Episode 33 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 33 - زنجیر - فاروق انجم

”بیٹی پر اتنا ہی فخر ہے تو اس کے نام زمین بھی کردینی تھی ۔خاندان میں ناک کٹوا دی ہے اس نے۔ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ بغیر زمین کے ہی اس خاندان کی بہو بن گئی ہے۔ہم ترس کھا کر اس کو بیاہ کر لائے ہیں کیا۔“ملک صادق کی آواز بہت بلند تھی۔
”ہم بیٹیوں کو جہیز میں زمین نہ دیتے ہیں اور نہ لیتے ہیں۔“
”پھر اسے گھر میں ہی رکھناتھا۔بیاہ کیوں دیا ۔
“ملک صادق نے ہاتھ جھٹکا۔
”مجھے اگر پتا ہوتا کہ تم باپ بیٹے کا دل لالچ کا گڑھا ہے تو میں اپنی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے تم لوگوں کو منع کردیتا۔“
”تم نے تو موقعہ ہاتھ سے جانے دیا لیکن ہم یہ موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے ۔ اس سے پہلے کہ ہمارے ایک اشارے پر اس جگہ تم دونوں باپ بیٹے کا حال برا ہوجائے،چلے جاوٴ اس حویلی سے۔

(جاری ہے)

“ملک صادق چیخا۔

ملک خلیل نے اپنے بیٹے کے بڑھتے ہوئے قدم روک کر کہا۔”ہم کلثوم سے ملنا چاہتے ہیں۔“
”اس سے تم لوگ نہیں مل سکتے۔“ملک صادق نے صاف انکار کردیا۔
”وہ میری بیٹی ہے۔“ملک خلیل اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
”اب وہ میری بیوی ہے۔جو میرا حکم ہوگا وہی وہ کرے گی۔“بشارت نے آگے بڑھ کر اطمینان سے کہا۔
”وہ تمہاری غلام نہیں ہے۔
“ملک خلیل بولا۔
”ہم اپنی بیویوں کو غلام کی طرح ہی رکھتے ہیں جب وہ ہماری حویلی میں خالی ہاتھ آتی ہیں۔“بشارت دانت پیس کر بولا۔
”بس بہت ہوگیا۔“بہت دیر سے چپ کھڑا برداشت کرتا ہوا الیاس ایک دم بولا۔’ ’ بلاوٴ کلثوم کو کہاں ہے۔“
”میرے آدمی تجھے سرمے کی طرح پیس دیں گے سمجھے۔اپنے باپ کو لے کر اس حویلی سے چلے جاوٴ۔“بشارت نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور ملک خلیل یہ سوچ کر ان کے درمیان میں آگیا کہ غصے میں بہت کچھ کہہ اور سن لیا ہے۔بات کو مزید بگاڑنے کی بجائے اس جگہ سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔
”الیاس چلو چلیں۔“
”مجھے کلثوم سے مل کر جانا ہے۔“
”ہم پھر آئیں گے۔تم چلو ۔“
”نہیں ابا …ہم ڈرنے والوں میں نہیں ہے۔کلثوم سے مل کر جاوٴں گا ورنہ…“ الیاس بھی ضد میں آگیا۔
”ورنہ کیا کرو گے۔“بشارت نے ایک دم اس کا گریبان پکڑ لیا۔اس سے پہلے کہ جواب میں الیاس بھی کچھ کرتا،ملک خلیل نے بشارت کو پیچھے ہٹا کر اس کا گریبان چھڑایا اور الیاس سے بولا۔
”جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو اور چلو میرے ساتھ۔“
”باپ کی بات مان اور اپنی ٹانگوں پر چل کر چلا جا۔ورنہ تجھے یہاں سے کندھوں پر سوار ہوکر جانا پڑے گا۔
“بشارت بولا۔
الیاس اس بات کا بھی جواب دینا چاہتا تھا لیکن ایک تو ملک خلیل اس کے سامنے کھڑا تھا اور دوسرا الیاس کو اپنی بہن کلثوم کا خیال آرہا تھا۔وہ بہت کچھ زہر کی طرح پی کر ملک خلیل کے ساتھ اس حویلی سے چلا گیا ۔
اس بات کو تین دن گزر گئے تھے۔ملک خلیل اپنے بیٹوں سے ابھی اصلاح مشورہ ہی کررہا تھا کہ وہ کیا کریں، بشارت نے اس دوران کلثوم پر شدید تشدد کیا اور اسے کمرے میں بند کردیا۔
ملک صادق کا دور کا رشتے دار جس کانام منظور تھا،اس حویلی میں ہی رہتا تھا۔یوں تو وہ ملک صادق کا دم بھرتا تھااس کی حویلی کے اندر کے تمام کام اس کے ذمے ہی ہوتے تھے در پردہ وہ ملک خلیل کا خاص ترین آدمی تھا۔اس پر ملک خلیل نے کچھ ایسے احسانات کئے تھے جن کو فراموش کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔وہ جب بھی ملک خلیل کے گاوٴں آتا اس سے مل کر ضرور جاتا تھا۔
منظور پہلے ملک صادق کے پولٹری فارم کی دیکھ بھال کرتا تھا۔اس نے اپنی خدمت اور وفاداری کا ایسا نشان ملک صادق اور اس کے بیٹوں کے دلوں پر چھوڑا تھا کہ وہ ہر کام اسی سے کروانے لگے تھے۔جب بشارت اور کلثوم کی شادی کی بات چیت چل رہی تھی ان ہی دنوں منظور اپنے والدین کے پاس سندھ کے ایک گاوٴں میں گیا ہوا تھا۔اس کی واپسی اس وقت ہوئی تھی جب دونوں خاندانوں میں رنجش پیدا ہوچکی تھی۔
پہلے تو اسے یہ دکھ ہوا کہ ملک خلیل نے اپنی بیٹی کی شادی کرنے میں اتنی عجلت کا مظاہر ہ کیاکہ اس سے بھی اس نے اس خاندان کے بارے میں پوچھا نہیں۔ملک خلیل کو بس ملک صادق کا خاندان اور اپنی برادری نظر آرہی تھی اس لئے اس نے بھی منظور سے اس بارے میں نہ تو پوچھا اور نہ ہی یہ تذکرہ کیا کہ ان کی حویلی میں رہنے والا منظور ان کابھی منظور نظر ہے۔
 منظور کو چاپلوسی کی عادت تھی۔جب وہ ملک صادق کی تعریف کرتا تو ملک صادق پھولے نہیں سماتا تھا۔ملک صادق کا حقہ منظور ہی تیار کرتا تھا۔اور یہ بھی ایک عجیب نشہ تھا کہ ملک صادق کو منظور کا تیا ر کیا ہوا حقہ ہی پینے میں مزہ آتا تھا۔
کلثوم کو تشدد کے بعد جس کمرے میں بند کیا تھا،اس کمرے تک منظور کی رسائی اس لئے ہوگئی کہ حویلی کے سارے لوگ ایک شادی میں چلے گئے تھے ۔
منظور اکیلا ہی حویلی میں تھا اور باہر ملازمین تھے۔
منظور نے کلثوم کو سب کی نظر بچا کر اس حویلی سے نکالا اور حویلی سے دور لے جاکر الیا س کو فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کردیا۔آدھے گھنٹے میں الیاس اپنے آدمیوں کے ساتھ اس جگہ پہنچ گیا اور زخمی حالت میں کلثوم کو اپنے ساتھ لے گیا۔منظور چپ چاپ پھر حویلی میں آگیا۔اپنی چارپائی پر جانے سے قبل منظور نے اس کمرے کی کھڑکی کی کنڈی کھول دی جس میں انہوں نے کلثوم کو قید کیا تھا اور باونڈری وال کے ساتھ ایک خالی ڈرم رکھ دیاتھا۔
جب ملک صادق اپنے خاندان کے ساتھ واپس حویلی میں آیا اور بشارت نے اس کمرے کو کھول کر دیکھا تو وہ دنگ رہ گیا کیونکہ کمرے میں کلثوم نہیں تھی جبکہ باہر سے کمرے کے دروازے کو تالا بھی لگا ہوا تھا۔سب پریشان ہوگئے۔ملک صادق کو منظور پر ایک فیصد بھی شک نہیں تھا۔انہوں نے تو منظور کے آگے کلثوم کا تذکرہ بھی نہیں کیا تھا۔لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ کلثوم کیسے چلی گئی۔
؟جبکہ تالا لگا ہوا تھا۔چوکیدار سے بھی انہوں نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا تھا کہ کوئی آیا گیاتو نہیں۔
”حویلی میں منظور ہی تھا۔اس سے پوچھتے ہیں۔“بشارت نے کہا۔
”پہلے مجھے اس کمرے تک لے کر چلو۔“کچھ سوچنے کے بعد ملک صادق بولا۔
بشارت اسے اس کمرے تک لے گیا۔ملک صادق نے اچھی طرح سے کمرے کا جائزہ لیا اور اس کی نگاہیں اس کھڑکی پر رک گئیں جس کی کنڈی کھلی ہوئی تھی۔
”یہ کھڑکی بند کی تھی۔“ملک صادق نے پوچھا۔
”ہاں بند تو کی تھی۔“بشارت کی نظریں اس کھڑکی پر رک گئیں۔
پہلی بار بشارت کی نظر بھی اس طرف گئی تھی۔اس نے کھڑکی کھول کر دوسری طرف دیکھا۔اس کمرے کے ساتھ ہی حویلی کی دیوار تھی۔اور دیوار کے ساتھ منظور کا رکھا ہوا خالی ڈرم بھی تھا۔وہ سمجھ گئے کہ کلثوم اس کھڑکی سے نکل کر ڈرم کی مدد سے دیوار پر چڑھی اور دوسری طرف کو د گئی۔ملک صداقت کو اپنے چوکیدار پر غصہ تو بہت آیا لیکن وہ اس لئے پی گیا کیونکہ وہ اس بات کو کسی پر عیاں نہیں کرنا چاہتا تھا۔اُس نے اپنے تمام گھر والوں کو سختی سے تاکید کردی کہ وہ اس بات کا تذکر ہ کسی سے بھی نہیں کریں گے کہ ان کی بہو اس حویلی سے فرار ہوگئی ہے۔ سب نے چپ سادھ لی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum