Episode 27 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 27 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری بہت شاطر اور زیرک انسان تھا۔اس نے پولیس کو بتایا تھا کہ یہ نوجوان اس سے نوکری مانگنے کے لئے اس کے پاس آیا تھا۔بہت ہی ضرورت مند ہونے کی وجہ سے وہ اس کی منت سماجت کررہا تھا۔اور وہ اسے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ نوکری ایسے نہیں ملتی بلکہ اسے اس کے آفس میں آکر انٹرویو دینا پڑے گا کہ اچانک گولی آئی اور اس نوجوان کے سینے پر آلگی ۔

بیان لکھنے کے بعد پولیس انسپکٹر نے سوال کیا۔”لگتا ہے اس نوجوان کی کسی سے دشمنی تھی۔ وہ اس کی تاک میں تھا اور جیسے ہی اسے موقعہ ملا اس نے اس کا کام تما م کردیا۔“
ہاشم زبیری نے فوراً اس کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔”میرا نہیں خیال کہ ایسی کوئی بات تھی۔بھلا یہ کیا دشمنی پالے گا۔یہ تو بے چارہ دو وقت کی روٹی سے تنگ تھا۔

(جاری ہے)

بہت پریشان تھا۔“
”پھر …؟؟“پولیس آفیسر نے پوچھا۔
”یہ میرے ہی کسی دشمن کی چال لگتی ہے۔کوئی ہے جو مجھے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔لیکن اچانک یہ نوجوان باتیں کرتے ہوئے میرے آگے آگیا اور گولی اسے لگ گئی۔“ہاشم زبیری نے یہ بات کہتے ہوئے اپنے مخالفین کے نام اپنے ذہن میں یاد کرنے شروع کردیئے تھے۔وہ لگے ہاتھ اپنے کسی نہ کسی مخالف کو اس کی لپیٹ میں لانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔
”آپ کا کوئی دشمن ہے۔؟“
”میں ایک بزنس مین ہوں۔ہوسکتا ہے کہ کسی کو مجھ پر کسی بات کا غصہ ہو۔اور اس نے اس غصے میں مجھے ختم کرنے کا ارادہ کرلیا ہو۔“
”کون ہوسکتا ہے وہ۔؟“
”اس کے لئے مجھے سوچنا پڑے گا ۔میں کسی کا ایسے ہی نام تو نہیں لے سکتا۔ممکن ہے کہ ایسا ہو ہی نہ۔یہ میرا محض خیال بھی ہوسکتاہے۔میں نے اپنا خیال ظاہر کیا ہے۔
“ شاطر ہاشم زبیری بات کو گھما بھی گیا۔
”ٹھیک ہے آپ مجھے اطلاع کردیجئے گا تاکہ ہمیں اس کیس کو حل کرنے میں آسانی ہوسکے۔“انسپکٹر بولا۔
”میں ضرور ایسا کروں گا۔“ہاشم زبیری کہنے کے بعد اپنی کار کی طرف چل پڑا۔اس کے اندر نفرت کا لاوا ابل رہا تھا۔ظفر نے اس کی بیٹی کے ساتھ محبت کرنے کی جرأت کی تھی اور اس کی سزا اس کے نزدیکھ یہی تھی۔
اچانک وہ رکا۔اُسے خیال آیا کہ ظفر کی جیب میں اس کا موبائل فون بھی ہوگا۔ اور اس موبائل فون میں ثانیہ کے موبائل فون کا نمبر ہوگا۔پولیس نے اگر وہ موبائل فون اپنی تحویل میں لے لیا ہوا تو مشکل یہ ہوجائے گی کہ اس موبائل فون کی جب کالیں چیک کی جائیں گی تو ثانیہ کا موبائل فون سامنے آجائے گا اور تفتیش کا رخ اس کی بیٹی کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔
ہاشم زبیری اسی وقت پلٹا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا جائے وقوعہ پر پہنچا۔اس وقت ظفر کی لاش ایمبولینس میں رکھ چکے تھے اور ایک آدمی ایمبولینس کا دروازہ بند کررہا تھا۔پولیس ارد گرد کھڑی تھی۔ہاشم زبیری نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا کہ شاید ظفر کا موبائل فون اسے کہیں پڑا دکھائی دے جائے لیکن ایسا نہیں تھا۔
”کوئی پرابلم ہے۔
؟؟“اچانک اسی انسپکٹر نے ہاشم زبیر ی کو دیکھ کر سوال کیا۔
ہاشم زبیری چونکا۔”نہیں…کوئی نہیں۔“
”آپ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔“انسپکٹر کی آنکھیں اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔
”مجھے اس نوجوان کی موت پر افسوس ہورہا ہے۔“ہاشم زبیری بولا۔
”بات تو افسوس کی ہی ہے۔“انسپکٹر کو ہاشم زبیری کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی اور وہ ٹٹولتی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
”اوکے۔“ہاشم زبیری کہہ کر واپس پلٹ گیا۔وہ تیزتیز قدم اُٹھاتا اپنی کا رکے پہنچا۔کار کا ڈرائیور مستعد کھڑا تھا۔ہاشم زبیر ی کو دیکھتے ہی اس نے کار کا دروازہ کھول دیا۔ہاشم زبیری نے کار میں بیٹھنے سے قبل کچھ سوچا اور پھر کا ر میں بیٹھ گیا۔ڈرائیور نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی کا ر آگے بڑھا دی۔
ہاشم زبیری ابھی تک اسی موبائل فون کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
وہ دل ہی دل میں اپنی یہ غلطی تسلیم کررہا تھا کہ اس نے ظفر کو مارنے سے قبل کسی بہانے سے اس کا موبائل فون کیوں نہیں لے لیا۔اگر وہ موبائل فون کسی کے ہاتھ لگ گیا تو ثانیہ اور ظفر کا تعلق منظر عام پر آجائے گا۔
”کہاں جانا ہے سر۔؟“ڈرائیور نے پوچھا۔
ہاشم زبیری ایک دم چونکا۔”گھر چلو۔“اسی اثنا میں ثانیہ کا فون آگیا۔ہاشم زبیری نے فون کان کو لگا کر کہا۔
”ہیلو۔“ 
ثانیہ نے جلدی سے پوچھا۔”ڈیڈی…ظفر سے ملاقات ہوئی۔“
”ہاں ہوئی۔“ہاشم زبیری نے مختصر جواب دیا۔
”کیسا لگا آپ کو ظفر۔؟“ثانیہ نے اگلا سوال کیا۔
”گھر آکر بات کرتا ہوں۔میں گھر ہی آرہا ہوں۔اور سنو تم ابھی ظفر کے موبائل فون پر بات مت کرنا۔“ہاشم زبیری نے کہا۔
”ظفر کے موبائل فون پرتو میں نے ابھی کال کی تھی۔
“ثانیہ نے بتایا۔
ہاشم زبیری ایک دم چونکا۔”تم نے ابھی کال کی تھی۔؟کیوں کال کی تھی تم نے۔؟کیا ضرورت تھی۔؟“
”میں ظفر سے پوچھنا چاہتی تھی …لیکن آپ اتنے پریشان کیوں ہوگئے ہیں۔؟ “ ثانیہ کو حیرت ہوئی۔
”اب اسے کوئی کال نہیں کرنی بلکہ ایسا کرو تم اپنا موبائل فون بند کردو۔“ہاشم زبیری بولا۔
”لیکن کیوں۔؟“ثانیہ کی حیرت میں دو چند اضافہ ہوگیا۔
”مجھے آپ ظفر سے بات سے کیوں منع کررہے ہیں۔ظفر کی کوئی بات پسند نہیں آئی۔“
”میں کہہ رہا ہوں کہ تم اپنا موبائل فون بند کردو۔میں گھر آرہا ہوں اور آکر بات کرتا ہوں۔“ہاشم زبیری کو اندر اندر ہی بے چینی ہورہی تھی۔
”میں جاننا چاہتی ہوں۔“ثانیہ بھی بضد ہوگئی۔
ہاشم زبیری کو ثانیہ کے سوال پہ سوال کرنے پر غصہ آگیا تھا۔ اس نے ایک دم کہا۔
”ظفر کو کسی نے گولی مار کر مار دیا ہے۔“
”کیا…؟؟“اس خبر کو سنتے ہی ثانیہ کی حیرت میں ڈوبی چیخ ہاشم زبیری کو سنائی دی اور اس کے بعد ثانیہ کی کوئی آواز نہیں آئی۔ہاشم زبیری نے کئی بار اسے مخاطب کیا لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ثانیہ اس خبر کو سنتے ہی بے ہوش ہوگئی ہو۔
”شٹ…شٹ…“ہاشم زبیری کو تاسف کے ساتھ غصہ بھی آنے لگا کہ اس نے یہ بات ثانیہ سے کیوں کہہ دی۔
ہاشم زبیری نے ڈرائیور کو کار تیز چلا نے کی ہدایت کردی۔
#…#…#
ہاشم زبیری گھر جاتے ہی تیز قدموں کے ساتھ ثانیہ کے کمرے میں پہنچا تو وہاں کا منظر اس کے اوسان خطا کردینے والا تھا۔موبائل فون فرش پر گر ا ہوا تھا اور ثانیہ بے ہوش کرسی پر ایسے بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا آدھا جسم لٹک رہا تھا۔
ہاشم زبیری نے جلدی سے ثا نیہ کو سیدھا کیا اور ملازم کو آواز دی ایک ملازم بھاگتا ہوا کمرے میں آگیا۔
”سحر بانو کو بلاوٴ وہ اسے آکر چیک کرے۔“
ملازم اُلٹے پاوٴں بھاگا۔ہاشم زبیری اپنی بیٹی کو ہوش میں لانے کے لئے اس کے گال تھپتھپانے لگا۔کچھ دیر کے بعد ملازم واپس آگیا۔
”صاحب جی …وہ کہیں نہیں ہیں۔“
”کہیں نہیں ہے۔کہاں ہے وہ۔دیکھو کہاں ہے۔“ہاشم زبیری نے تیز لہجے میں کہا۔” جلدی لے کر آوٴ اسے۔“
”بی بی جی خود ان کے بارے میں پوچھ رہی تھی کہ وہ آدھے گھنٹے سے ان کا انتظار کررہی ہیں۔
پھر چوکیدار بھی ثانیہ بی بی کے ساتھ مل کر انہیں تلاش کررہا تھا۔“ ملازم نے مزید بتایا۔
ہاشم زبیری متحیر نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا اور یہ بھول گیا کہ اس کی بیٹی بے ہوش پڑی ہوئی ہے۔پھر ایک دم اسے جیسے یاد آگیا ہو۔اس نے اپنے فون سے ڈاکٹر کا نمبر ملایا اور اُسے جلدی اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔
ڈاکٹر کو آتے ہوئے بیس منٹ لگ گئے تھے۔
ان بیس منٹوں میں ہاشم زبیری ایک اذیت میں رہا تھا۔اس نے ثانیہ کو بیڈ پر لٹا دیا تھا۔ملازم ارد گرد کھڑے تھے۔ایک ملازمہ ،ثانیہ کے پاوٴں اور کبھی ہاتھ دباتے ہوئے ان پر مساج بھی کررہی تھی۔ثانیہ کے جسم میں حرکت ہونے لگی تھی۔اس فکر میں ہاشم زبیری کسی سے یہ بھی نہیں پوچھ سکا کہ سحر بانو کہاں اور کیسے گیٹ سے باہر نکل کر گئی ہے۔اب یہ بات تو عیاں ہوچکی تھی کہ سحر بانو اس گھر میں نہیں ہے ورنہ وہ کہیں سے بھی نکل کر سامنے آجاتی۔ہاشم زبیری کا ذہن مختلف سوچوں میں منقسم ہوچکا تھا۔
ڈاکٹر نے ثانیہ کو چیک کیا،اور کچھ دیر کے بعد ہی ثانیہ نے آنکھیں کھول دیں۔چند منٹوں کے بعد ثانیہ ایک بار پھر آنکھیں بند کرکے سو گئی۔
”کیا ہوا ڈاکٹر۔؟“ہاشم زبیری نے پوچھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum