Episode 22 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 22 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری کے کمرے سے نکلتے ہی جنید اس کار میں سیدھا ظفر کے فلیٹ کی طرف چلا گیا جو گاڑی اسے استعمال کے لئے دی تھی۔کار کھڑی کرنے کے بعد جنید سیڑھیوں کی مدد سے دوسری منزل پر جا پہنچا۔جنید کو اس بات کا علم نہیں تھا ہاشم زبیری کے حکم پر فاضلی اس کا تعاقب کرتا ہوا اس جگہ تک پہنچ گیا ہے۔
جنید ،ظفر کے فلیٹ کے اندر چلا گیا جبکہ فاضلی چند منٹوں کے بعد اس کی تلاش میں اوپر آیا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
فاضلی نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا۔جنید کس فلیٹ کے اندر گیا تھا ،فاضلی یہ نہیں جان سکا تھا۔
ظفر نے جنید کو بیٹھایا اور خود چائے بنانے کے لئے کچن کی طرف چلا۔جنید نے اسے روک لیا۔
”میں تم سے ایک ضروری بات کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اس لئے تم چائے رہنے دو۔

(جاری ہے)

“ جنید بولا۔

”ایسی بھی کیا ضروری بات ہے کہ ہم چائے نہیں پی سکتے۔
“ ظفر مسکرایا۔
”تم نے مجھے ایک بار بتایا تھا تمہاری فیملی کے باقی لوگ گاوٴں میں رہتے ہیں۔وہاں تم لوگوں کے پاس زمین بھی ہے۔تم گاوٴں واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔یہ نوکری چھوڑ کر اپنی زمین پر محنت کرو۔“جنید بولا۔
ظفر اس کے پا س ہی بیٹھ گیا۔”میرے خاندان میں سے کسی نے تمہارے ساتھ رابطہ کیا ہے کہ تم مجھے شہر سے گاوٴں بھیج رہے ہو کیونکہ ان کا ہی یہ تقاضا ہے کہ میں شہر چھوڑ کر گاوٴں واپس آجاوٴں۔
”تمہارے سوا مجھے کوئی نہیں جانتا اس لئے تمہارے خاندان میں سے کوئی بھی میرے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا۔میں تمہیں مشورہ دے رہا ہوں۔“جنید نے کہا۔
”اگر یہ تمہارا مشورہ ہے تو مجھے یہ قبول نہیں ہے۔میں اپنی اس زندگی میں خوش ہوں۔ میں نے ہمیشہ اپنی مرضی کی ہے اور اپنی مرضی میں کسی اور کی دخل اندازی قبول نہیں کی چاہئے وہ میرابھائی،باپ یا پھر دوست ہی کیوں نہ ہو۔
“ظفر سنجیدہ ہوگیا۔
”تمہارا ہاشم زبیری کی بیٹی ثانیہ کے ساتھ کیا تعلق ہے۔؟“جنید نے ایک دم سوال کیا تو ظفر چونکا۔
”تم کیا جانتے ہو۔؟“
”میں ہی نہیں ثانیہ کا باپ بھی جان گیا ہے۔“
”ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔“
”تم ہاشم زبیری کو جانتے ہو۔؟“
”مجھے اسے جان کر کیا کرنا ہے۔میں ثانیہ کو پسند کرتا ہوں۔
ہم ایک ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔“ظفر لاپروائی سے بولا۔
”میں ہاشم زبیری کو جان گیا ہوں۔جو کچھ تم سوچ رہے ہو یہ آسان نہیں ہے۔تم ثانیہ کا خیال دل سے نکال دو اور یہاں سے چلے جاوٴ۔“
”میں کہیں نہیں جاوٴں گا۔“
”جب تم ثانیہ کے ساتھ ملاقات کررہے تھے تو ہاشم زبیر ی نے دیکھ لیا تھا۔ہاشم زبیری نے میری یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ میں پتہ کروں کہ تم کون ہو اور کہاں رہتے ہو۔
“جنید نے بتایا۔
”ہاشم زبیری کو بتادو کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتا ہوں۔اس میں ڈرنے والی کونسی بات ہے۔“ ظفر نے اطمینان سے کہا۔
”تمہاری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔“
”میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔“
”ہاشم زبیری کی بیٹی کے ساتھ محبت کرنا جرم ہی ہے۔ثانیہ کی منگنی ہوچکی ہے۔“جنید نے کہا۔
”منگنی ہی ہوئی ہے ناں۔منگنی ٹوٹنے میں کونسی دیر لگتی ہے۔
“ظفر بولا۔
”مجھے مجبوراً ہاشم زبیری کو بتانا پڑے گا کہ تم کون ہو اور کہاں رہتے ہو۔میں نہیں چاہتا کہ تم کسی مصیبت میں پڑو۔“جنید نے زور دیا۔
”اگر میری فکر ہے تو مت بتاوٴ۔چپ رہو۔“
”چپ رہنے سے میری جان نہیں چھوٹتی۔“
”تو پھر اپنی جان بچاوٴ اور میری فکر مت کرو۔“ظفر یہ کہہ کرغصے سے اُٹھا اور اس نے دروازہ کھول دیا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اب جنید مزید کوئی بات کرنے کی بجائے یہاں سے چلا جائے۔جنید اسے چپ چاپ دیکھتا رہا۔پھر وہ اُٹھ کر اس کے پاس گیا اور نرمی سے بولا۔
”دیکھو تم میرے دوست ہو…“
”تم میری دوستی چھوڑو اور اپنی ڈیوٹی پوری کرو۔مجھے کسی ہاشم زبیری کی پرواہ نہیں ہے۔میں ثانیہ سے محبت کرتا ہوں۔“ظفر نے منہ دوسری طرف کرلیا۔
”دیکھو…“جنید نے پھر بولنا چاہا۔
”تم جاسکتے ہو جنید۔مجھے کچھ نہیں سننا۔“ظفر نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے منع کردیا۔جنید پھنس گیا تھا۔ایک طرف ہاشم زبیری تھا جس کے آگے وہ کچھ چھپا نہیں سکتا تھا۔کیسے چھپا سکتا۔اُسے ہاشم زبیر ی کا سامنا کرنا تھا۔دوسری صورت میں وہ کہیں فرار ہوجائے تو پھر وہ ہاشم زبیری کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔کہیں فرار ہونا ممکن نہیں تھا۔
دوسری طرف اس کی دوستی تھی۔جنید کے لئے کوئی فیصلہ کرنا مشکل تھا۔وہ فلیٹ سے باہر نکل گیا۔
فاضلی ابھی تک اسی جگہ کھڑا تھا۔جونہی جنید باہر نکلا فاضلی ایک فلیٹ کے آگے ایسے کھڑا ہوگیا جیسے ابھی اس نے اس فلیٹ کی بیل دی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ دروازہ کب کھلتا ہے۔جنید اس کی جانب دیکھے بغیر اس کے برابر سے گزر گیا۔
فاضلی کو پتہ چل گیا تھا جنید کس فلیٹ سے نکلا ہے۔
اس نے فون نکالا اور ہاشم زبیری کا نمبر ملا یا۔کچھ دیر بعد رابطہ ہوتے ہی اس نے ساری تفصیل اس کے گوش گزار دی۔ ہاشم زبیری چپ چاپ سب کچھ سنتا رہا۔پھر رابطہ منقطع ہوگیا۔
ہاشم زبیری نے موبائل فون ایک طرف رکھ کر سوچا کہ فاضلی کے بتانے کے مطابق اس گھر سے نکل کر جنید ناک کی سیدھ میں ظفر کے فلیٹ میں جا پہنچا۔ اس کا مطلب ہے کہ جنید کا ظفر کے ساتھ تعلق ہے۔
اگر ایسی بات نہ ہوتی تو وہ ظفر کے فلیٹ کو تلاش کرتا۔ہاشم زبیری چاہتا تو ابھی اور اسی وقت ظفر کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرسکتا تھا لیکن اس کا دماغ اور ہی خطرناک سوچ جنم دے رہا تھا۔
 ###
جنید کی کار تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ صاف الفاظ میں ظفر کے بارے میں بتادے گا۔اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔
اس کے بعد جو بھی ہوگا، وہ ظفر کی قسمت کے ساتھ اس نے مشروط کردیا تھا۔
جس سڑک پر جنید کی کار دوڑ رہی تھی۔اسی سڑک پر ڈاکٹر رفاقت اپنی کار کو ڈرائیو کرتا ہوا ہسپتال کی طرف جارہا تھا۔جنید کی کار کے پیچھے سے ایک ویگن تیزی سے اس کی کار کو اوور ٹیک کرکے آگے نکلی تو جنید کی نظر اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان اختر پر پڑ گئی۔
وہ ویگن بڑی تیزی سے آگے نکلی اور اپنے آگے مناسب رفتار سے جاتی ہوئی ڈاکٹر رفاقت کی کار کے پیچھے اختر نے اپنی ویگن پوری رفتار سے ٹکرا دی۔
ڈاکٹر رفاقت پرسکون کار چلا رہا تھا۔اس اچانک آفت سے وہ اپنی کار کو فوری سنبھال نہیں سکا اوراس کی کار بے قابو ہوگئی،اسٹیرنگ ایک دم گھوم گیا۔اور کار کا توازن ٹھیک کرنے کی کوشش میں ڈاکٹر رفاقت کی کار سڑک پر ترچھی ہوگئی۔ایک تیز رفتار ٹرک آیا اور ایک دھماکے سے ڈاکٹر رفاقت کی کار سے جا ٹکرایا۔ڈاکٹر رفاقت کی کار نے اُلٹ بازی کھائی اور سڑک پر سرکتی ہوئی فٹ پاتھ پر جا چڑھی ۔ ڈاکٹر رفاقت اندر بری طرح سے زخمی ہوگیا تھا۔ایک دم وہاں لوگ جمع ہوگئے۔اختر کی ویگن اس جگہ سے نکل چکی تھی۔
جنید نے بھی اپنی کا رایک طرف روک دی۔وہ بھی کار سے نکل کر ڈاکٹر رفاقت کی طرف بھاگا۔اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔جنید نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اختر اس حادثے کی وجہ ہے۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum