اسی اثنا میں ویٹر کچھ کھانے پینے کا سامان رکھ کر چلا گیا۔دونوں کچھ کھانے پینے کے لئے تو آئے نہیں تھے۔ڈاکٹر رفاقت نے محض بیٹھنے کے لئے آرڈر دے دیا تھا۔
”مجھے پہلے ہی شک تھا۔
میں اس بات سے امی کو بھی آگاہ کرچکی تھی۔میں کل ہی یہ کام کرتی ہوں۔اپنے رویے میں تبدیلی لاکر اس سے دوستی کرلوں گی۔“
”ایک بات کا خیال رکھنا یہ کام ہاشم کی موجودگی میں مت کرنا۔اور جب تم سحر بانو کو لے کر باہر نکلو تو مجھے فون پر اطلا ع کردینا۔“
”میں ایسا ہی کروں گی۔“ثانیہ کہہ کر اپنی جگہ سے اُٹھی اور ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئی۔
ڈاکٹر رفاقت نے اپنا کام کردیا تھا۔وہ خود سحر بانو کو اس گھر سے باہر نہیں لے جا سکتا تھا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا اور سحر بانو کو کہیں گم کردیتا تو ہاشم کے قہر کا اسے شکار بننا پڑتا۔ اس لئے اس نے اس کام کے لئے ثانیہ کا کندھا استعمال کیا تھا۔
ثانیہ کے جانے کے بعد ڈاکٹر رفاقت اپنے سامنے پڑی ہوئی چیزوں کو کھانے لگا۔ اب اسے کل کا انتظار تھا ۔
ڈاکٹر رفاقت جس میز پر بیٹھا تھا اس میز سے کچھ فاصلے پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی عمر چالیس سال کی تھی۔سر آدھا گنجا تھا۔شکل و صورت بھی عام سی تھی۔اور پیٹ بھی نکلا ہوا تھا۔
ڈاکٹر رفاقت اور ثانیہ جب سے بیٹھے باتیں کررہے تھے ،وہ آدمی ان پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھا۔وہ آدمی اچانک اس ریسٹورنٹ میں کچھ کھانے پینے کے لئے آیا تھا،اس کی اچانک نگاہ ہاشم زبیری کی بیٹی پر پڑی تو وہ پاس کی میز پر ہی براجمان ہوگیا تھا۔
اس آدمی کانام فاضلی تھا۔فاضلی کو ہاشم زبیری کے قریب رہنے والے بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ ہاشم زبیری کا جاسوس ہے۔جس کا کام ہاشم زبیری کے ارد گرد کیا ہورہا ہے اس کے بارے میں جان کر ہاشم زبیر ی کو اطلاع دینا ہوتا تھا۔فاضلی کبھی بھی کسی کے سامنے ہاشم زبیر ی کو نہیں ملا تھا۔اُسے جب بھی ہاشم زبیر ی سے ملنا ہوتا دونوں ایسی جگہ کا انتخاب کرتے تھے جہاں وہ دوسروں کی نظروں سے اوجھل رہ سکیں۔
فاضلی بہت تیز طرار شخص تھا۔وہ ہاشم زبیری سے ملے بغیر بھی ایسے انداز میں اسے خبر دے دیتا تھا جس کا مطلب ہاشم زبیری فوراً سمجھ جاتا تھا۔
بے خبر ڈاکٹر رفاقت اور ثانیہ آپس میں بات چیت کرکے چلے گئے تھے،فاضلی نمک حلال غلام تھا۔ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ اس اچانک پتا چلنے والی ملاقات کا تذکرہ وہ ہاشم زبیری سے نہ کرتا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum