Episode 28 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 28 - زنجیر - فاروق انجم

”اچانک کسی شاک کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی ہے۔خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔اب یہ سو گئی ہیں۔ذہنی سکون مل جائے گا۔فکر کی بات نہیں ہے۔سب کچھ ٹھیک ہے۔“ ڈاکٹر نے بتایا۔
ڈاکٹر نے اجازت لی اور چلا گیا۔ہاشم زبیری نے ایک ملازمہ کو ثانیہ کے کمرے میں بیٹھایا اور سب کمرے سے باہر نکل گئے۔
ہاشم زبیری سیدھا ممتاز بیگم کے کمرے میں چلا گیا۔
ممتاز بیگم کے پاس ایک دوسری ملازمہ بیٹھی ان کا بازو دبا رہی تھی۔
ہاشم زبیری نے جاتے ہی پوچھا۔”سحر بانو کہاں ہے۔؟“
”میں تو خود ان سب سے پوچھ رہی ہوں کہ سحر بانو کہاں چلی گئی ہے۔“ممتاز بیگم نے جواب دیا۔
”کیا وہ تمہیں بتا کر کہیں گئی ہے۔؟“ہاشم زبیری بولا۔
”میں سو رہی تھی۔اُٹھی تو کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

میں نے سمجھا شاید باتھ روم میں ہو۔ جب کافی دیر ہوگئی تومیں نے بیل دی اور یہ اندر آئی۔“ممتاز بیگم نے بتایا۔”پھر اس کی تلاش ہوئی مگر وہ کہیں نہیں ملی۔ثانیہ نے مجھے بتایا کہ اس نے سحر بانو کو جنید کے ساتھ دیکھا تھا۔“
”جنید کے ساتھ…؟؟“ہاشم زبیری چونکا۔
”کیا بتایا تھا ثانیہ نے…دونوں ایک ساتھ باہر گئے تھے۔؟“ہاشم زبیری بولا۔
”بس مجھے تو اس نے اتنا ہی بتایا تھا۔چوکیدار کو پتہ ہوگا۔کیونکہ ثانیہ کے ساتھ چوکیدار بھی تھا۔“ممتاز بیگم نے کہا۔
ہاشم زبیری نے باہر نکل کر چوکیدار کو اندر بلا لیا۔
”سحر بانو کس کے ساتھ باہر گئی ہے۔اور تم نے اسے باہر جانے کیسے دیا۔؟“ہاشم زبیری کا لہجہ تحکمانہ تھا۔
”میں نے ان کو باہر نہیں جانے دیا صاحب۔
“چوکیدار نے جواب دیا۔
”تو پھر وہ کہاں چلی گئی ہے۔“ہاشم زبیری کا لہجہ درشت تھا۔
”نواز نے ان کو جنید صاحب کے ساتھ باہر دیکھا تھا۔وہ دونوں بنگلے کے عقب میں جو گیٹ ہے وہاں سے نکلے تھے۔جنید کی کار ایک طرف کھڑی تھی۔اور پھر دونوں اسی کار میں چلے گئے تھے۔“چوکیدار نے بتایا۔
ہاشم زبیری کی حیرت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا ۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جنید اور سحر بانو کیوں ایک ساتھ یہاں سے چلے گئے۔کیا ایسا تو نہیں تھا کہ دونوں اس کی ناک کے نیچے پیار و محبت کی مالا بناتے رہے ہوں اور اسے اس بات کا علم بھی نہیں ہوسکا۔”جنید کے ساتھ وہ پچھلے گیٹ سے باہر نکلی ہے۔کہاں ہے نواز۔؟“
حکم ملتے ہی نواز بجلی سی تیزی سے ہاشم زبیری کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ہاشم زبیری نے اس سے پوچھا تو نواز نے ساری تفصیل اس کے گوش گزار دی۔
ہاشم زبیری ساری بات سن کر سیخ پا ہوگیا تھا۔”تم نے ان دونوں کو روکا کیوں نہیں۔؟“
”جنید صاحب کو کسی بھی کام سے روکنے کا اختیار آپ نے کبھی ہمیں دیا ہی نہیں۔اور پھر جب میں نے ان سے تقاضا کیاتو وہ بولے کہ آپ نے سحر بانو صاحبہ کو لانے کے لئے کہا کیونکہ آپ ان سے شادی کرنے والے ہیں۔“چوکیدار نے آخری جملہ ہولے سے ادا کیا۔
”ایسا کہا اس جنید نے۔
؟“ہاشم زبیری کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔
”جی ہاں ایسا ہی کہا تھا۔“نواز سہم کر بولا۔
ہاشم زبیری نے تو یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ جنید بھی کبھی اسے اس طرح سے اچانک چھوڑ کر جاسکتا ہے۔وہ سوچنے لگا اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ سحر بانو کے حسن میں پاگل ہوگیا اور سحر بانو بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئی ہوگی، اور دونوں ہی بھاگ گئے۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جنید اس کے بارے میں جان گیا تھا اور اُسے یہ بھنک پڑ گئی ہوگی کہ میں اُسے ظفر کے ساتھ تعلق کی وجہ سے سبق سکھانے والا ہوں۔اور اس نے راہ فرار اختیار کرلی۔لیکن اگر دوسری وجہ ہے تو پھر سحر بانو اس کے ساتھ کیوں گئی۔؟
ابھی ہاشم زبیری یہ سوچ ہی رہا تھا اس کا موبائل فون بجنے لگا۔ہاشم زبیری نے نام دیکھا تو وہ اختر کا تھا۔
ہاشم زبیری نے نواز کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے موبائل فون کان سے لگا لیا۔
”کیا بات ہے۔؟“
”آپ کا فون بند تھا۔میں بہت دیر سے ٹرائی کررہا تھا۔“دوسری طرف سے اختر کی آواز آئی۔
”ہاں وہ بند تھا…کام کی بات کرو۔؟“ہاشم زبیری اُلجھن کا شکار تھا۔
”جنید وہاں کیا کررہا تھا۔“اختر نے سوال کیا۔
”میں نے اسے وہاں نہیں بلایا تھا۔
“ہاشم زبیری کو اس کی بات سن کر حیرت سی ہوئی۔
”جنید وہاں موجود تھا۔اس نے مجھے دیکھا تھا۔“اختر نے بتایا۔
”کیا کہہ رہے ہو۔؟جنید اس جگہ موجود تھا۔اس نے تمہیں دیکھ بھی لیا۔کب دیکھا تھا۔جب تم اپنا کام کررہے تھے ۔؟؟“ہاشم زبیری کے ماتھے پر سلوٹیں اور بھی گہری ہوگئی تھیں۔
”جب میں کام مکمل کر کے جارہا تھا تو وہ اچانک وہاں آگیا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور میں وہاں سے نکل گیا۔“
”اسے بھی لٹکا دیتا۔کام ختم ہوجاتا۔“ہاشم زبیری سیخ پا ہوگیا۔
”اب حکم کریں مجھے بتائیں کہاں ہے وہ ،ابھی یہ کام کردیتا ہوں۔“اختر نے جلدی سے کہا۔
”بھاگ گیاہے کمینہ۔تم اس کی تلاش میں اپنے آدمی لگادو۔وہ اپنی کار میں بھاگا ہے۔جہاں ملے اسے مار دو اور جو لڑکی اس کے ساتھ ہے اسے زندہ میرے پاس لے آوٴ۔
“ ہاشم زبیری کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اس وقت اگر جنید اس کے سامنے ہوتا وہ اس کا گلا دبا کر ہی د م لیتا۔
اختر نے اچانک سوال کیا۔”لڑکی بھی ہے اس کے ساتھ۔؟“
”جو کہا ہے وہ کرو۔تمہارے سب بندے اس کی شکل کو جانتے ہیں۔اسے ڈھونڈ نکالو اور ابھی یہ کام شروع کردو۔میں بھی سوچتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔“ہاشم زبیری نے کہہ کر فون بند کردیا۔
شدید غصے سے ہاشم زبیری کی آنکھوں میں انگار برسنے لگے تھے۔وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اب کیا قدم اُٹھائے۔وہ سوچتا ہوا سٹڈی روم میں چلا گیا اور اسی سوچ میں مخمور وہ اپنی کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔سوچتے سوچتے اچانک اس کی نگاہ میز پر بکھرے سامان پر چلی گئی۔وہ چونکا۔ہاشم زبیری نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔قرینہ گھر کی سجاوٹ سے لے کر اس کے لباس کی تراش خراش تک دکھائی دیتا تھا۔
بکھرا ہوا وہ سامان اس کے لئے حیرت کا باعث تھا۔ایک دم اس کے دماغ میں جیسے دھماکہ سا ہوا ہو۔اس نے اس دن کسی اندھے عاشق کی طرح سحر بانو کو اپنی خفیہ تجوری دکھادی تھی۔ اس نے جلدی سے شلف ایک طرف ہٹائی اور وہ ٹھٹک کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔تجوری میں چابی لگی ہوئی تھی۔ہاشم زبیری نے تجوری کھولی اور وہ ایک طویل سانس لے کر اپنی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
ہاشم زبیری نے فون کا نمبر ملایا اور کان سے لگاتے ہی بولا۔”دیکھو جنید کو بھی نہیں مارنا۔مجھے وہ بھی اس لڑکی کے ساتھ زندہ چاہئے۔اور اس کی تلاش میں زمین آسمان ایک کردو۔مجھے جنید اور وہ لڑکی زندہ چاہئے۔اس شہر کے چپے چپے میں پھیل جاوٴ،شہر سے باہر جہاں تک اس کی تلاش کے لئے کوشش کی جاسکتی ہے وہ کرو اور ان دونوں کو میرے سامنے کھڑا کردو۔تم میری بات سمجھ گئے ہو۔؟“
”جی میں سمجھ گیا ہوں۔“اختر پٹھان کی آواز آئی۔
ہاشم زبیری نے کہہ کر فون بند کردیا اس کے چہرے پر غضبناک وحشت پھیل چکی تھی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum