Episode 31 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 31 - زنجیر - فاروق انجم

جنید کے جسم پر بہت سے رگڑیں آئی تھیں،جس سے اس کے جسم میں درد ہورہی تھی۔پہلے تو وہ زمین پر اپنے سر کو پکڑے لیٹا رہا۔اُسے محسوس ہورہا تھا جیسے زمین گھوم رہی ہے۔ پھر جیسے ہی اس کے حواس بحال ہوئے اس نے سر اُٹھا کر اپنے دائیں بائیں دیکھا۔دور تک اندھیرا تھا۔سکوت ایسا گہر ا تھا جیسے وہ انسانوں کی دنیا سے نکل کر کہیں اور ہی پہنچ گیا ہے۔ جنید کھڑا ہوگیا۔
اس نے دور تک دیکھنے کی کوشش کی اندھیرے میں اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔جنید اس بیابان جنگل میں اکیلا کھڑا تھا۔اس کے علم میں نہیں تھا کہ وہ کونسا علاقہ ہے ،اس جگہ سے آبادی کتنی دور ہے،جانے کے لئے کونسا راستہ ہے۔؟؟جنید نے غصے اور لاچار ی سے زمین پر اپنا پیر مارا اور ایک طرف تھوک دیا۔
اس جگہ جنیدکبھی دائیں اور کبھی بائیں ٹہلتا رہا۔

(جاری ہے)

اسی طرح تقریباً آدھا گھنٹہ گزر گیا۔اس دوران اس نے اس ویران سڑک پر کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا تھا،کوئی کسی قسم کی ٹریفک بھی نہیں گزری تھی۔کسی انسان کا بھی گزر نہیں ہوا تھا۔اس کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آرہی تھی کہ وہ کس طرف چل کر جائے۔آگے کی طرف جائے کہ پیچھے کی طرف…اس نے متعدد بار دائیں بائیں دیکھا۔کئی بار چلنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپا رہا تھا۔
اس جگہ کھلے آسمان کے نیچے سردی بھی زیادہ تھی۔اس کی سوچ اور عقل جیسے منجمد ہوگئی ہو۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے کسی نے سلب کرلی ہو۔
اچانک اس نے اپنا موبائل فون نکالا جو اس نے فرار ہونے سے قبل بند کردیا تھا۔ موبائل فون کو آن کرنے کے بعد اس نے موبائل فون کی ٹارچ روشن کی اور دائیں بائیں اس روشنی کی مدد سے دیکھنے لگا۔اس کے ارد گرد جھاڑیاں تھیں اور وہ ڈھلان اور سڑک کے درمیان میں کھڑا تھا۔
وہ اپنے موبائل فون کی ٹارچ کی مدد سے پٹڑی کی طرف چل پڑا۔ اس کے دماغ میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ پولیس کو فون کرکے ان سے مدد طلب کرلے۔لیکن پھر اس نے سوچا ہاشم زبیری کے جانے کتنے چمچے پولیس میں بھرتی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ اس کو مدد لینا مہنگی پڑ جائے۔ فی الحال اس نے خود ہی اس جنگل سے نکلنے کے لئے فیصلہ کیا ۔
ابھی وہ ڈھلان پر چڑھنے ہی والا تھا کہ ایک انسانی آواز نے اس کو چونکانے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی دیا۔
”کہاں جارہے ہو نوجوان۔؟“
اس جنگل اور گہرے سکوت میں ایک انسانی آواز نے جنیدکی رگوں میں خون منجمد کردیا۔ وہ فورا آواز کی سمت گھوما۔اس سے کچھ فاصلے پر ایک شخص کھڑا تھا۔جس نے سیاہ چادر اپنے کندھو ں تک اوڑھ رکھی تھی۔جنید نے اپنے موبائل کی ٹارچ کا رخ اس کی طرف کردیا اور پاوٴں سے لے کر سر تک اس کا جائزہ لیا۔اس نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔
اس کے چہرے پر داڑھی تھی اور بال بے ڈھنگے انداز سے بکھرے ہوئے تھے۔اس کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی۔ چہرے سے و ہ صحت مند لگتا تھا۔
”مجھے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر ڈر گئے ہو۔؟تم سوچ رہے ہوگے کہ تم کافی دیر سے اس جگہ اکیلے ہی کھڑے تھے اچانک میں کہاں سے آگیا۔“وہ مسکرا بھی رہا تھا۔کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولا۔”ڈرو نہیں…میں انسان ہی ہوں۔
کوئی جن بھوت نہیں ہوں۔تم سے بھی پہلے میں ایک گھنٹے سے اس جگہ چھپا ہوا تھا۔“
”چھپے ہوئے تھے۔؟؟“جنید کو اس کی باتیں سن کر حیر ت ہورہی تھی۔”یہاں میرے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔“
”ہاں میں اس جگہ چھپ کر بیٹھا ہوا تھا۔اور تجھے مسلسل دیکھ رہا تھا۔میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم چلتی ہوئی ٹرین سے کودے ہو کہ تمہیں کسی نے دھکا دیا ہے۔
؟“اس نے پوچھا۔
جنید بولا۔”مجھے اچانک کسی نے دھکا دیا اور میں گرتا ہوا یہاں آگیا۔“جنید کے اندر کا خوف ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا۔
”دشمن دار ہو۔؟“اس نے جنید کی طرف دو قدم بڑھا دیئے۔
”نہیں۔“جنید نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”کہیں بیوی نے تو دھکا نہیں دے دیا۔“وہ کہہ کر ہنسنے لگا۔خاموشی میں اس کی ہنسی میں وحشت تھی۔
”میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے بھائی ،بھائی کا مار رہا ہے،بیٹا باپ کا دشمن ہے ،بیوی ،شوہر سے تنگ ہے اور شوہر بیوی کو اوپر پہنچانے کے چکر میں ہے۔کہیں زمین کی وجہ سے دشمنی کی جڑیں پھیل رہی ہیں تو کہیں جائیداد کی تقسیم دیواریں کھینچ دیتی ہے۔پتہ نہیں انسان اپنے نفس کا غلام کیوں بن گیا ہے۔اب اپنے موبائل فون کی روشنی بند کردے۔اندھیرا ٹھیک ہے۔
”میرے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔“جنید نے موبائل فون کی ٹارچ بند کرتے ہوئے کہا۔اس جگہ ایک بارپھر اندھیرا چھا گیا تھا۔اس اندھیرے میں اُسے اور بھی خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ابھی تک اس شخص نے اپنی صحیح شناخت نہیں کرائی تھی۔
”پڑھے لکھے ہو۔خوبصورت بھی ہو۔کیا کام کرتے ہو۔کہاں رہتے ہو۔“ اس شخس نے پوچھا۔
”آپ یہاں کیوں چھپے ہوئے تھے۔
“جنید نے حوصلہ پکڑا تو اس نے سوال کیا۔وہ ابھی اپنے بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا۔
”لمبی داستان ہے۔بس اتنا جان لو کہ دشمن دار ہوں۔“وہ ایک طرف چادر کی اچھی طرح سے بکل مار کر بیٹھ گیا۔”دشمنی خون میں رچ بس گئی ہے۔جب تک دشمن کی چوٹ نہ لگے اور دشمن کو اس چوٹ کا جواب نہ دے دوں دل کو سکون ہی نہیں ملتا۔اب تو دشمنی حقے کی طرح لگتی ہے۔
کش لینے کے بغیر مزہ نہیں آتا۔“وہ پھر ہنسا۔”تم بتاوٴ اپنے بارے میں۔“
”کیا بتاوٴں۔؟“جنید بولا۔
”نام کیا ہے۔؟“اس نے پوچھا۔
جنید سوچنے لگا اسے وہ اپنا کیا نام بتائے۔ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھا کہ وہ شخص پھر بولا۔
”گھبراوٴ نہیں…بتادے۔یہ میرا ہی علاقہ ہے۔جس جیپ میں میں اپنے گاوٴں جارہا تھا وہ جیپ خراب ہوگئی۔
میرے آدمی اس جیپ کو ٹھیک کروانے کے لئے یہاں سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مکینک ہے اس کے پاس لے کر گئے ہیں۔گھوڑا گاڑی کے پیچھے باندھ کر۔ اکیلا اپنے گاوٴں نہیں جاسکتا۔وہ آئیں گے تو ان کے ساتھ جاوٴں گا۔ہوسکتا ہے میں تیری کوئی مدد کرسکوں۔پورے گاوٴں کا مالک ہوں۔زمین دار ہوں۔کوئی کمی کمین نہیں ہوں۔اور پھر پورے گاوٴں میں میرا رعب دبدبہ ہے۔
“یہ بتاتے ہوئے اس شخص کی گردن تن گئی تھی۔
”میرا نام جنید ہے او رمیں شہر میں رہتا ہوں۔ “جنید نے بتا ہی دیا۔
”کہاں جارہے تھے۔“اس نے اگلا سوال کیا۔
”پتہ نہیں۔“جنید نے جواب دیا۔
”یہ جو تم نے پتہ نہیں کہا ہے ناں اس سے لگتا ہے کہ تیری کہانی بھی فارغ وقت میں سننے والی ہے۔چلو میرے ساتھ حویلی…وہاں بات ہوگی۔“اس کے ساتھ ہی اس شخص کی چادر سرک گئی اور اس کا بازو جو چادر کے اندر تھا وہ عیاں ہوگیا۔
اس بازو پر زنجیر بندھی ہوئی تھی۔وہ کیونکہ جنید سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑا تھا اس لئے جنید کو اس کی زنجیر فوری نظر آگئی۔
”یہ کیا ہے۔؟“جنید ایک دم چونک کر بولا۔
”یہ…“اس نے اپنی چادر ٹھیک کی اور بولا۔”تین ماہ سے جیل میں تھا۔آج میری پیشی تھی وہاں سے بھاگا ہوں۔ایسے ہی نہیں بھاگا ہزاروں خرچ کئے ہیں۔پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے۔
پیسہ بھی عجیب طاقت ہے۔دن کے اجالے میں چھپتا رہا اور شام ہوتے ہی میرے آدمی جیپ لے کر اس جگہ پہنچ گئے اور جیپ نے یہاں دھوکہ دے دیا۔خراب ہوگئی۔شاید تم سے ملنا تھا اس لئے ایسا ہوا۔“اس شخص نے لاپروائی سے بتایا۔
”کس جرم میں اندر تھے آپ۔؟“جنید نے پوچھا۔
”سب بتادوں گا۔بہت باتیں ہونگی۔حویلی چلتے ہیں۔“اس شخص نے مسکرا کر اس کے سوال کو دبا دیا۔
جنید نے انکار کرتے ہوئے کہا۔”میں نہیں جاوٴں گاآپ کی حویلی میں۔“
”ساری رات یہاں رہے گا تو سردی سے مر جاوٴ گے یا پھر کوئی جانور کہیں سے آجائے گا۔ سانپ ،بچھو اور جانے کیا کیا ہے یہاں۔“اس شخص نے ابھی یہ کہا ہی تھا کہ سڑک پر دور ایک نقطہ سا دکھائی دینے لگا۔اس شخص کی نگاہیں اس جانب مرکوز ہوگئی۔اس نے جلدی سے جنید کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر بڑی سی جھاڑی کے پیچھے اس لے کر بیٹھ گیا۔
اس کی نگاہیں اس نقطے کی طرف تھیں جو تیزی سے ان کی جانب بڑھ رہا تھا۔وہ نقطہ قریب آتا جارہا تھا۔وہ جیپ کی ہیڈ لائیٹس تھیں۔اور پھر ان کے پاس ایک جیپ آکر کھڑی ہوگئی۔ہیڈ لائٹ بند کردی اور انجن چلنے کی آواز اس سکوت کو برباد کرنے لگی۔
جیپ کے اندر سے دو جوان نکلے۔دونوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا۔انہوں نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا اور وہ شخص جنید کے ساتھ جھاڑی کے پیچھے سے نکل کر ان کے سامنے آگیا۔ایک اجنبی کو اس شخص کے ساتھ دیکھ کر انہوں نے جنید پر اسلحہ تان لیا۔
”بس …بس نیچے کرلو۔دشمن نہیں ہے ہمارا۔یہ ہمارا مہمان ہے۔“اس شخص نے کہا اور انہوں نے اسلحہ نیچے کرلیا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum